کچھ علاج اس کا بھی
موت کتنی بھی اذیت ناک ہو لیکن ایک بار ہی آتی ہے۔ لیکن Rape ایسا ظلم ہے کہ جس کی شکار عورت کی سزا ختم ہوتی ہی نہیں۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں...!
ہر ظلم کی کوئی نہ کوئی حد تو ہوتی ہی ہے اور ظلم سہنے والا مظلوم بھی کہلاتا ہے اس سے ہمدردی بھی کی جاتی ہے لیکن اس کار زار جہاں میں عورت ہی وہ واحد ہستی ہے جوکہ اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کی آپ ہی ذمے دار ٹھہرائی جاتی ہے اور ہمدردی کی مستحق بھی نہیں سمجھی جاتی۔ معاشرے کے نام نہاد اصل مرتب کرنے والوں نے اس کو انسانیت کے زمرے سے ذرا دور ہی رکھا ہوا ہے۔ عزت کے نام پر قتل کی جانے والی عورت ایک بار قتل ہوجاتی ہے، موت کتنی بھی اذیت ناک ہو لیکن ایک بار ہی آتی ہے۔ لیکن Rape ایسا ظلم ہے کہ جس کی شکار عورت کی سزا ختم ہوتی ہی نہیں۔
وہ اس ظلم کا شکار ہونے کے بعد ہمیشہ اس ظلم کی آگ میں جھلستی رہتی ہے۔ عورت کے لیے پورا معاشرہ جلتی تپتی ہوئی بھٹی کی مانند بن جاتا ہے۔ انصاف کی مسند پر بیٹھنے والوں کے سامنے پہنچنے کے مرحلے بھی آگ سے گزرنے جیسے ہیں۔ سارے الزامات برچھیوں سے زخمی ہوتی ہوئی وہ ناانصافی کے خنجر سے بار بار ہلاک ہوتی ہے۔ روتی پیٹتی دھاڑیں مارتی ہوئی جب قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو اذیتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سوالات کی بوچھاڑ اسی پر ہوتی ہے۔ بار بار اخبار کی زینت بنتی ہوئی اس کی فوٹو اس کی زندگی اور بھی اجیرن کردیتی ہے۔
اگر جرم گھر سے باہر ہو تو پہلا سوال یہ کہ گھر سے باہر کیوں نکلیں؟ اگر Rape گھر کے اندر ہو تو یہ سوال کہ کیا مجرم کو جانتی تھیں؟ کیا کوئی دشمنی تھی؟ کیا پہلے کبھی دیکھا ہے؟ پھر اسپتال، میڈیکل چیک اپ، جوکہ اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ ہاں یہ Rape ہوا ہے۔ پھر کیمیکل لیبارٹری سے تصدیق نامے کا انتظار بھی DNA ٹیسٹ اب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے صحت کے ادارے کتنی ''جلدی'' کام نمٹاتے ہیں۔
DNA اسلام آباد سے ہوتا ہے اور اطلاعات کے مطابق یہ لیبارٹری آج کل فعال نہیں ہے۔ اس سارے عمل میں مجرم Rape کرنے والا آرام ہی کرتا رہتا ہے۔ قانون کی گرفت اس پر ہاتھ ہلکا ہی رکھتی ہے۔ نہ اس کی فوٹو چھپتی ہے نہ وہ میڈیا اور قانون کے سوالات کے جوابات دینے کا پابند ہوتا ہے۔
16 جولائی 2014 کے اخبارات میں ضلع دادو کے گاؤں جوہی کی چھوٹی بچی کی فوٹو چھپی۔ چہرہ لہولہان تھا آنکھیں بند تھیں،خبر یہ تھی کہ اجتماعی زیادتی کے بعد اس 10 سال کی بچی کو گھر کے آگے پھینک دیا گیا۔ چند دنوں بعد وہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے ناک سے خون بہہ کر چہرے پر جما ہوا تھا۔ لیکن ڈاکٹری رپورٹ نے Rape کی تصدیق نہیں کی اور رپورٹ میں یہ بھی لکھ دیا کہ اس پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔
بس چند دن اخبارات کی زینت بنی ہوئی یہ خبر بس ایک موت کی خبر بن کر رہ گئی۔ پولیس نے دوافراد گرفتار بھی کرلیے تفصیلات کے مطابق اس بچی جمیلہ سولنگی کے والدین نے چھوٹی عمر میں شادی کردی، بچی کو چند دن بعد سسرال والے زخمی حالت میں گھر کے باہر پھینک کر چلے گئے۔ کیس الجھتا گیا والدین جمیلہ کے شوہر پر الزامات لگاتے رہے اور وہ والدین پر الزام لگاتا رہا۔ ذمے دار کون تھا تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔
16 جولائی 2014 کو 5 سال کی بسمہ کا نواب شاہ میں Rape ہوا۔ اب وہ اپنے اوپر کیے گئے ظلم کو بیان کیسے کرے؟ غریب مزدور والد نے رپورٹ درج کروائی اور چپ ہوکرکے بیٹھ گئے۔ پولیس میڈیکل رپورٹ کی منتظر ہے کہ جب وہ رپورٹ آئے گی تب F.I.R داخل ہوگی۔ چند لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی لیکن اصل مجرم ابھی تک نہیں ملا۔جتنی چھوٹ ملتی ہے جرم اتنا ہی بڑھتا ہے۔ مجرم جانتے ہیں کہ ان کے اس کھیل کو قانون کی گرفت میں لانا بہت مشکل ہے۔
4 جولائی 2014 کوٹری میرواہ کے قریب گاؤں شیرخان کھپرو میں 10 مسلح افراد نے خادم حسین ڈکھن کے گھر سے تین بہنوں کو اغوا کیا اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کے بعد خادم حسین قرآن پاک سر پر اٹھا کر انصاف انصاف پکارتا رہا۔ ثبوت کے طور پر گولیوں کے خالی خول بھی گھر میں دکھاتا رہا، کچھ گواہ بھی ہیں جوکہ قریبی کھیتوں سے لڑکیوں کو گھر اٹھالائے تھے لیکن تادم تحریر ان کا کیس داخل نہیں ہوا۔ کبھی کبھی لوگوں کی لاعلمی اور کج فہمی بھی مصیبت بن جاتی ہے خادم حسین ڈکھن بھی اپنی حدود کے تھانے سے لاعلم تھا پولیس نے F.I.R اس لیے داخل نہیں کی کہ یہ کیس ان کی حدود کا نہیں تھا۔ جولائی میں ہی 9 سالہ بچی روبینہ چانگ بھی اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی اس کے اپنے ہی رشتے دار بہلا پھسلا کر لے گئے اور صبح واپس گھر چھوڑ گئے۔
روبینہ یتیم بچی نانی کے ساتھ رہتی تھی۔ غریب بوڑھی نانی بچی کو لے کر اسپتال گئی میڈیکل کروایا، پولیس اسٹیشن گئی۔ وومن ایکشن فورم کی کوششوں سے ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس معصوم بچی کے ساتھ بھی محلے والوں اور عزیزوں کا رویہ الزامات سے بھرپور تھا۔ میڈیا پر اس چھوٹی سی لڑکی کا فوٹو آگیا تھا اور جن 4 لوگوں نے جرم کیا وہ پردے کے پیچھے چھپے رہے۔ بچی کی نانی اور ماموں نے کوششیں کیں کچھ پولیس نے بھی فرض نبھایا اور 3 لوگ گرفتار ہو گئے۔ ایک کی کورٹ سے ضمانت بھی کروالی گئی۔ روبینہ اور اس کی نانی ابھی تک محو انتظار انصاف کے عمل کے مرحلوں سے گزر رہی ہے۔
بہت طویل فہرست ہے۔ اس فہرست میں رسول آباد کی 4 لڑکیوں کے نام بھی شامل کرتے چلیں ۔ یہ واقعہ تو 25 مئی 2014 کو پیش آیا۔ لیکن لوگوں کے ڈر سے اجتماعی زیادتی کا ایف آئی آر میں ذکر نہیں کیا گیا صرف ڈکیتی کی رپورٹ کروائی گئی۔ ایک ماہ بعد یہ کیس میڈیا پر آیا تو پتا چلا کہ ضلع خیرپور کے شہر رسول آباد کے بیوپاری بابوپریل میمن کے گھر میں 7 افراد ہتھیار لے کر گھس آئے۔ ڈکیتی کے بعد سب خواتین کو ایک کمرے میں بند کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا ان میں ایک بچی کم عمر تھی اور اس کی برین سرجری کو 10 دن مشکل سے ہوئے تھے۔
ان خواتین کی ہمت کو سلام کہ وہ اپنے اوپر کیے گئے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے ساتھ نکل پڑیں لیکن اخلاقیات کی حدوں کو پار کرتے ہوئے ان خواتین کے ڈھکے ہوئے چہروں کو میڈیا پر دکھایا گیا۔ کسی تصویر میں رو رہی تھیں تو کہیں آنسو پونچھ رہی تھیں تو کہیں ہاتھ باندھے کھڑی تھیں۔ افسوس کہ اس طرح کی تصاویر کے ساتھ جو خبر کی زباں ہوتی ہے وہ بھی اذیت ناک ہوتی ہے۔
ان چار خواتین کے فوٹو کے ساتھ ہمارے سندھی اخبارات نے جو ہیڈنگ لگائی تھی وہ اس طرح تھی ''لج لٹیل عورتوں'' (عزت لوٹی ہوئی خواتین) افسوس کہ جو مجرم ایسی گری ہوئی حرکت کرتا ہے وہ اپنی عزت نہیں کھوتا اس کے لیے کبھی بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔ یہ بھی اخباری زبان کا کمال ہے کہ جب عورت زیادتی کی شکایت کرتی ہے تو لفظ ''الزام'' استعمال کیا جاتا ہے۔ حتمی بات نہیں مانی جاتی۔ Rape کے کیسز رپورٹ کرتے وقت جب خبر بنائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری عورت کی مخالفت میں ہی ہوتی ہے۔
مرد گناہ کرکے بھی قابل عزت رہتا ہے۔ چاہے وہ Rape کرے، قتل کرے، عورت کو بیچ دے، جوئے میں ہار دے، اس کے لیے کبھی بھی ''عزت گیا ہوا، بے عزت'' لفظ استعمال نہیں کیا جاتا لیکن عورت کے لیے یہ لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ان سب باتوں پر سنجیدگی سے وزیر اطلاعات و نشریات پیمرا، APNS اور CPNC کو نوٹس لینا چاہیے۔ پہلے ایسے واقعات چھپائے جاتے تھے، رپورٹ نہیں ہوتے تھے ۔
سندھ میں قبائلی جھگڑوں میں بھی زیادہ تر عورت شکار ہوتی ہے عورت پر ظلم کرکے وہ اپنا انتقام لیتے ہیں۔ عورت کو عزت کا نام دے کر بھی ایک دوسرے سے بدلا لینے کے لیے عورت پر ظلم کیا جاتا ہے۔ کم یا زیادہ وقت کی بات ہے مگر انصاف تو ہو کبھی تو Rape کا مجرم سزا پا سکے۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ان روتی ماتم کرتی ہوئی مظلوم بچیوں اور خواتین کی تصاویر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر روک سکیں۔ انصاف تک پہنچتے پہنچتے معاشرے کے چبھتے ہوئے رویوں کے پتھر جیتے جی عورت کو مار دیتے ہیں، جو مجرم ہوتا ہے وہ سر اٹھاکر چلتا ہے اور باقی عورت اور اس کے عزیز واقارب زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ بربریت کے اس کھیل کے کھلاڑی سدا کامیاب اور سرخرو ہی نظر آتے ہیں، آخر میں ایک التجا کہ ان بچیوں کی تصویریں چھاپنے سے گریز کریں تاکہ وہ اگر انصاف نہ پاسکیں تو کم ازکم چین سے زندہ تو رہ سکیں۔
