عید کے دن

یہ موقعہ یہ خوشی، یہ تہوار عیدالفطر تو ہمیں ہمارے رب کی جانب سے عطا کیا گیا ہے


شہلا اعجاز March 30, 2025

لٹے پٹے فلسطین پر زخمی اذیت ناک حالتوں میں لوٹتے لوگوں کی خواہشات پُر امید تھیں پر یہ کیا۔۔۔ فضا ایک بار پھر بارود کی خوشبو سے رچ گئی، شعلے چاروں جانب سے ابلنے لگے کہ ایک قیامت ابھی باقی ہے۔

کیا انسان پیش گوئیوں پر یقین کر سکتا ہے اور اگر کر سکتا ہے تو اس پیش گوئی کو بنانے بگاڑنے میں خود اس کا کتنا عمل دخل ہے۔ یہ طے تھا کہ ستمبر 2023 کے بعد فلسطین آگ و خون کی جنگ کی نذر ہوگا پر ایک بار پھر اسی علاقے پر یہ جنگ زبردستی مسلط کر دی جائے گی یہ پیش گوئی یا خواب بہت اذیت ناک تھا جو دیکھنے میں ہی دہلا دینے والا تھا پر اس کی حقیقت اس سے بھی زیادہ المناک ہے۔

ولادی میر پیوتن نے دنیا کو خبردار کر دیا تھا کہ اگر کسی بھی ملک نے روس پر ایٹمی حملہ کیا تو اسے زمین کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا۔ یہ ایک کھلا پیغام تھا دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے جو روس کے لیے منفی انداز میں سوچتے ہیں۔’’یوکرین کی جنگ یا تو روس کی فتح کے ساتھ یا پھر دنیا کے تباہ ہونے سے ختم ہوگی۔‘‘

 الیگزینڈر ڈوگین ممتاز روسی فلسفی جن کا دماغ دراصل پیوتن کا دماغ کہلایا جاتا ہے ان کے ایک خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے اس قسم کے جذبات یہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کسی حال میں بھی ہار نہیں چاہتے۔

پچھلے کئی مہینوں سے فلسطین میں اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں چلتا رہا، اس عجیب بے ہنگم جنگ سے کون واقف نہیں کہ ایک خطہ سلگ رہا ہے تو دوسرے خطے میں سکون و عیاشی کا دور جاری ہے کہ بگل کس کے ہاتھ میں ہے۔

بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے لیکن زمینی حقائق بھی وہی ہوتے ہیں جنھیں ہم جیسے چلتے پھرتے انسان ہی کسی نہ کسی طرح تخلیق کرتے ہیں۔ فلسطین کے لیے پہلے جنگ بندی کا رنگین رومال اور پھر وطن لوٹنے والوں پر ایک نیا عذاب کیا کسی سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے کہ روئے زمین سے ہی مٹا دیے جائیں کہ پھر زمین کے لیے کلیم کرنے والے ہی نہ ہوں گے۔

روس کی تندی اور سختی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی طرف جھکنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ یہ ان کی اپنی سفاکی ہے کہ وہ مظلوم کے بجائے عہد فرعونیت کے ٹھپے کے ساتھ ظالم سے جڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے اسرائیل کو تمام تر ظلم، بے ایمانیوں، جبر اور بددیانتی کے ساتھ گلے لگا کر ثابت کر دیا کہ ان کی تمام نیک تمنائیں جو کبھی نیک ہی نہ تھیں ایک مکر و فریب سے لپٹے جابر کے ساتھ ہیں۔

یہ ایک سانحہ ہے جو دنیا نے دیکھا کہ زخمی، غموں کے مارے مجبور بے کس بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر جو پہلے ہی اپنوں کی جدائی کے غم میں سسک رہے تھے ایک بار پھر گولوں کی نذر کر دیا گیا۔

اور دنیا خاموش ہے عرب کی زمین خاموش ہے کہ بولنا کفر سمجھ لیا ہے جیسے اور کوئی طاقت ان کو بولنے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور نہیں کرسکتی، سوائے ان کے اپنے اندر اس جابر نفس کے جو عود کرکرتا ہے اور سارے احساسات و جذبات کو مادہ پرستی، تعصب اور دشمنی کی آگ میں بھسم کر دیتا ہے۔

ہم رمضان کے اس الوداعی دور میں دیکھ رہے ہیں کہ انسان اپنے ہی خون میں رنگے عید کی مبارک باد کیسے دے سکتے ہیں جب ہمارے اپنے ہی بھائی نفیس، ریشمی پوشاک میں سجے مہنگے خوشبویات میں بسے ایک دوسرے میں گلے لگ کر عید کی مبارک باد دیتے رب العزت کی جانب سے عطا کیے گئے اس پرمسرت موقع کو منا رہے ہیں تو کس کے لیے اورکیوں؟

یہ موقعہ یہ خوشی، یہ تہوار عیدالفطر تو ہمیں ہمارے رب کی جانب سے عطا کیا گیا ہے، ایسا مذہب ایسے دین کے علم بردار ہیں جو ہمیں مساوات، رواداری، اخوت، بھائی چارگی کے پیغام کو سکھاتا ہے، سمجھاتا ہے اور عمل کرنے پر زور دیتا ہے۔

پر یہ کیسی بے بسی ہے کہ ہم اسی دین کے ماننے والے اپنے رب کے عطا کردہ اس تہوار کو اپنے ہی بھائیوں کی بے کسی، مجبوری، دکھ، اذیت اور تکلیفوں کو دیکھنے سمجھنے کے بعد نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی دوغلی چال ہے، کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمارا رب ہمارے اندر، باہر، حال، مستقبل، ماضی سب سے باخبر ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے وہ بھی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

جو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو دنیا کی اتنی بڑی طاقت کا حکمراں بنا سکتا ہے۔ بوٹے سے قد کے پیوتن کو اتنا جوشیلا اور لیڈر بنا سکتا ہے کہ جو دنیا کو تباہ کرنے کی خواہش بھی کر سکتا ہے تو وہ رب کیا کچھ نہیں کر سکتا۔

 عید سعید کے اس پرنور موقع پر ہم اپنے تمام بہن بھائیوں کے لیے دل سے دعاگو ہیں کہ وہ اس عید کے اصل پیغام کو سمجھیں، اس کی روح کو جانیں کہ یہ عیش، عیاشی اور مستیوں کا تہوار نہیں بلکہ ہمارے رب العزت کی جانب سے دی گئی خوشیوں کا دن ہے تو کیا ہم اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت اپنی خوشی کی دعاؤں میں اپنے بہن بھائیوں کو یاد رکھ کر کر سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں