سانحہ سی ویو کراچی
ڈوبنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان ہیں۔
عیدالفطر خوشیوں اور مسرتوں کے ڈھیروں پیغام اپنے ساتھ لیے اختتام پذیر ہوئی لیکن جہاں شادمانیوں کا سماں تھا وہیں کراچی میں برپا ہونے والے سانحہ سی ویو نے قوم کو مغموم کردیا۔ عید کے موقعے پر ساحل سمندر پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد نہانے کی غرض سے سمندر میں دور تک گئے اور پانی کی تیز رفتار موجوں کی نذر ہوگئے۔
آخری اطلاعات کے مطابق سمندر سے 23 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی تھیں اور سمندر کی خونی لہروں نے کتنے افراد کی زندگی کے چراغ گل کیے اس کا صحیح اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکا ہے۔ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان ہیں۔ 'وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا'۔ سانحہ سی ویو کا الزام حکومت پر لگایا جائے یا عوام کو ان کی لاپرواہی کا احساس دلایا جائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ حادثہ ہوچکا ہے اور ڈوبنے والے افراد کی قیمتی جانوں کا ازالہ ممکن نہیں۔ مرنے والوں کے لواحقین عید کے دن ہونے والے اس ناگہانی حادثے پر شدت غم سے نڈھال ہیں، ان کاکہنا ہے کہ غوطہ خور ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
لیکن اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ چڑھتے سمندر کی طغیانی کے پیش نظر نہانے پر پابندی عائد کی جاچکی تھی جسے تفریح پر آنے والی فیملیز نے درخور اعتنا نہ سمجھا، عوام کی طرف سے یہ بھی لاپرواہی دیکھنے میں آئی کہ جب گارڈز پکنک منانے آئے لوگوں کو خطرناک پوائنٹ سے دور ہٹا دیتے تو گارڈز کے جانے کے بعد وہی فیملیز واپس ان جگہوں کا رخ کرلیتیں۔عوام کے اس طرز عمل کا نتیجہ المناک سانحے کی شکل میں نکلا۔
واضح رہے کہ عید یا دیگر تہواروں کے موقع پر ساحل سمندر پر عوام کی بڑی تعداد پکنک منانے آتی ہے اوراس دوران بعض منچلے سمندر میں نہاتے وقت احتیاطی تدابیر کا لحاظ نہیں رکھتے جس کے باعث اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں، جب کہ اس موسم میں سمندر میں تیز لہریں بھی پیدا ہوتی ہیں، دوسری جانب سندھ حکومت نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ساحل سمندر پر دفعہ 144 نافذ کی تھی جس کی خلاف ورزی بھی کھلے عام جاری ہے لیکن وہاں اس قانون کا نفاذ نہیں کرایا جاسکا۔
یوں دیکھا جائے تو حکومت پر بھی اس حادثے کی ذمے داری کسی حد تک عائد ہوتی ہے کیونکہ دفعہ 144 نافذ تو کی گئی لیکن وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں جس کے باعث ایسے حادثات کا سدباب ممکن ہوتا۔ مقامی افراد ہی نہیں ملک بھر کے دیگر شہروں سے کراچی آنے والوں کی بھی پہلی خواہش ساحل کا نظارہ ہی ہوتی ہے اورجب عید جیسا تہوار ہو تو ہزاروں افراد خدا کی اس نعمت سے لطف اٹھانے کلفٹن، منوڑا، ہاکس بے اور پیراڈائز پوائنٹ کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے جس کا حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو بخوبی علم ہے۔ ان حقائق کے باوجود حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے۔
اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک کی بات کریں تو وہاں یہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی، سمندر میں طغیانی وہاں بھی آتی ہے لیکن حفاظتی اقدامات ایسے ہوتے ہیں کہ حادثات کی شرح انتہائی کم ہے بلکہ ان مقامات پر تفریحی سہولتوں کی فراہمی کو مزید بہتر بنایا جاتا ہے اور کسی ممکنہ حادثے کے پیش نظر لائف گارڈز کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ یورپ کی تو بات ہی کیا، متحدہ عرب امارات کے ساحلوں پر نہ صرف لائف گارڈز کی سہولت میسر ہے بلکہ صفائی ستھرائی کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔
وہاں شاید ہی کبھی ساحل پر حادثہ ہوا ہو، سانحہ کراچی دل دکھا دینے والا ہے، لیکن اس سے بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں واضح ہو گئی ہیں، پاکستان میں حکومتیں اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پابندیاں تو عائد کر دیتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کرانا بھول جاتی ہیں۔ کراچی کے ساحل پر یہ حادثہ پہلا نہیں ہے' ماضی میں بھی ایسے حادثات ہوتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ساحلوں پر فول پروف حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے کوئی مہم چلائی گئی۔متعلقہ حکام کو کم از کم اس حادثے کے بعد ہی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جاسکے۔
آخری اطلاعات کے مطابق سمندر سے 23 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی تھیں اور سمندر کی خونی لہروں نے کتنے افراد کی زندگی کے چراغ گل کیے اس کا صحیح اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکا ہے۔ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان ہیں۔ 'وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا'۔ سانحہ سی ویو کا الزام حکومت پر لگایا جائے یا عوام کو ان کی لاپرواہی کا احساس دلایا جائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ حادثہ ہوچکا ہے اور ڈوبنے والے افراد کی قیمتی جانوں کا ازالہ ممکن نہیں۔ مرنے والوں کے لواحقین عید کے دن ہونے والے اس ناگہانی حادثے پر شدت غم سے نڈھال ہیں، ان کاکہنا ہے کہ غوطہ خور ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
لیکن اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ چڑھتے سمندر کی طغیانی کے پیش نظر نہانے پر پابندی عائد کی جاچکی تھی جسے تفریح پر آنے والی فیملیز نے درخور اعتنا نہ سمجھا، عوام کی طرف سے یہ بھی لاپرواہی دیکھنے میں آئی کہ جب گارڈز پکنک منانے آئے لوگوں کو خطرناک پوائنٹ سے دور ہٹا دیتے تو گارڈز کے جانے کے بعد وہی فیملیز واپس ان جگہوں کا رخ کرلیتیں۔عوام کے اس طرز عمل کا نتیجہ المناک سانحے کی شکل میں نکلا۔
واضح رہے کہ عید یا دیگر تہواروں کے موقع پر ساحل سمندر پر عوام کی بڑی تعداد پکنک منانے آتی ہے اوراس دوران بعض منچلے سمندر میں نہاتے وقت احتیاطی تدابیر کا لحاظ نہیں رکھتے جس کے باعث اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں، جب کہ اس موسم میں سمندر میں تیز لہریں بھی پیدا ہوتی ہیں، دوسری جانب سندھ حکومت نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ساحل سمندر پر دفعہ 144 نافذ کی تھی جس کی خلاف ورزی بھی کھلے عام جاری ہے لیکن وہاں اس قانون کا نفاذ نہیں کرایا جاسکا۔
یوں دیکھا جائے تو حکومت پر بھی اس حادثے کی ذمے داری کسی حد تک عائد ہوتی ہے کیونکہ دفعہ 144 نافذ تو کی گئی لیکن وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں جس کے باعث ایسے حادثات کا سدباب ممکن ہوتا۔ مقامی افراد ہی نہیں ملک بھر کے دیگر شہروں سے کراچی آنے والوں کی بھی پہلی خواہش ساحل کا نظارہ ہی ہوتی ہے اورجب عید جیسا تہوار ہو تو ہزاروں افراد خدا کی اس نعمت سے لطف اٹھانے کلفٹن، منوڑا، ہاکس بے اور پیراڈائز پوائنٹ کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے جس کا حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو بخوبی علم ہے۔ ان حقائق کے باوجود حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے۔
اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک کی بات کریں تو وہاں یہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی، سمندر میں طغیانی وہاں بھی آتی ہے لیکن حفاظتی اقدامات ایسے ہوتے ہیں کہ حادثات کی شرح انتہائی کم ہے بلکہ ان مقامات پر تفریحی سہولتوں کی فراہمی کو مزید بہتر بنایا جاتا ہے اور کسی ممکنہ حادثے کے پیش نظر لائف گارڈز کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ یورپ کی تو بات ہی کیا، متحدہ عرب امارات کے ساحلوں پر نہ صرف لائف گارڈز کی سہولت میسر ہے بلکہ صفائی ستھرائی کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔
وہاں شاید ہی کبھی ساحل پر حادثہ ہوا ہو، سانحہ کراچی دل دکھا دینے والا ہے، لیکن اس سے بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں واضح ہو گئی ہیں، پاکستان میں حکومتیں اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پابندیاں تو عائد کر دیتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کرانا بھول جاتی ہیں۔ کراچی کے ساحل پر یہ حادثہ پہلا نہیں ہے' ماضی میں بھی ایسے حادثات ہوتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ساحلوں پر فول پروف حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے کوئی مہم چلائی گئی۔متعلقہ حکام کو کم از کم اس حادثے کے بعد ہی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جاسکے۔