انا کا مسئلہ نہ بنائیں


کہتے ہیں کہ بچپن سے جو بات دل میں بیٹھ جائے وہ تاعمر برقرار رہتی ہے، اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اوائل عمری ہی سے بچوں کے اچھے برے کے معیار کو بلند رکھیں۔ اکثر بچوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر جھگڑا یا تنازع بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
کبھی مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا جذبہ مسائل بنا دیتا ہے۔ ایسے میں بچوں کو والدین اور اساتذہ کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل کے بچوں میں عدم برداشت کا رویہ بھی بڑھ گیا ہے، وہ جب ایک دوسرے کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے، تو سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، پھر وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، ان میں عقل اور شعور میں اضافے کے ساتھ زبانی تلخی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
بچوں میں دوسروں پر بازی لے جانے اور ان کے برابر ہونے کے جذبے کی اہم وجہ عام طورپر جسمانی طورپر ایک دوسرے سے طاقت وَر ہونا یا پھر جذباتی پن زیادہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوں کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ بعض بچے ہر موقع پر خود کو ان سے برتر ثابت کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس سلسلے میں عام طور پر وہ زبانی انداز بھی اپناتے ہیں اور جسمانی طورپر بھی متحرک ہوتے ہیں۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انھیں توجہ ملے، بچوں کا یہ زبانی اور جسمانی انداز بعض اوقات جارحانہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں دونوں کی مصالحت کے لیے کسی بڑے کی موجودگی انتہائی ضروری ہے، جو سمجھا بجھا کر دونوں کو مطمئن کرے اور کوشش کرے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔
بعضے وقت بچے اپنے تنازعات خود ہی حل کر لیتے ہیں اور بڑے کی مداخلت کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ ایسا اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب ایک دوسرے سے نبرد آزما دو بچوں کے ساتھ دیگر سمجھ دار بچے بھی موجود ہوں، جو اشتعال میں آئے بغیر غیر جانب داری سے دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرائیں۔ البتہ بعض اوقات بچوں کی لڑائی والدین تک پہنچتی ہے تو وہ بات ختم کرانے کے بہ جائے بڑے خود لڑ پڑتے ہیں اور الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی بے جا حمایت لے رہے ہیں۔
ایسا کرنا نہ صرف دو خاندانوں میں تلخی کا باعث بنتا ہے، بلکہ اس کا براہ راست بچوں پر بھی بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ ایسے والدین کو سوچنا چاہیے کہ بچے تو بچے ہیں ان میں لڑائی ناسمجھی کی بنا پر ہوتی ہیں، لہٰذا اسے انا کا مسئلہ بنانا نہایت غیر مناسب عمل ہے۔ والدین کو سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے بچوں کے درمیان انصاف کرنا چاہیے، تاکہ حق دار بچے کو حق ملے اور بچوں میں انصاف کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اکثر یہ لڑائیاں رشتے داروں کے درمیان بھی اختلافات کی اونچی فصیل کھڑی کردیتی ہیں، پھر بات بچوں کی لڑائی سے نکل کر بڑوں کے تنازعات بن کر خاندان میں بیٹھ جاتی ہے۔
بعض اوقات بچے بڑوں کے پیش کردہ حل کو بھی انصاف نہیں سمجھتے ان کا خیال ہوتاہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے، اس طرح کی صورت حال اکثر والدین کو اپنے ہی بچوں کے معاملے میں بھی پیش آجاتی ہے جب بہن بھائیوں میں کھیلتے ہوئے یا کوئی کام کرتے ہوئے کوئی اختلاف پیدا ہو جائے اور بات ان کے والدین تک پہنچ جائے تو وہ بچوں کے اختلاف کو دور کرنے کے لیے حل پیش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات جب ایک بچہ یہ سمجھتاہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں کیاگیا۔ اس قسم کی صورت حال کو بہت سمجھ داری سے سنبھالنا چاہیے۔
نوجوان بچے اکثر ایسی شکایات کرتے ہیں۔ انھیں مطمئن کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ انہیں والدین کی غیر جانب داری پر شبہات نہ رہیں۔اس ضمن میں انھیں زیادہ گہرائی سے ان کا قصور اور اس پر فیصلے کی بابت سمجھانا چاہیے کہ ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ نیز یہ فیصلہ کس طرح صحیح ہے اور اس پر اس بچے کے اعتراضات کا کیا جواب ہے وغیرہ۔
اسکول میں بھی بچوں کے درمیان اختلافات ہو جاتے ہیں، وہاں اساتذہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
اساتذہ کو بچوں کی خواہشات کا بخوبی علم ہونا چاہیے کہ بچوں کے درمیان اگر اختلاف ہوگیا ہے، تو کیا بچے کسی تنازع کا حل تلاش کرنے کی خواہش کررہے ہیں؟ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کے درمیان اختلافات کا منصفانہ حل تلاش کریں، ساتھ ہی انھیں معاملہ اپنے درمیان ہی حل کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ ان کے اندر معاملہ فہمی اور فیصلہ کرنے کی اہلیت پیدا ہو۔
اساتذہ یا والدین کو تنازعات میں مداخلت کرنے سے قبل دونوں طرف کی باتوں کا علم میں لانا بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ کس نوعیت کا تنازع ہے، تاکہ اس کا کوئی ممکنہ حل تلاش کیا جا سکے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں طرف کی تکرار اس قدر بڑھی ہوتی ہے کہ معاملہ بیان کرتے ہوئے ہی دونوں متضاد باتیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر غلط بیانی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایسے میں اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ حقیقت حال کا پتا چلا کر فیصلہ کیا جائے۔
بچوں کے تنازعات دراصل ان کے سیکھنے اور آگے بڑھنے کے عمل سے تعلق رکھتے ہیں، یہ تنازعت خوش اسلوبی سے نمٹنا ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں اور ان کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز لگتا ہے۔ اس لیے یہ بڑوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس طرح کی صورت حال میں بچوں کی بھرپور راہ نمائی کریں تاکہ تنازعات طویل نہ ہونے پائیں۔ بچے جب مصالحت کے لیے بڑوں پر انحصار کرتے ہیں تو بڑوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان کے مسائل پر بھرپور توجہ دے کر معاملہ نمٹائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بچوں سے زیادہ بچپنہ دکھائیں اور بچوں کی نادانی کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیں۔