
کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی ناقص ہے اور ٹرانسپورٹ کے اس فرسودہ نظام کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے یہ شہر آبادی کے اعتبار سے بھی تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن کراچی کے سب سے بڑے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے مشکلات بڑھ رہی ہیں اور غریب آبادی بسوں، منی بسوں میں جانوروں کی طرح چھتوں پر سفرکرنے پر مجبور ہیں۔
یہ المیہ سے کم صورتحال نہیں ہے کہ کراچی شہر کی زیادہ تر آبادی خصوصاً مضافات کے لوگ آمدورفت کے لیے بسوں، منی بسوں، رکشائوں کا انتخاب کرتے ہیں اور صبح کے وقت تو ٹرانسپورٹ کی مشکلات بہت بڑھ جاتی ہیں۔
سرکاری ملازمین، فیکٹریوں میں کام کرنے والے اور تجارتی امور سے منسلک افراد کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس طرح شام کو بھی کم و بیش یہی صورتحال ہوتی ہے، کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو عملی تدابیر اختیارکرنی ہوں گی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے پر ترجیحی بنیاد پر توجہ دینی ہوگی۔ ماس ٹرانزٹ اسکیم پر بھی عملدرآمد کرنا ہوگا اور لوکل ٹرینوں کے نظام کو بھی بہتر شکل دینی ہوگی۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جب نعمت اللہ خان ناظم تھے تو کراچی کے ماسٹر پلان کے لیے بڑی رقم فراہم کی گئی تھی اور جماعت اسلامی نے پورے شہر میں جنرل پرویز مشرف کی فوجداری پر بنی ہوئی اور نعمت اللہ خان کی تصاویر لگائی تھیں لیکن اربوں روپے کے ٹرانسپورٹ کے بجٹ کے باوجود کراچی کے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اس وقت بھی حل نہیں ہوسکا تھا اور آج بھی کراچی کے شہری بدترین ٹرانسپورٹ کے مسائل کا شکار ہیں اور وہ حکومت سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ سب سے پہلے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل پر توجہ دی جائے۔
سندھ حکومت کی تازہ ترین رپورٹ میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔ حکومت نے جب خود تسلیم کرلیا ہے کہ کراچی کے شہریوں کے ٹرانسپورٹ کے نظام انتہائی ناقص ہے تو پھر اصلاح احوال کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کراچی کے شہریوں کے ساتھ یہ صریحاً ظلم ہے کہ انھیں ٹرانسپورٹ کی بنیادی سہولت بھی حاصل نہیں ہے، مضافاتی بستیوں کے لاکھوں لوگ روزانہ ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ متحدہ کے ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی میں جتنے بھی فلائی اوور بنائے گئے ہیں اس سے عام آدمیوں کو فائدہ کم پہنچا ہے جب کہ کاروں پر سفرکرنے والوں کے اوقات کار میں فلائی اوور سے کمی ہوئی ہے اورکاروں کی آمدورفت کا نظام بہتر ہوا ہے۔
فلائی اوور سے شہریوں کو زیادہ فوائد حاصل اس لیے بھی نہیں ہوئے ہیں کہ کراچی کے ٹرانسپورٹ کا نظام بنیادی طور پر ناقص ہے اور اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے جس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، اس سے ہمیشہ انحراف کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں جتنے بھی فلائی اوورز بنے ہیں اس میں وفاقی حکومت سندھ حکومت یا سٹی گورنمنٹ کی کوئی رقم خرچ نہیں کی گئی ہے۔
یہ فلائی اوور جاپان کی حکومت کی امداد سے تعمیرکیے گئے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ معاہدے کے تحت جاپان پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں کر رہا ہے اور اس سلسلے میں جاپانی ماہرین کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں کا بھی دورہ کرچکے ہیں اور کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے متعلق رپورٹیں دے چکے ہیں۔
ان چشم کشا رپورٹوں میں جاپانی ماہرین نے حکومت پاکستان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔حکومت سندھ کے ٹرانسپورٹ کے حکام کی ذمے داری ہے کہ وہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے تمام شہروں، دیہاتوں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرے۔ عارضی اقدامات کے بجائے مستقل منصوبہ بندی کرے اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے۔
ٹریفک پولیس کو حسن اخلاقی کی تربیت دے اور ٹریفک پولیس میں بڑھتی ہوئے کرپشن کو روکے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب ٹرانسپورٹ کا محکمہ شہریوں کے مسائل کو نہ صرف سمجھے بلکہ انھیں حل کرنے کے لیے جامع حکمت عملی طے کرے۔ جاپان کی حکومت اور کارکمپنیاں کراچی کے ٹرانسپورٹ کے پورے نظام کو اس لیے بھی بہتر بنانا چاہتی ہیں کہ کراچی شہر میں جاپانی کمپنیوں کی بہت کھپت ہے۔
یہ ان کے خود اپنے معاشی مفاد میں ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہو، تاکہ جاپان کی کاروں کی کھپت اس شہر میں مزید بڑھ سکے۔ جاپان کے ٹرانسپورٹ کے ممتاز ماہر مینورو شیبویا نے کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے متعلق جو ٹرانسپورٹ رپورٹ 2030کے متعلق وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو پیش کی تھی اس میں کہا گیا ہے کہ 2030تک کراچی کی آبادی 31.6 ملین نفوس تک پہنچ جائے گی۔
آبادی میں اس اضافے سے ٹرانسپورٹ کے شہریوں کے لیے مسائل بڑھیں گے جس سے کراچی کے شہریوں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا اور ملکی اقتصادیات پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ میں کراچی کے ٹرانسپورٹ کے روڈ نیٹ ورک میں نئے کوریڈور کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