جمہوریت اور بادشاہی
ہمارے ملک کو آج تک حقیقی جمہوریت تو نصیب نہیں ہوئی البتہ جمہوریت کے نام پر سویلین آمریت اور سیاسی بادشاہ ضرور ملے ہیں
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ عوام نے نواز شریف کو وزیراعظم منتخب کیا تھا بادشاہ نہیں کہ وہ وزیراعظم کی بجائے بادشاہ کی طرح صوبوں میں مداخلت کررہے ہیں۔ آصف زرداری کا یہ بیان اس وقت اہم سمجھا جاتا جب انھوں نے اپنے دور میں خود اس پر عمل کیا ہوتا اور خود کو ایسا صدر ثابت کیا ہوتا کہ وہ بھی بادشاہ نہیں بلکہ ایسے آئینی صدر ہیں جنھوں نے ارکان اسمبلی کو اپنی مرضی سے وزیراعظم منتخب کرنے کا حق دیا ہوتا تو ممکن ہے کہ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے بجائے کوئی اور وزیراعظم بنتا، جو آج کرپشن کے الزامات میں مقدمات بھگت رہے ہیں۔
پاکستان میں اب تک جمہوری اور غیر جمہوری حکومت رہی ہے آمر کو تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ مطلق العنان حکمران تھے جنھوں نے بادشاہوں کی طرح حکومت کی اور سیاست دانوں کو اپنے اشاروں پر نچایا ان سربراہوں کے دور میں قومی اسمبلی نہیں ہوتی جو انھیں من مانیوں سے روک سکے۔ ضیاء الحق نے ایک مجلس شوریٰ وفاق میں اور صوبوں میں صوبائی کونسلیں ضرور بنائی تھیں جو نامزد تھیں مگر ان کے موجودہ اسمبلیوں میں اجلاس ہوتے تھے اور حکمرانوں کو ان کی مرضی کے مشورے دیے جاتے تھے اور ارکان ان کے اقدامات کی تعریفیں کرتے تھے۔
آمروں کے سوا ملک میں جتنے وزیراعظم منتخب ہوئے ان میں کوئی ایسا نہیں تھا جس نے بادشاہوں کی طرح فیصلے نہ کیے ہوں اور پارلیمنٹ کو بااختیار سمجھا ہو۔ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ با اختیار ہونی چاہیے۔ سابق وزیراعظم گیلانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دور میں پارلیمنٹ مضبوط اور با اختیار تھی جب کہ موجودہ پارلیمنٹ کمزور ہے۔ سابق وزیراعظم گیلانی کا یہ ریکارڈ ہے کہ انھوں نے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں زیادہ وقت دیا اور قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرکے انھیں اہمیت دی۔
موجودہ پارلیمنٹ کا یہ حال ہے کہ موجودہ حکمران ایک سال تک سینیٹ کے اجلاس میں نہیں آئے اور جس قومی اسمبلی نے انھیں منتخب کیا تھا اسی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بہت کم شریک ہو رہے ہیں۔گزشتہ حکومت میں بادشاہ کا کردار تب کے حکمرانوں کا تھا اور اب یہ کردارموجودہ حکمران ادا کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ اور موجودہ دور میں ہی نہیں بلکہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ سے دو لخت ہونے والے ملک میں 1973 کا آئین منظور ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئے تھے تو انھوں نے مخالفین ہی کیا بلکہ اپنی پارٹی میں کسی کو مخالفت کا حق نہیں دیا تھا اور بادشاہوں کی طرح حکومت کی تھی۔ اسی قسم کی صورتحال کا ری پلے قومی مفاد میں ہرگز نہیں ہوگا۔
سابق وزرائے اعظم ظفر اﷲ جمالی، شوکت عزیز اور محمد خان جونیجو اس لیے کمزور تھے کہ ان کے اوپر آمر صدر بادشاہ بنے ہوئے تھے، محمد خان جونیجو اور ظفر اﷲ جمالی نے اپنا حق استعمال کیا تو فارغ کردیے گئے، شوکت عزیز بس دیکھنے کے وزیراعظم تھے اور اختیارات پرویز مشرف کے پاس تھے اور پارلیمنٹ کو ان کی مرضی کے خلاف فیصلے کا اختیار تھا مگر کبھی استعمال نہیں ہوا۔
بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دور میں با اختیار سویلین صدر تھے مگر با اختیار صدر نے تین بار اسمبلی توڑ کر اپنی طاقت دکھائی۔ 1992 میں مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت کا بھاری مینڈیٹ لے کر کامیاب ہوئیمگر اسیآمر کے ہاتھوں حکمرانی سے محروم ہونا پڑا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم کا عہدہ مضبوط بنانے اور مارشل لا روکنے کیلئے آئین میں آرٹیکل 6 شامل کرایا تھا کیا یہ آرٹیکل 1977 میں ضیاء الحق اور 1999 میں پرویز مشرف کو منتخب وزیر اعظموں کو برطرف کرنے سے روک سکا۔ دونوں بار مضبوط وزرائے اعظم برطرف ہوئے شاید وہ بادشاہ بن گئے تھے اور پارلیمنٹ ان کے آگے یس مین بنی ہوئی تھیں۔
آصف علی زرداری کے صدر بننے کے بعد وزیراعظم گیلانی کہنے کی حد تک با اختیار وزیراعظم تھے مگر تمام اہم فیصلے صدر زرداری کی مرضی سے کیے جاتے تھے۔ اگر گیلانی واقعی با اختیار وزیراعظم تھے تو انھوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت سوئزرلینڈ کو آصف زرداری کے خلاف خط کیوں نہیں لکھا۔ انھیں معلوم تھا کہ وہ صدر زرداری کی وجہ سے وزیراعظم ہیں اور انھیں ناراض کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔
سابق دور میں کرپشن کی وجہ سے ہٹائے گئے وزیر پانی و بجلی کو صدر زرداری نے وزیراعظم نامزد کرکے کیا بادشاہ کا کردار ادا نہیں کیا تھا، اس وقت صرف زرداری کو خوش رکھنے کے لیے تمام حکومتی حلیفوں نے ناخوش ہونے کے باوجود راجہ پرویز اشرف کو ووٹ دیے تھے اور ان کی نامزدگی کو صدر زرداری کا فیصلہ کہہ کر قبول کیا تھا اور قومی اسمبلی بے بس تھی جس میں اپنی مرضی کا وزیراعظم منتخب کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
ہمارے ملک کو آج تک حقیقی جمہوریت تو نصیب نہیں ہوئی البتہ جمہوریت کے نام پر سویلین آمریت اور سیاسی بادشاہ ضرور ملے ہیں اور انھوں نے تمام غیر جمہوری فیصلے اور اقدامات جمہوریت کے نام پر کیے۔ وزیراعظم کے نام پر بادشاہت کرنے والوں نے اقتدار کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھا اور قومی خزانہ ذاتی مال سمجھ کر بیدردی سے لٹایا۔ سب نے اپنوں کو بے دریغ نوازا، سرکاری اعلیٰ ملازمتیں اور اہم عہدے اپنے عزیزوں اور قریبی دوستوں میں بانٹے، پولیس اور سرکاری ملازمین کو ذاتی ملازم سمجھ کر اپنے شاہانہ احکامات پر عمل کرایا اور ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنے میں پیش پیش رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ شاید وہ ساری عمر اقتدار میں رہیں گے۔
عوام کو جمہوری ادوار میں زیادہ مہنگائی اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی منتخب کردہ اسمبلیوں میں ارکان نے اپنی تنخواہیں اور مراعات فوری طور پر بڑھانے کی منظوری دی مگر عوام کو ریلیف دینے کے معاملے میں اسمبلیوں میں کبھی آواز نہیں اٹھی۔ ہر بجٹ کے موقع پر تنقید دکھاوے کی ہوئی اور ہر بجٹ حکومت کی مرضی کا منظور کرکے عوام پر بوجھ بڑھایا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات حکومتی کمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں اور جمہوریت نے عوام کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ اب آمر کے دور کو جمہوریت سے بہتر قرار دینے پر مجبور ہیں۔ سویلین بادشاہوں نے منتخب ہوکر عوام کو ہمیشہ بھلایا اور عوام انھیں تب یاد آئے جب انھیں ووٹوں کی ضرورت پڑی۔