اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجور یاں
پتہ نہیں ان لوگوں کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں، قلم سے شہد ٹپکتا ہے اور باتوں سے خوشبو آتی ہے کہ آیا وہ لوگ صحافت کی...
ہم آج کل بڑے گھمبیر بلکہ درد ناک صورت حال سے دوچار ہیں، یہ ٹھیک ویسی ہی صورت حال ہے جس میں مبتلا ہو کر غالب نے کہا تھا کہ
اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجور یاں
مثل نقش مدعائے غیر بیٹھا جائے ہے
ہم جب اخباروں میں اور کچھ سینہ بسینہ روایات کے ذریعے یہ سنتے ہیں کہ بڑے بڑے شہروں کے بڑے بڑے صحافی کس طرح بہتی بلکہ موجیں مارتی گنگا میں صرف ہاتھ ہی نہیں دھو رہے بلکہ اپنا اور اپنے مہربانوں کے ''منہ'' بھی دھو رہے ہیں اور بھرپور قسم کے ''اشنان'' کر رہے ہیں تو دل میں صرف ایک دیوار سی نہیں بلکہ پوری چار دیواری سی گر جاتی ہے، طرح طرح کے پلاٹس، سکہ رائج الوقت کے لاٹس اور گفتہ و ناگفتہ قسم کے گفٹ ایسے تقسیم ہو رہے ہیں جیسے کسی ختنے منگنی میں بتاشے اور ریوڑیاں بانٹی جا رہی ہوں
دیکھنا قسمت کہ ان لوگوں پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
پتہ نہیں ان لوگوں کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں، قلم سے شہد ٹپکتا ہے اور باتوں سے خوشبو آتی ہے کہ آیا وہ لوگ صحافت کی مقدس ہستیاں ہیں ان کے قلم سرخاب کے پَر سے بنے ہیں کہ دنیا بھر کے انعامات و اکرامات ان پر برستے ہیں اور ہم یہاں بوند بوند کو ترستے ہیں ان کے سامنے اتنی بڑی بڑی ''بوٹیاں'' اور یہاں سوکھے ساکھے چاول۔
دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے
یہاں تو ہمیں ایسے کنجوسوں مکھی چوسوں سے پالا پڑا ہے کہ چیونٹی بھی ان کے گھر کے پاس موٹر سائیکل پر سوار ہو کر تیزی سے نکل جائے کہ کہیں منہ سے وہ نوالہ بھی نہ چھین لیں جو پچھلے گھر سے ملا ہے، پلاٹ، لفافے اور گفٹ وغیرہ تو ایک طرف... عرصہ ہوا وہ جو کبھی کبھی ''مقامات عالیہ'' صحافیوں کے لیے کبھی کبھی ''خوان یغما'' بچھتا تھا وہ بھی اگلے وقتوں کی قصہ کہانی بن کر رہ گئے ہیں اس بہانے کبھی کبھی حلق تو تر ہو جاتا تھا۔
حالانکہ صحافیوں کے لیے وہ ہائی کلاس دعوتیں بھی اچھی خاصی لمیٹڈ ہوتی تھیں ہمیں یاد ہے جناب اکرم خان درانی جب وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے کالم نگاروں کو ایک دعوت پر بلایا تو وہ دعوت نہایت ہی ''دیندار'' تھی صرف دو ڈشوں پر گزارہ کیا گیا تھا غالباً بتانا یہ مقصود تھا کہ اب صوبے میں ایسے لوگوں کی خلافت ہے جو بے جا ''اسراف'' بالکل نہیں کرتے... یہ الگ بات ہے کہ بعد کی دعوتوں میں ''مینو'' اچھا خاصا لمبا ہوتا چلا گیا تب ہمیں غالبؔ کا وہ شعر یاد آتا تھا جو ہم نے ابتداء ہی میں عرض کیا ہے اس کی بزم آرائیاں ...
دراصل معاملہ یہ ہے کہ یہاں جو لوگ آ جاتے ہیں ان سے کسی چیز کا فالتو ہونا ایسا ہے جیسے بلی سے گوشت، گھوڑے سے گھاس فالتو ہو جائیں۔ ہم ایک کتے کا بچہ لینے کے لیے اپنے گھر سے چیزیں چرا کر خانہ بدوشوں کو دیتے تھے اور اسکول کے بعد دیر تک ان کے تمبوؤں میں بیٹھے رہتے تھے ایک دن ان کی فرمائش پر ہم نے گھر سے آٹھ دس سیر گڑ چرایا اور تمبوؤں کے طرف لے جانے لگے ہمیں علم ہی نہ تھا کہ ہمارے والد بھی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔
چنانچہ انھوں نے عین گڑ دیتے ہوئے ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور ہمیں کھینچتے ہوئے گھر لے آئے دو چار تھپڑوں کے بعد ہی ہم نے سارا قصہ اگل دیا کہ ''کتورے'' کی لالچ میں ہم ایسا کر رہے تھے،... والد صاحب نے ہمیں کان سے پکڑتے ہوئے کہا ایک بات میری گانٹھ باندھ لو... کہ کبھی کوئی کتورا فالتو نہیں ہوتا، کسی سے ''کتورے'' پانے کی امید ایسی ہے جیسے کوئی بھینسے سے دودھ کی توقع کرے، اور وہ بات ہم نے گانٹھ باندھ لی، چنانچہ ہم نے آج تک کسی بھی رنگ و نسل کے کسی شخص کو ایسا نہیں دیکھا جس نے کبھی کسی کو کوئی ''کتورا'' دیا ہو، ہمیشہ لالچ دے کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
لیکن دل تو دل ہے جب یہاں وہاں سے پلاٹس لفافوں اور تحفے تحائف کی خبریں سنتے ہیں تو ''دل رنجور'' کا تڑپنا تو بنتا ہی ہے کبھی کبھی تو ہم پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ حیراں بھی ہو جاتے ہیں کہ کم بختوں کا پیٹ ہے یا دوزخ کا کنواں کہ بھرتا ہی نہیں
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں
پشتو میں ایک ٹپہ ہے جس میں عاشق اپنی محبوبہ سے کہتا ہے کہ تمہاری ''دید'' سے میرا جی نہیں بھرتا چاہے میرا سارا وجود آنکھیں ہی آنکھیں کیوں نہ ہو جائے، اس سے جو ایک اور حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جو ملک میں ہر گلی کوچے میں ایک اخبار ہے اور ہر اخبار میں جو تھوک کے حساب سے کالم نگار ہیں اور پھر ان کالم نگاروں میں ہر کیٹگری کی بھرمار ہے یہ کیوں ہے ایک دم جو ہر کسی نے قلم کا بیلچہ اٹھا کر کاندھے پر رکھا ہوا ہے اور گلی گلی آوازیں لگا رہا ہے کہ نالیاں گڑھے کھدالو، مردے دفن کرا لو، قبریں کھدوا لو، کیچڑ اچھالو، غلاظت اٹھوا لو، نقب لگوا لو، عزت سادات اچھالو، پیڑ پودے نکلوا لو، مٹی ڈالوا لو
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں لیے ہوئے
لیکن بے چارے جانتے نہیں کہ یہ ضروری تو نہیں ہے کہ کسی کو ایک جگہ خزانہ مل جائے تو پھر ہر کسی کو وہاں خزانہ ہی ملے گا، یہ تو کسی کسی کا نصیبہ ہوتا ہے کہ اس کی رسائی گڑ کی بوری تک ہو جاتی ہے یا کسی پیڑ پودے میں شہد کا چھتا مل جاتا ہے، بچپن میں ہمیں جب پتہ چلتا تھا کہ فلاں کو فلاں جگہ بڑی کُھمبیاں ملی ہیں تو پھر سب ہی وہاں جا کر اپنی قسمت آزماتے تھے یا کسی نالے وغیرہ میں کسی کو مچھلی مل جاتی تھی تو سب ہی وہاں جا کر ''کانٹے'' پانی میں اتار کر بیٹھ جاتے تھے لیکن پڑا ہوا بٹوہ، برساتی کھمبیاں، مچھلیاں اور خزانے ہر کسی کونہیں ملتے
فرصت شمر طریقہ رندی کہ آں نشاں
چوراہ گنج برھمہ کس آشکارا نیست
ترجمہ : غنیمت جانو کہ تمہیں رند بننے کا موقع ملا ہے ورنہ یہ سعادت ''خزانے'' کی طرح ہر کسی کو نہیں ملتی۔
اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجور یاں
مثل نقش مدعائے غیر بیٹھا جائے ہے
ہم جب اخباروں میں اور کچھ سینہ بسینہ روایات کے ذریعے یہ سنتے ہیں کہ بڑے بڑے شہروں کے بڑے بڑے صحافی کس طرح بہتی بلکہ موجیں مارتی گنگا میں صرف ہاتھ ہی نہیں دھو رہے بلکہ اپنا اور اپنے مہربانوں کے ''منہ'' بھی دھو رہے ہیں اور بھرپور قسم کے ''اشنان'' کر رہے ہیں تو دل میں صرف ایک دیوار سی نہیں بلکہ پوری چار دیواری سی گر جاتی ہے، طرح طرح کے پلاٹس، سکہ رائج الوقت کے لاٹس اور گفتہ و ناگفتہ قسم کے گفٹ ایسے تقسیم ہو رہے ہیں جیسے کسی ختنے منگنی میں بتاشے اور ریوڑیاں بانٹی جا رہی ہوں
دیکھنا قسمت کہ ان لوگوں پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
پتہ نہیں ان لوگوں کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں، قلم سے شہد ٹپکتا ہے اور باتوں سے خوشبو آتی ہے کہ آیا وہ لوگ صحافت کی مقدس ہستیاں ہیں ان کے قلم سرخاب کے پَر سے بنے ہیں کہ دنیا بھر کے انعامات و اکرامات ان پر برستے ہیں اور ہم یہاں بوند بوند کو ترستے ہیں ان کے سامنے اتنی بڑی بڑی ''بوٹیاں'' اور یہاں سوکھے ساکھے چاول۔
دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے
یہاں تو ہمیں ایسے کنجوسوں مکھی چوسوں سے پالا پڑا ہے کہ چیونٹی بھی ان کے گھر کے پاس موٹر سائیکل پر سوار ہو کر تیزی سے نکل جائے کہ کہیں منہ سے وہ نوالہ بھی نہ چھین لیں جو پچھلے گھر سے ملا ہے، پلاٹ، لفافے اور گفٹ وغیرہ تو ایک طرف... عرصہ ہوا وہ جو کبھی کبھی ''مقامات عالیہ'' صحافیوں کے لیے کبھی کبھی ''خوان یغما'' بچھتا تھا وہ بھی اگلے وقتوں کی قصہ کہانی بن کر رہ گئے ہیں اس بہانے کبھی کبھی حلق تو تر ہو جاتا تھا۔
حالانکہ صحافیوں کے لیے وہ ہائی کلاس دعوتیں بھی اچھی خاصی لمیٹڈ ہوتی تھیں ہمیں یاد ہے جناب اکرم خان درانی جب وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے کالم نگاروں کو ایک دعوت پر بلایا تو وہ دعوت نہایت ہی ''دیندار'' تھی صرف دو ڈشوں پر گزارہ کیا گیا تھا غالباً بتانا یہ مقصود تھا کہ اب صوبے میں ایسے لوگوں کی خلافت ہے جو بے جا ''اسراف'' بالکل نہیں کرتے... یہ الگ بات ہے کہ بعد کی دعوتوں میں ''مینو'' اچھا خاصا لمبا ہوتا چلا گیا تب ہمیں غالبؔ کا وہ شعر یاد آتا تھا جو ہم نے ابتداء ہی میں عرض کیا ہے اس کی بزم آرائیاں ...
