جمہوریت یا ملوکیت

سرمایہ داری اور نیشنل ازم کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں قوم پرستی ہو وہاں قومی عصبیت کے باعث سرمایہ داری زبردست ترقی۔۔۔


Shaikh Jabir August 01, 2014
[email protected]

گزشتہ کالم ''سلطانی جمہور''کی اشاعت نے کئی طرح کے سوالات کو جنم دیا۔خاص کر سب سے پہلا سوال جوکیا گیا وہ یہ تھا کہ جمہوریت نہیں تو پھر کیا؟کیا ملوکیت رائج ہونی چاہیے؟ یا پھر خلافت یا کچھ اور؟کئی افراد جمہوریت کو عین اسلامی ثابت کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی شورائیت اصل میں جمہوریت ہے۔جمہوریت میں بھی باہم مشاورت ہی سے معاملات چلائے جاتے ہیں۔کچھ کا خیال ہے کہ قرونِ اُولا سے جو بیعت کا سلسلہ ہے یہ اصل میں ووٹ ہی تو ہے۔

جمہوریت ،ووٹ،شورائیت اور بیعت وغیرہ کے مباحث اب نئے نہیں رہے۔ لیکن جو لوگ جمہوریت کے حق میں اسلامی تاریخ سے بیعتِ خلافت کے واقعات کو پیش کرتے ہیں، اُس پر مغرب کے سیاسی مفکرین صرف ہنس سکتے ہیں ۔جمہوریت میں تمام انسان مکمل طور پر برابر ہوتے ہیں۔ ہربالغ شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت الیکشن میں آزادانہ طور پر حصہ لے سکتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مندوں کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے ایران میں امیدواروں کی منظوری رہبر کونسل دیتی ہے۔

ملوکیت کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ تمام ملوک (بادشاہ) اپنی فوج کے سربراہ بھی ہوتے تھے وہ عموماً علم اور جسم کی صلاحیتوں کے جامع ہوتے تھے۔ وہ اپنی زمین، عقیدے ، نظریے اور سلطنت کا تحفظ میدان جنگ میں اپنے خون سے کرتے تھے ۔صرف اپنے ہی خون سے نہیں بلکہ ان کے خاندان کے تمام لوگ ،اُن کے بیٹے ،عزیز رشتے دار اور قبیلے اپنے لہو سے اپنی سلطنت سے وفاداری کا چراغ روشن رکھتے۔ صلیبی جنگوں میں یورپ کے تمام بادشاہوں اور ان کے بیٹوں اورشاہ زادوں نے بھر پورحصہ لیا اور صف اول میں جنگ لڑی۔جدید جمہوری ریاست کے کسی وزیر اعظم کو آپ نے کبھی میدان جنگ میں لڑتے ہوئے دیکھا ہے؟

وہ اسمبلی کے ایوان میں الفاظ کی جنگ زور و شور سے لڑتا ہے۔ افواج کے کمانڈر کا تقرر نامہ جاری کرتا ہے، لیکن خود میدان جنگ سے کوسوں میل دور رہتا ہے۔ کیوں؟ ملکہ برطانیہ کا ولی عہد شاہ زادہ فلپ فوج سے وابستہ رہا ۔اس کا بیٹا ولیم بھی فوج سے تربیت یافتہ ہے۔ اُس نے افغانستان جا کراگلے محاذوں پر جنگ میں شرکت کی ہے۔وہ برطانوی فوج میں''کیپٹن ویلز'' کے نام سے مشہور ہے۔اسی طرح شہزادہ ہیری نے ہلمند میں فوجی خدمات انجام دیں۔ یعنی بادشاہت جمہوریت سے تال میل کے باوجود آج بھی اپنے وطن کے دفاع کو اپنی منصبی ذمے داری سمجھتی ہے۔ آخرکیوں؟ یہ ہے اہم سوال جس کا جواب ضروری ہے؟

عہد حاضر جمہوریت کا عہد ہے۔ تقریباً تمام ریاستیں جمہوریت کی کسی نہ کسی شکل کو تسلیم کرتی ہیں۔ خواہ وہ سعودی عرب ہو، اردن ہو، کویت ہو، ایران ہو، چین ہو یا روس ۔ ان جمہوریتوں کو ہم نا مکمل جمہوریت، غیر لبرل ڈیموکریسی کہہ سکتے ہیں مگر اصلاً وہ ہیں جمہوریائیں۔ تمام ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو ایک عالمی آفاقی قدر کے طور پر قبول کرتی ہیں۔خواہ وہ لبرل سرمایہ داری ہو ،فری مارکیٹ یا غیر لبرل سرمایہ داری ہو ۔آج دنیا کی تمام ریاستوں کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ نیز اُن کے اہداف و مقاصد بھی یکساں ہیں۔ یعنی پروگریس ، ڈیولپمنٹ، جی این پی،جی ڈی پی اور معیار زندگی میں مسلسل اضافہ۔

اسلامی ریاست ہو، اسلامی ماہرین معاشیات ہوں یا کافر ریاست اور اس کے ماہرین دونوں کے اہداف یہی ہیں۔ تمام جدید ریاستیں اقوام متحدہ کی رکن ہیں۔ یہ تمام ریاستیں مذہب'' منشور بنیادی حقوق'' کی دست خط کنندہ ہیں۔تمام ریاستوں کے بنیادی مقاصد و اہداف یکساں ہیں ۔کہیں کہیں طریقہ کار کا فرق ہے لیکن سب آزادی کی بے کراں نعمتوں کی خاطر معیار زندگی میں اضافے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ روس، چین ،ایران، سعودی عرب جو نظریاتی ریاستیں سمجھے جاتے ہیں ان کا بنیادی نظریہ بھی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں سرمایہ داری کے فروغ کے کئی مدارج ہیں کہیں جمہوریت پہلے آتی ہے پھر سرمایہ داری، پھر بنیادی حقوق، کہیں قوم پرستی پہلے آتی ہے جس کے نتیجے میں قومی جمہوری ریاست بنتی ہے پھر یہ سرمایہ دارانہ ریاست میں ڈھل جاتی ہے ۔

سرمایہ داری اور نیشنل ازم کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں قوم پرستی ہو وہاں قومی عصبیت کے باعث سرمایہ داری زبردست ترقی کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے فروغ ، بقاء، ارتقاء، استحکام کے سلسلے میں مذاہب پروٹسٹنٹ ازم، کیلون ازم، پیورٹن ازم، انیوجیکل ازم نے بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ برطانیہ میں کرامویل کی حکومت میں پیورٹن عیسائیت نے سرمایہ داری کی مذہبی تعبیریں پیش کیں ۔ مذہبی ریاست نے سرمایہ داری کو فرو غ دیا۔

جرمنی میں مارٹن لوتھر نے سرمایہ داری کی مذہبی تعبیریں پیش کیں۔ یہی صورت حال اسکاٹ لینڈ میںہوئی جس سے اسکاٹش انلائٹنمنٹ کا ظہور ہوا ،جس کے نتیجے میں ماڈرن اکنامکس نے پوری دنیا کو سرمایہ دارانہ طرز زندگی کا تعقل پیش کرکے اسیرکیا۔لیکن کرامویل کی جمہوری حکومتوں کے نتیجے میں مذہبی ریاست طاقت ور ہونے کے بجائے ختم ہوگئی چوںکہ سرمایہ داری اور جمہوریت مذہبیت کو اپنے اندر تحلیل کرلیتی ہے۔ جس طرح جونک پر آپ اگر نمک کا چھڑکاؤ کردیں تو جونک چند لمحوں میں پانی بن کرتحلیل ہو جاتی ہے۔

قبرص میں'' آرچ بشپ میکاریوس سوئم(13،اگست1913تا3،اگست1977) کئی برس تک (1959-1977) صدر اور وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ ایک با رِیش اور خالص مذہبی شخصیت تھے ۔مگر قبرص ایک جمہوری لبرل ریاست ہی رہا ۔آرچ بشپ کی روحانیت سرمایہ داری پر غالب نہ آسکی۔ بلکہ آرچ بشپ کا کردار بھی جمہوری ریاست نے بدل کر رکھ دیا۔ تفصیلات کے لیے آریانا فلاسی کی کتاب''انٹرویوز ود ہسٹری اینڈ کنورسیشن ود پاور'' میں ''فادر میکاریوس'' کا انٹرویو پڑھ لیجیے۔

یہ سرمائے کا دور ہے ذرا دقتِ نظر سے کام لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کیا جمہوریت، کیا ملوکیت اور کیا مذہبیت سب ہی سرمائے کی خدمت میں مصروف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں