چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط نہم)

فلسطینی مزاحمت کی ناکامی کا ایک بڑا سبب کسی مرکزی کمان کا نہ ہونا بھی تھا


وسعت اللہ خان March 29, 2025

فلسطینیوں کی پہلی مزاحمتِ عظیم (انیس سو چھتیس تا انتالیس) شدت اور حجم کے اعتبار سے اس قدر وسیع تھی کہ برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ اور یہودی آبادکاروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔مگر جب سامراجی انتظامیہ نے فلسطینی سماج میں کمزور شگافوں کا اندازہ لگا لیا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ اردگرد کی مصلحت کوش عرب حکومتیں برطانوی صیہونی گٹھ جوڑ کے لیے عسکری و سیاسی لحاظ سے کوئی خطرہ نہیں اور ان حکومتوں میں فلسطین کے تعلق سے ایکا ممکن نہیں تو شورش کو کچلنا آسان ہو گیا۔

اگرچہ برطانوی انتظامیہ سرکاری طور پر کسی مسلح صیہونی ملیشیا کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔مگر فلسطینی بغاوت کو کچلنا مشترکہ مقصد بن گیا۔انیس سو اڑتیس کے موسمِ گرما تک فلسطین میں برطانوی صیہونی گٹھ جوڑ سے نبرد آزما مسلح فلسطینیوں کی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔چنانچہ برطانیہ نے صیہونی بستیوں کے تحفظ کے لیے جیوش سیٹلمنٹ پولیس ، جیوش گارڈز اور مشترکہ قاتل نائٹ اسکواڈز تشکیل دے کر اپنی فلسطین دشمنی کو ’’ آؤٹ سورس ‘‘ کر دیا۔

یہ نیم سرکاری فوجی تنظیمیں بے فکری سے عربوں کو پکڑ کے مار سکتی تھیں ، ٹارچر کے ذریعے اپاہج کر سکتی تھیں۔ان تنظیموں کے بیس ہزار ارکان کو اسلحہ رکھنے اور اس کے استعمال کی کھلی چھوٹ تھی۔اور یہ سب برطانوی انتظامیہ کے بجائے جیوش ایجنسی کی متوازی حکومت کو جوابدہ تھے۔

ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہگانہ ملیشیا نے یہودی بستیوں میں اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کر لیں۔ان فیکٹریوں میں بارودی سرنگیں ، مورٹار گولے اور دستی بم تیار ہونے لگے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جون انیس سو سینتیس میں برطانوی انتظامیہ نے قانون لاگو کیا کہ جس کے قبضے سے غیرقانونی اسلحہ اور بارود برآمد ہوا اسے سزائے موت دی جائے گی۔مگر اس قانون کا نشانہ فلسطینی تھے۔مزاحمت کے دوران اسلحہ سمیت پکڑے جانے والے جن ایک سو آٹھ ملزموں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ان میں صرف تین یہودی اور ایک سو پانچ عرب تھے۔

برطانوی انتظامیہ اور جیوش ایجنسی نے انٹیلی جینس معلومات اکٹھی کرنے میں بھی مکمل تعاون کیا اور بعد ازاں یہ معلومات اس وقت بہت کام آئیں جب نومبر انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے بعد یہودیوں کو الاٹ ہونے والے علاقوں سے فلسطینیوں کی اجتماعی بے دخلی کا کام شروع ہوا۔

پہلی عظیم مزاحمت کو کچلنے میں کچھ فلسطینی رہنماؤں نے بھی برطانیہ اور صیہونیوں کا ساتھ دیا۔ اردن کے شاہ عبداللہ بظاہر مزاحمت کے ساتھ بھی تھے اور فلسطین کی برطانوی انتظامیہ کو بھی ان پر پورا اعتماد تھا اور جیوش ایجنسی بھی انھیں اپنے مفادات کے لیے کوئی خطرہ نہیں سمجھتی تھی۔

 فلسطینیوں کی مسلسل قربانیوں کے باوجود اس مزاحمت کی ناکامی میں سرکاری بے رحمی کے علاوہ فلسطینیوں کے دو بڑے سیاسی خاندانوں النشیشیبی اور الحسینی کی سیاسی چشمک نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

جب حاجی امین الحسینی کو کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے فلسطین چھوڑنا پڑا تو انھوں نے جنوری انیس سو سینتیس میں برلن میں ایڈولف ہٹلر سے ملاقات میں برطانویوں اور صیہونیوں کے خلاف مدد طلب کی اور تعاون کا وعدہ کیا۔مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

صیہونیوں نے الحسینی ہٹلر ملاقات کے بعد آسمان سر پے اٹھا لیا حالانکہ خود صیہونیوں کا ایک دھڑا (ارگون ) جرمن یہودیوں کی فلسطین منتقلی کے عوض ہٹلر سے تعاون کے لیے کوشاںرہا۔صیہونی پروپیگنڈے کے مطابق فلسطینیوں کو اطالوی فاشسٹ ڈکٹیٹر مسولینی اور نازی جرمنی کی جانب سے مالی اور فوجی امداد ملتی رہی مگر برطانوی انٹیلی جینس ذرایع نے کبھی تصدیق نہیں کی کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو جرمن امداد یا اطالوی اسلحہ میسر آیا۔

جب کہ النشیشیبی خاندان نے برطانوی انتظامیہ سے تعاون کرتے ہوئے بغاوت کچلنے کے لیے اپنے زیرِ اثر کسانوں پر مشتمل مسلح ’’ امن دستے ‘‘ تشکیل دیے۔ان کا کام مزاحمت کاروں کی مخبری اور مشترکہ مسلح کارروائیوں میں حصہ لینا تھا۔ دروز اقلیت نے بھی برطانوی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔

راغب النشیشیبی نے جیوش ایجنسی کے سربراہ موشے شرتوک کو شورش پسندوں سے نمٹنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ان وفاداروں کو نہ صرف برطانوی انتظامیہ بلکہ جیوش ایجنسی کی جانب سے بھی مالی امداد ملتی رہی۔جب اکتوبر انیس سو اڑتیس میں مسلح مزاحمت کار یروشلم کے قدیم شہر پر قبضہ کر کے قلعہ بند ہو گئے تو قبضہ چھڑانے میں النشییبی خاندان کے امن دستوں نے برطانوی دستوں کا بھرپور ساتھ دیا۔

مئی انیس سو انتالیس تک مزاحمت کا زور ٹوٹ گیا۔چنانچہ برطانوی انتظامیہ نے امن دستوں کو تحلیل کر کے ان سے اسلحہ واپس لے لیا۔مگر صیہونیوں کو دیا گیا اسلحہ واپس نہیں لیا جا سکا۔ النشیشیبی خاندان کو فلسطینی اکثریت بطور غدار دیکھتی تھی لہٰذا ان کے پاس سوائے اس کے کوئی راہ نہیں تھی کہ وہ آخری لمحے تک برطانوی انتظامیہ کا ساتھ دیتے رہیں اور ان کی پناہ میں رہیں۔

فلسطینی مزاحمت کی ناکامی کا ایک بڑا سبب کسی مرکزی کمان کا نہ ہونا بھی تھا۔مزاحمت میں دو سو بیاسی مسلح کمانڈروں نے حصہ لیا مگر وہ انفرادی طور پر اپنے زیرِ اثر علاقوں میں ہی متحرک رہے۔کسی متحدہ کمان کی عدم موجودگی میں برطانوی انتظامیہ کے لیے ان سے نمٹنا خاصا آسان ہوگیا۔برطانوی اور صیہونی میڈیا انھیں باغی ، ڈاکو ، دہشت گرد اور غنڈہ کہتا رہا۔گنے چنے عرب اخبارات تھے جن میں ان مزاحمت کاروں کو مجاہدین یا فدائین کہا جاتا رہا۔

کوئی بھی مزاحمتی تحریک جاری رکھنے کے لیے پیسہ چاہیے۔برطانوی انتظامیہ کو کبھی مالی بحران درپیش نہیں رہا۔جیوش ایجنسی کو یورپ اور امریکا کے مالدار یہودیوں کا بھرپور ساتھ ملا۔مگر فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس مسلسل مالی امداد کا کبھی کوئی بااعتماد ذریعہ نہیں رہا۔بہت سی عورتوں نے اپنا زیور دے دیا۔کسانوں نے فصلوں پر عائد جہاد ٹیکس رضاکارانہ ادا کیا۔سرکاری ملازموں نے تنخواہ کا ایک حصہ پوشیدہ طور پر کسی نہ کسی مزاحمتی گروہ کو دیا۔کچھ مخیر خاندانوں نے خفیہ مدد کی مگر بہت سے اپنا سرمایہ بچانے کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ مزاحمت کی مرکزی قیادت ( عرب ہائر کمیٹی ) عرب حکومتوں سے مسلسل مالی مدد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جب آٹھ برس بعد ( نومبر انیس سو سینتالیس ) پارٹیشن کا اعلان ہوا تو جنگی تجربات سے مالامال مسلح صیہونی دستے تازہ دم تھے جب کہ فلسطینی غیر مسلح اور کمزور ہو چکے تھے۔

اگر انیس سو چھتیس تا انتالیس کی غیر منظم مزاحمت کے بجائے فلسطینی اپنی قوت مجتمع رکھتے تو انیس سو سینتالیس اڑتالیس میں وہ عددی اکثریت اور تازہ دم ہونے کے سبب صیہونیوں کو ناکوں چنے چبوا سکتے تھے۔ اسرائیل کاغذوں میں قائم ہونے کے باوجود زمین پر اتنی آسانی سے قائم نہ ہو پاتا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں