آرٹیکل 245 کے خطرناک مضمرات

عمران خان نے حکومت کے اس اقدام کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 14 اگست کو دس لاکھ عوام اسلام آباد پہنچیں گے


Zaheer Akhter Bedari August 01, 2014
[email protected]

تحریک انصاف بہت پہلے سے 14 اگست کو اسلام آباد میں ریلی نکالنے کا اعلان کر رہی ہے اور اس کے لیے زور و شور سے تیاریاں جاری ہیں۔ تحریک انصاف کا مطالبہ تھا کہ حکومت پنجاب کی ان چار نشستوں کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائے اور انگوٹھوں کے نشانات سے ووٹوں کی درستگی کی تصدیق کرائے وہ اسی حوالے سے ایک احتجاجی ریلی نکال رہی تھی اگر حکومت تحریک انصاف کا یہ مطالبہ مان لیتی تو بات ختم ہو جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برخلاف حکومت نے 14 اگست ہی کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر بڑے پیمانے پر یوم آزادی منانے کا اعلان کر دیا۔

ادھر تحریک انصاف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی۔ تحریک انصاف کے اس اعلان سے حکومت اس قدر بدحواس ہو گئی کہ اس نے اسلام آباد کو یکم اگست سے تین ماہ کے لیے فوج کے حوالے کرنے کا اعلان کیا اور اس کا باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کیا گیا۔

عمران خان نے حکومت کے اس اقدام کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 14 اگست کو دس لاکھ عوام اسلام آباد پہنچیں گے اور اس وقت تک وہاں دھرنا دیں گے جب تک حکومت مڈٹرم انتخابات کا اعلان نہیں کرتی۔ عمران خان نے اس سے آگے جاتے ہوئے کہا کہ دس لاکھ عوام اسلام آباد دیکھنے کے لیے نہیں آ رہے ہیں بلکہ ان کی آمد کا مقصد میاں برادران کی بادشاہت کو ختم کرنا ہے۔

اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے اور آرٹیکل245 کے نفاذ کے خلاف تحریک انصاف کے ساتھ ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی شدت سے مخالفت شروع کر دی یوں حکومت اپنے جلد بازی کے فیصلے کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہو کر رہ گئی اور بات اب ایک ایسے تصادم کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے جس کا انجام جمہوریت کا بوریہ بستر گول کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی شدت سے مخالفت کی وجہ حکومت نے اپنے پہلے موقف کو تبدیل کرتے ہوئے یہ نیا موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 245 کا نفاذ اور فوج کی آمد صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہو گی بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع ہو گا اس وضاحت کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ حکومت کے اس اقدام کا مقصد تحریک انصاف کی ریلی کو روکنا نہیں۔ اس حوالے سے مزید وضاحت یوں کی گئی کہ ضرب عضب کے بعد دہشت گردوں کی طرف سے اسلام آباد میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اس خطرے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اسلام آباد کو آرٹیکل 245 کے تحت فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

لیکن یہ ساری وضاحتیں اور صفائیاں اس لیے بے اثر ہوگئیں کہ پاکستان کا ایک عام شہری بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے اور 245 نافذ کرنے کا مقصد تحریک انصاف کی ریلی کو ناکام بنانا ہے۔ حکومت نے بوکھلاہٹ میں تحریک انصاف کی ریلی کے جواب میں پشاور سے ایک آزادی ٹرین چلانے کا اعلان کر دیا جو 11 اگست کو پشاور سے چلے گی اور ایک ماہ بعد 11 ستمبر کو کراچی پہنچے گی اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں آزادی کی تقریبات منانے کا اعلان کیا جو ایک ماہ تک جاری رہے گی۔

حکومت لاکھ وضاحتیں پیش کرے کہ اس کے یہ اقدامات تحریک انصاف کے خلاف نہیں ہیں لیکن رائے عامہ کا خیال ہے کہ یہ سارے اقدامات تحریک انصاف کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ خطرناک صورتحال صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کے ایک سال کے اندر ہی پیدا ہو گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کس قدر کمزور ہے۔ ہمارے سیاستدان قدم قدم پر یہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ اختلافات جمہوریت کا حسن ہیں لیکن ثابت یہ ہو رہا ہے کہ اختلافات جمہوریت کا حسن نہیں بلکہ جمہوریت کی بدصورتی ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اختلافات حصول اقتدار اور حفاظت اقتدار کی لڑائی کا حصہ ہوتے ہیں۔ کیا انھیں جمہوریت کا حسن کہا جا سکتا ہے؟

میاں صاحب اپنے اقتدار کے دوران اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراتے نظر آتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا رہا کہ اس ٹکراؤ کا مقصد فوجی جنتا کو حکومت کے تابع کرنا ہے لیکن یہ تاثر زائل ہوتا رہا اور یہ محسوس کیا جانے لگا کہ میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کو منتخب حکومت کے تابع کرنا نہیں چاہتے بلکہ اپنی مکمل حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں یہ قومی مفاد کا معاملہ نہیں بلکہ ذاتی مفاد کا معاملہ ہے۔

2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد میاں صاحب نے ایک غلطی یہ کی کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کر دیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا کہ حکومت بلا امتیاز انصاف کا بول بالا اور قانون کی بالادستی قائم کرنا چاہتی ہے لیکن حکومت نے غداری کے الزام کو غداری کے دن 12 اکتوبر 1999 سے شروع کرنے کے بجائے 3 نومبر 2007 کی تاریخ سے ایمرجنسی کے نام پر 7 سال بعد کیا کیونکہ اکتوبر 1999ء سے اس مقدمے کا آغاز کیا جاتا تو سیکڑوں بڑے لوگ اس کی زد میں آ جاتے۔

اس مقدمے کے دوران پرویز مشرف کی میڈیا میں تضحیک کی مہم چلائی گئی اور انھیں تھانے کچہری میں اس طرح خوار کیا گیا کہ فوجی عمائدین نے اسے فوج کی توہین سمجھتے ہوئے اس کی شدت سے درون خانہ مخالفت کی یوں فوج اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے مسئلے پر بھی فوج اور حکومت کے درمیان اختلاف رائے رہا یوں میاں صاحب کے تیسرے دور حکومت میں بھی فوج سے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہو گئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں 1958ء کے بعد اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ بالادست بنی رہی جو جمہوریت کی روح کے خلاف ہے اور اگر کوئی قومی مفاد اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے اس کلچر کو ختم کرنا چاہتا ہے تو اس کی کوششیں قابل احترام ہیں لیکن اس حوالے سے عام تاثر یہی رہا کہ فوج کو جمہوریت کے تابع کرنے کے بجائے اقتدار کے تابع کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے سیاستدانوں کے کردار کو بھی جمہوریت کے منافی سمجھا گیا کیونکہ فوجی حکومتوں کی آمد اور اس کے اقتدار کے استحکام میں سیاسی جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا۔

2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) غیر اعلانیہ اتحادی کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور یہ تاثر عام ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی پانچ سالہ مدت مسلم لیگ کے تعاون ہی سے پوری کی۔ 2013ء کے بعد پیپلز پارٹی مسلسل یہ کہتی رہی کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو بھی پانچ سال مکمل کرنے دے گی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگی حکومت کے درمیان اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔

دو سابق وزرائے اعظم کے خلاف کرپشن کے الزامات میں جو مقدمات بنائے گئے ہیں پیپلز پارٹی کی قیادت اس کی شدت سے مخالفت کر رہی ہے۔ آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ ''ہم نے میاں صاحب کو وزیر اعظم بنایا تھا اور وہ بادشاہ بن گئے'' اور آرٹیکل 245 اور اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کے اقدام کی پیپلز پارٹی کی طرف سے مخالفت کی وجہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت سے بھی محروم ہو گئی ہے۔

اس تناظر میں جب ہم موجودہ صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک ایک بڑے اور خطرناک تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے اور حکومت اس حوالے سے جس قدر آگے چلی گئی ہے اب وہاں سے اس کا واپس آنا بھی آسان نہیں رہا۔وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جس سے تصادم کی فضا کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی ملکی حالات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں تو اس سے صورت حال میں بہتری آ سکتی ہے۔اپوزیشن کا لانگ مارچ بھی ہو جائے گا اور حکومت بھی سرخ رو ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں