انتہا پسند ہونے کی اہمیت

خوش قسمتی کی بات کہ مودی کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ اسے ان دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔

امیت شاہ سنگھ پریوار کے خزانے میں ایک نیا نگینہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کامل وفاداری۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ امیت شاہ وزیر اعظم نریندر مودی کے سب سے زیادہ معتمد شخص کا نام ہے لیکن اس کو دوسروں سے جو چیز مہمیز و ممتاز کرتی ہے، انھیں اپنے آقا مودی پر اندھا دھند اعتقاد و اعتماد ہے۔ امیت شاہ کو سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں افتراق و تفرقہ پیدا کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا اور اس نے بی جے پی کو لوک سبھا کی 80 ریاستی نشستوں میں سے 71 جتوا دیں۔

مودی نے امیت شاہ کو بی جے پی کا ہندوتوا کا نظریہ ملک بھر میں پھیلانے کی ذمے داری سونپ رکھی ہے۔ انتہا پسندوں کی مذمت اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ شاہ جیسا متشدد ہندو سنگھ پریوار میں سب سے اونچی جگہ حاصل کر سکا۔ وہ آر ایس ایس اور مودی کی حکومت کی ہم آہنگی کے لیے کھلے عام کوششیں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کپتان سنگھ سولنگی کو ہریانہ کا گورنر مقرر کرا دینا جو آر ایس ایس کا انتہائی غیر لچکدار رکن ہے یہ ظاہر کرتا ہے بی جے پی آر ایس ایس کا تابع معمل بننے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہ سنگھ اب سیاست میں بھی حصہ لے گی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے کہا ہے کہ سنگھ پریوار کو آر ایس ایس ہی ہدایات جاری کرتا ہے۔ یہ بات ممکن ہے اس یقین دہانی کے منافی ہو جو آر ایس ایس نے اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کو کرائی تھی کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے بلکہ صرف ثقافتی تنظیم کے طور پر کام کریں گے۔ اس کے بعد جن سنگھ کو اپنے منشور میں تبدیلی کرنی پڑی اور اس نے برملا طور پر یہ اعلان کیا کہ وہ خالصتاً ثقافتی کام کریں گے۔

سولنگی کا تقرر یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس میں کوئی فرق نہیں یعنی آزاد خیال اور انتہا پسند دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں یا دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔مودی ہندوتوا کے تیزی کے ساتھ نفاذ کے لیے ممکن ہے اپنے طور پر کوئی اقدامات نہ کریں تاہم ان کی وزارت عظمیٰ نے آر ایس ایس کے عناصر کی طاقت کو دوبالا کر دیا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بھارت کی مایہ ناز ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا جو شادی کے بعد پاکستانی بن چکی ہیں وہ بھی بی جے پی میں شامل ہو گئی ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے لیے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ انھیں قدم قدم پر اپنی وفاداری کا یقین دلانا پڑتا ہے۔

ثانیہ کا شوہر جو بلاشبہ ایک پاکستانی ہے لیکن جب ثانیہ کی شہریت کے بارے میں سوال اٹھایا گیا تو اسے دکھ ہوا تھا۔ہریانہ میں ہندوتوا کا نظر آنا اس حوالے سے بھی حیرت انگیز ہے کہ وہاں ایک علیحدہ شرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی (SGPC) بنائی گئی ہے جو ریاست کے تمام گوردواروں کو اور ان کی کارکردگی کو کنٹرول کرے گی۔ یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے جس سے پنجاب اور ہریانہ کے سکھوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ آر ایس ایس سکھوں کو ہندو کمیونٹی کا حصہ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف سکھ اس کج فہمی کے مخالف ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے بڑے سخت اور پر تشدد ردعمل کا اظہار کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کے سکھ جِن کی اکثریت ہے، وہ سکھوں کو تقسیم کرنے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے۔

ایک اور شدید احساس یہ ہے کہ بی جے پی میں آزاد خیال عناصر کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ انھیں آر ایس ایس کی قیادت سے کوئی امید نظر نہیں آتی شاید بی جے پی اور آر ایس ایس کی باہمی دوری کبھی بھی ایک حقیقت نہیں تھی۔ یہ آر ایس ایس کی حکمت عملی تھی کہ وہ بھارتی معاشرے میں افتراق و تفاوت پیدا کرے اور بی جے پی کو آر ایس ایس کے مقابلے میں آزاد خیال کا لیبل لگا کر پیش کرے۔ہندو مذہب کے بارے میں یہ جو خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت رواداری والا مذ ہب ہے کافی حد تک درست بھی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بھارت کے آئین کے دیباچے میں یہ کبھی نہ لکھا جاتا کہ آزاد بھارت ایک سیکولر جمہوریہ ہوگی۔

اس کا ثبوت انتخابات کے موقع پر ملتا ہے جہاں 80 فیصد ہندو آبادی ہے جو ملک میں واضح اکثریت رکھتی ہے لیکن الیکشن کے موقع پر ایک آزاد خیال بھارت کے لیے ووٹ دیے جاتے ہیں۔ اور اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ آزاد خیال مسلمان جن کی آبادی کی شرح 15 سے 16 فیصد ہے وہ بھی مذہبی بنیادوں پر منتخب نہیں ہوتے۔اس میں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انتہا پسند عناصر اور زیادہ سخت روش اختیار کرتے محسوس ہو رہے ہیں اور ان کو قبول بھی کیا جا رہا ہے۔ بصورت دیگر شاہ کے اتنے اہم مقام پر پہنچنے کی اس قدر اہمیت نہ ہوتی۔


مرکز میں بی جے پی کی فتح کے بعد وہ معاشرے میں تقسیم در تقسیم پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور برملا اعلان کیا جا رہا ہے کہ آر ایس ایس مہاراشٹریہ میں انتہا پسند جماعت شیوسینا سے تعلق نہیں توڑے گی۔ شیوسینا کے ایک رکن پارلیمنٹ کی طرف سے حال ہی میں ایک روزہ دار مسلمان کو زبردستی روزہ تڑانے کا واقعہ طبیعت کو مکدر کرنے والا ہے اور اس سے زیادہ تعجب خیز وہ وضاحت تھی جو رکن اسمبلی اور اس کے بعض ہم نواؤں نے پیش کی۔

شیوسینا کے بہت سارے اراکین نے اس واقعہ کی مذمت نہیں کی بلکہ اس کے بجائے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ کام حکمرانوں کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ مہاراشٹرا میں خوراک کی ترسیل کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ اگرچہ شیو سینا کے رکن اسمبلی نے بعد ازاں معافی مانگ لی تھی لیکن پارٹی کو ہر گز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کہے کہ بعض مسلمانوں نے بھی تو رمضان کے دوران عورتوں کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ مودی حکومت نے بالآخر ردعمل ظاہر کیا جس کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت مذہبی آزادی کا تحفظ کرنے کے لیے پر عزم ہے۔

اس بات کے باوجود مودی ہندوتوا کی ترویج کے لیے جو کہتے ہیں اس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا، وہ 2002ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں ملوث ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان دشمن اور بنگلہ دیش دشمن خیالات کے حوالے سے بھی پہچانے جاتے ہیں جو بھارت کے پڑوس میں دو مسلمان ریاستیں ہیں۔گجرات کے مسلم کش فسادات کے موقع پر امیت شاہ مودی کی کابینہ کا وزیر تھا۔

خوش قسمتی کی بات کہ مودی کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ اسے ان دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ انھوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان' بنگلہ دیش اور مالدیپ کے وزرائے اعظم کو بطور خاص دعوت دی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ بھارت کے اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات سے اندرون ملک اجتماعیت کی سوچ کو بڑھاوا ملے گا اور یہی ایک چیز ہے جو بھارت کو برصغیر میں ایک آزاد خیال ملک کے طور پر زندہ رکھ سکتی ہے۔

نئی دہلی اور ڈھاکا دونوں بنیاد پرستی کے خلاف لڑائی کر رہے ہیں جن کی نمایندگی طالبان کرتے ہیں۔ اسلام آباد بھی یہی کر رہا ہے حالانکہ اس سے قبل وہ ان کو کشمیر کی آزادی کی لڑائی میں شامل ہونے کے لیے ابھارتا تھا۔ پاکستان میں بنیاد پرستوں کی حمایت کے لیے ایک بڑی مضبوط لابی موجود ہے جب کہ بنیاد پرستی پورے عالم اسلام میں پھل رہی ہے۔

میری خواہش ہے کہ نئی دہلی حکومت ہندو طالبان کے خلاف کارروائی کرے جو کہ بھارت میں ایک نہایت خطرناک طاقت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں جو آزاد خیال مسلمان رہ رہے ہیں، وہ طالبان کا قلع قمع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کے انتخابات میں بھی ایسے امید وار منتخب ہوتے ہیں جو معاشرے کی اجتماعیت پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکمران اس قدر حقیقت پسند ضرور ہیں کہ وہ ایسی کوئی بات نہ کریں جس سے غیر مسلم ووٹر بدک جائیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story