دراصل معاملہ یہ ہے کہ یہاں جو لوگ آ جاتے ہیں ان سے کسی چیز کا فالتو ہونا ایسا ہے جیسے بلی سے گوشت، گھوڑے سے گھاس فالتو ہو جائیں۔ ہم ایک کتے کا بچہ لینے کے لیے اپنے گھر سے چیزیں چرا کر خانہ بدوشوں کو دیتے تھے اور اسکول کے بعد دیر تک ان کے تمبوؤں میں بیٹھے رہتے تھے ایک دن ان کی فرمائش پر ہم نے گھر سے آٹھ دس سیر گڑ چرایا اور تمبوؤں کے طرف لے جانے لگے ہمیں علم ہی نہ تھا کہ ہمارے والد بھی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔
چنانچہ انھوں نے عین گڑ دیتے ہوئے ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور ہمیں کھینچتے ہوئے گھر لے آئے دو چار تھپڑوں کے بعد ہی ہم نے سارا قصہ اگل دیا کہ ''کتورے'' کی لالچ میں ہم ایسا کر رہے تھے،... والد صاحب نے ہمیں کان سے پکڑتے ہوئے کہا ایک بات میری گانٹھ باندھ لو... کہ کبھی کوئی کتورا فالتو نہیں ہوتا، کسی سے ''کتورے'' پانے کی امید ایسی ہے جیسے کوئی بھینسے سے دودھ کی توقع کرے، اور وہ بات ہم نے گانٹھ باندھ لی، چنانچہ ہم نے آج تک کسی بھی رنگ و نسل کے کسی شخص کو ایسا نہیں دیکھا جس نے کبھی کسی کو کوئی ''کتورا'' دیا ہو، ہمیشہ لالچ دے کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
لیکن دل تو دل ہے جب یہاں وہاں سے پلاٹس لفافوں اور تحفے تحائف کی خبریں سنتے ہیں تو ''دل رنجور'' کا تڑپنا تو بنتا ہی ہے کبھی کبھی تو ہم پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ حیراں بھی ہو جاتے ہیں کہ کم بختوں کا پیٹ ہے یا دوزخ کا کنواں کہ بھرتا ہی نہیں
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں
پشتو میں ایک ٹپہ ہے جس میں عاشق اپنی محبوبہ سے کہتا ہے کہ تمہاری ''دید'' سے میرا جی نہیں بھرتا چاہے میرا سارا وجود آنکھیں ہی آنکھیں کیوں نہ ہو جائے، اس سے جو ایک اور حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جو ملک میں ہر گلی کوچے میں ایک اخبار ہے اور ہر اخبار میں جو تھوک کے حساب سے کالم نگار ہیں اور پھر ان کالم نگاروں میں ہر کیٹگری کی بھرمار ہے یہ کیوں ہے ایک دم جو ہر کسی نے قلم کا بیلچہ اٹھا کر کاندھے پر رکھا ہوا ہے اور گلی گلی آوازیں لگا رہا ہے کہ نالیاں گڑھے کھدالو، مردے دفن کرا لو، قبریں کھدوا لو، کیچڑ اچھالو، غلاظت اٹھوا لو، نقب لگوا لو، عزت سادات اچھالو، پیڑ پودے نکلوا لو، مٹی ڈالوا لو
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں لیے ہوئے
لیکن بے چارے جانتے نہیں کہ یہ ضروری تو نہیں ہے کہ کسی کو ایک جگہ خزانہ مل جائے تو پھر ہر کسی کو وہاں خزانہ ہی ملے گا، یہ تو کسی کسی کا نصیبہ ہوتا ہے کہ اس کی رسائی گڑ کی بوری تک ہو جاتی ہے یا کسی پیڑ پودے میں شہد کا چھتا مل جاتا ہے، بچپن میں ہمیں جب پتہ چلتا تھا کہ فلاں کو فلاں جگہ بڑی کُھمبیاں ملی ہیں تو پھر سب ہی وہاں جا کر اپنی قسمت آزماتے تھے یا کسی نالے وغیرہ میں کسی کو مچھلی مل جاتی تھی تو سب ہی وہاں جا کر ''کانٹے'' پانی میں اتار کر بیٹھ جاتے تھے لیکن پڑا ہوا بٹوہ، برساتی کھمبیاں، مچھلیاں اور خزانے ہر کسی کونہیں ملتے
فرصت شمر طریقہ رندی کہ آں نشاں
چوراہ گنج برھمہ کس آشکارا نیست
ترجمہ : غنیمت جانو کہ تمہیں رند بننے کا موقع ملا ہے ورنہ یہ سعادت ''خزانے'' کی طرح ہر کسی کو نہیں ملتی۔