
بجلی کی قیمت تو ایک ہی جھٹکے میں کافی کم ہو گئی۔ اب کریڈٹ کا جھگڑا ہے۔ اس معرکے میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف سرخ رو ہوئے جو عمر بھر کا سرمایہ دا پر لگا کر حکومت بنانے پر مجبور ہوئے یا جماعت اسلامی جس نے عمومی سیاسی روایت کے برعکس کوئی ذاتی سیاسی ایجنڈا بالائے طاق رکھ کر ایک بڑے اور حقیقی مسئلے کو قومی ایجنڈے کا موضوع بنانے کی کام یاب کوشش کی۔
یہ بحث کچھ دن چلے گی، اسے چلنا بھی چاہیے کیوں کہ سیاسی گہما گہمی اور رونق کے لیے ایسا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ دو مزید پہلو بھی پیش نظر رہنے چاہیں۔ ان میں ایک تو معاملہ تو ایک نحیف سی آواز سی آواز کا ہے۔ کہا گیا کہ بجلی کا فی یونٹ نرخ پچاس ساٹھ روپے پر پہنچا کر سات آٹھ روپے کی کمی کون سا ایسا کارنامہ ہے؟ سیاسی رسا کشی میں انسان جو چاہے کہہ دے لیکن ایسی صورت حال بعض اوقات گلے بھی پڑ جاتی پے۔
چند ہفتے ہوتے ہیں، اڈیالہ سے ایک خبر آئی تھی جس کے مطابق عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت معیشت کو استحکام دینے میں کا یاب ہو گئی ہے۔ یہ اعتراف سفر کرتا ہوا سوچنے سمجھنے والے ووٹر تک جا پہنچا ہے لہٰذااب گزشتہ دو انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے بڑے اور نوجوان دونوں کھلے دل سے تسلیم کر رہے ہیں کہ شہباز کی پرواز واقعی خوب رہی ہے۔ یوں گویا بیرسٹر سیف نے جو بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے، اس کا پھول کھلنے سے پہلے مرجھا گیا ہے۔
سبب کیا ہے؟ سبب وہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طاقت ہے جسے پی ٹی آئی نے ہمیشہ اپنی قوت سمجھا۔ اس قسم کی طاقت کاٹھ کی وہ ہنڈیاجیسی ہوتی ہے جسے ہمیشہ چولہے پر چڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ الفاظ کی جادو گری ہو یا شعبدے باز کی بازی گری، یہ دونوں چیزیں پائیدار نہیں ہوتیں، ایک روز بھانڈا پھوٹ کر ہی رہتا ہے، لگتا ہے کہ اس بار یہی ہوا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خود کشی کے دعوے اور پھر اس کی خدمت میں پہنچ جانا، مر تر کے معاہدہ کرنا اور حکومت کو جاتا دیکھ کر اسے توڑ دینا۔ یہ سب واقعات کوئی زمانہ قبل از تاریخ کے تو نہیں ہیں، ابھی کل ہی کی تو بات ہے اور ان لوگوں کے بالکل سامنے کی ہے جن کی تاریخ کا آغاز ہی اگست 2018 میں ہوتا ہے۔
وہ کہہ مکرنیوں کے اس عہد نا مسعود کے عینی شاہد ہیں۔ وہ اگر پیٹرول کی فی لیٹر قیمت ڈیڑھ سو سے بڑھ کر تین سو تک پہنچنے کے عینی شاہد ہیں تو 56 روپے فی لیٹر پیٹرول چھ سات روپے فی یونٹ بجلی کے نرخ بھی ان کی یاداشت میں زندہ ہیں۔ کوڑیوں کے مول کا یہ زمانہ اگرچہ اسی نواز شریف کا تھا جس پر سارے زمانے کی برائیوں کا بوجھ لاد دیا گیا تھا لیکن چھ روپے فی یونٹ بجلی اٹھارہ سے بیس روپے تک کیسے پہنچی اور آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنے کے بعد اس ملک پر کیا قیامت ٹوٹی، اس کے وہ عینی شاہد ہیں۔
خود پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والا طبقہ پی ٹی آئی کے کھلے اور خفیہ پروپیگنڈے پر کان کیوں نہیں دھر رہا، اس کی چند خاص ٹھوس وجوہات ہیں۔ ان میں پہلی اور اہم ترین وجہ جیسا کہ عرض کیا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا توڑنا ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت کو آن واحد میں آگ لگ گئی یعنی وہ تقریبا دو سو روپے پر جا پہنچا۔ مرکزی بینک کے بارے میں پی ٹی آئی حکومت کی قانون سازی نے بھی اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ وہی اقدامات تھے جن کے بارے میں شیخ رشید احمد نے بڑے دھڑلے کے ساتھ کہا تھا کہ ہم بارودی سرنگیں بچھا آئے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ہیں نکال کر وہ حکومت کیسے کرتے پیں۔ کچھ ایسی بات ہی ان دنوں فواد چوہدری نے بھی کہی تھی۔
اس کی دوسری ٹھوس وجہ تحریک عدم اعتماد کی کام یابی اور پی ڈی ایم کی پہلی حکومت کے زمانے میں اس وقت سامنے آئی جب شوکت ترین نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کو عمران خان کے حوالے سے حکم دیا کہ وہ وفاقی حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
یہ سب واقعات ان لوگوں کے آنکھوں دیکھے ہیں اس لیے اگر بیرسٹر سیف جیسے بیانیہ سازی کے ماہرین الفاظ کی بازی گری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو سننے والے ایسی باتیں سن تو لیتے ہیں لیکن آنکھوں دیکھے مکھی کہاں نگلی جاتی ہے؟ یوں پی ٹی آئی کے اپنے لوگ پہلی بار یہ سوچنے مجبور ہو گئے ہیں کہ کب تک انھیں یوں ہی بیانیوں سے بہلایا جاتا رہے گا اور وہ ان کے جذبوں اور توانائیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے استعمال کرتے رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان کا ملک میں خوش دلی اور جذبے کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا۔ اس طرح یہ واقعہ ملک میں ایک نئے سیاسی عہد میں ابتدا بنتا دکھائی دیتا ہے۔
بجلی کے نرخوں میں کمی کے اثرات ہماری معیشت پر کیسے ہوں گے، یہ ایک اہم موضوع ہے لیکن اس پر گفتگو سے پہلے ایک اور پہلو بھی قابل ذکر ہے۔فروری میں حکومت سازی اور اس سے چند ماہ قبل وطن واپسی کے وقت میاں نواز شریف نے عوامی جلسوں میں ایک بات کہی تھی۔ مینار پاکستان کے جلسے میں انھوں نے اس ملک میں جہاں خود پر کیے گئے سلوک سے درگزر کر کے آگے بڑھنے اور پاکستانی قوم کے مسائل کے حل کی بات کی تھی۔
انتخابی نتائج کے بعد لاہور میں کارکنوں کے اجتماع میں انھوں حکومت حکومت بنانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا، اس وقت میاں صاحب نے میاں شہباز شریف کو دو ہدایات کی تھیں، اول یہ کہ بجلی کے نرخ کم کیے جائیں اور دوم، مہنگائی میں کمی کی جائے۔
یہ عین وہی وقت تھا جب ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ سر پہ کھڑا تھا اور حزب اختلاف کے علاوہ وہ رائے ساز جن کے ہاتھ میں سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا ہتھیار ہے، مایوسی پھیلا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جن حالات سے ک دوچار ہے، بجلی کے نرخ کم ہو سکتے ہیں، نہ معیشت سنبھل سکتی ہے اور عوام کو کسی شعبے میں کوئی سہولت میسر آ سکتی ہے۔یہ پس نظر ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوام نے بجلی کے نرخوں میں کی کا خیر مقدم کھلے بازوں سے کیا ہے۔ عوام نے مہنگائی کی رفتار میں اضافے میں تاریخی کمی کے بعد بجلی کے نرخوں میں کمی محسوس کی ہے تو تاجر اور صنعتکار جائز طور پر محسوس کرتے ہیں کہ معیشت کے استحکام کی بنیاد مضبوط ہو چکی ہے۔
اس صورت حال میں کرنے کا ایک ہی کام ہے کہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے اختلافات اور مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی معیشت کے استحکام کے لیے یہ سو ہو جائے۔ بہ صورت دیگر سیاسی مفادات کے لیے عوام کا جذباتی و سیاسی استحصال کرنے والوں کو عوام خود اپنے ہاتھ سے انجام تک پہنچا دیں گے۔ رہ گئی جماعت اسلامی، جماعت نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں طویل عرصے کے بعد ایک شان دار سرگرمی کے ذریعے عوامی مطالبات کو زبان دی ہے۔
عوام یقینا اس کی قدر کریں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاست کسی دوسری سیاسی جماعت خاص طور پر پی ٹی آئی کی سیاست کا ضمیمہ محسوس نہ ہو۔ جماعت کی سیاست پر جب تک ایسا ٹھپہ لگا رہے گا، وہ نقصان اٹھاتی رہے گی۔ بلوچستان کے حالات کے بارے میں ایک سوال پر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کے ہر صوبے کے عوام کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے مفاد کا تحفظ بھی چاہتے ہیں۔ یہی درست حکمت عملی ہے۔
یہ پالیسی صرف بلوچستان کے کے ضمن میں نہیں ہونی چاہیے ، معیشت اور سیاسی استحکام کے ضمن میں بھی ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی اتحادی سیاست ہرگز نہ کرے لیکن اس کے کسی عمل سے سیاست غیر مستحکم بھی نہیں ہونی چاہیے جیسے 1999 اور اس کے بعد ہوتا آیا ہے۔ اس سلسلے میں حافظ نعیم الرحمن کو جماعت اسلامی کی صفوں میں کافی محنت کرنی ہو گی ، محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے یہ کام کر لیا تو صرف وہ اپنی عظمت رفتہ کی بحالی میں کام یاب ہو جائے گی بلکہ ملک بھی غیر یقینی صورتحال سے نجات پا جائے گا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