ہر ظلم کی کوئی نہ کوئی حد تو ہوتی ہی ہے اور ظلم سہنے والا مظلوم بھی کہلاتا ہے اس سے ہمدردی بھی کی جاتی ہے لیکن اس کار زار جہاں میں عورت ہی وہ واحد ہستی ہے جوکہ اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کی آپ ہی ذمے دار ٹھہرائی جاتی ہے اور ہمدردی کی مستحق بھی نہیں سمجھی جاتی۔ معاشرے کے نام نہاد اصل مرتب کرنے والوں نے اس کو انسانیت کے زمرے سے ذرا دور ہی رکھا ہوا ہے۔ عزت کے نام پر قتل کی جانے والی عورت ایک بار قتل ہوجاتی ہے، موت کتنی بھی اذیت ناک ہو لیکن ایک بار ہی آتی ہے۔ لیکن Rape ایسا ظلم ہے کہ جس کی شکار عورت کی سزا ختم ہوتی ہی نہیں۔
وہ اس ظلم کا شکار ہونے کے بعد ہمیشہ اس ظلم کی آگ میں جھلستی رہتی ہے۔ عورت کے لیے پورا معاشرہ جلتی تپتی ہوئی بھٹی کی مانند بن جاتا ہے۔ انصاف کی مسند پر بیٹھنے والوں کے سامنے پہنچنے کے مرحلے بھی آگ سے گزرنے جیسے ہیں۔ سارے الزامات برچھیوں سے زخمی ہوتی ہوئی وہ ناانصافی کے خنجر سے بار بار ہلاک ہوتی ہے۔ روتی پیٹتی دھاڑیں مارتی ہوئی جب قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو اذیتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سوالات کی بوچھاڑ اسی پر ہوتی ہے۔ بار بار اخبار کی زینت بنتی ہوئی اس کی فوٹو اس کی زندگی اور بھی اجیرن کردیتی ہے۔
اگر جرم گھر سے باہر ہو تو پہلا سوال یہ کہ گھر سے باہر کیوں نکلیں؟ اگر Rape گھر کے اندر ہو تو یہ سوال کہ کیا مجرم کو جانتی تھیں؟ کیا کوئی دشمنی تھی؟ کیا پہلے کبھی دیکھا ہے؟ پھر اسپتال، میڈیکل چیک اپ، جوکہ اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ ہاں یہ Rape ہوا ہے۔ پھر کیمیکل لیبارٹری سے تصدیق نامے کا انتظار بھی DNA ٹیسٹ اب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے صحت کے ادارے کتنی ''جلدی'' کام نمٹاتے ہیں۔
DNA اسلام آباد سے ہوتا ہے اور اطلاعات کے مطابق یہ لیبارٹری آج کل فعال نہیں ہے۔ اس سارے عمل میں مجرم Rape کرنے والا آرام ہی کرتا رہتا ہے۔ قانون کی گرفت اس پر ہاتھ ہلکا ہی رکھتی ہے۔ نہ اس کی فوٹو چھپتی ہے نہ وہ میڈیا اور قانون کے سوالات کے جوابات دینے کا پابند ہوتا ہے۔
16 جولائی 2014 کے اخبارات میں ضلع دادو کے گاؤں جوہی کی چھوٹی بچی کی فوٹو چھپی۔ چہرہ لہولہان تھا آنکھیں بند تھیں،خبر یہ تھی کہ اجتماعی زیادتی کے بعد اس 10 سال کی بچی کو گھر کے آگے پھینک دیا گیا۔ چند دنوں بعد وہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے ناک سے خون بہہ کر چہرے پر جما ہوا تھا۔ لیکن ڈاکٹری رپورٹ نے Rape کی تصدیق نہیں کی اور رپورٹ میں یہ بھی لکھ دیا کہ اس پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔
بس چند دن اخبارات کی زینت بنی ہوئی یہ خبر بس ایک موت کی خبر بن کر رہ گئی۔ پولیس نے دوافراد گرفتار بھی کرلیے تفصیلات کے مطابق اس بچی جمیلہ سولنگی کے والدین نے چھوٹی عمر میں شادی کردی، بچی کو چند دن بعد سسرال والے زخمی حالت میں گھر کے باہر پھینک کر چلے گئے۔ کیس الجھتا گیا والدین جمیلہ کے شوہر پر الزامات لگاتے رہے اور وہ والدین پر الزام لگاتا رہا۔ ذمے دار کون تھا تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔
16 جولائی 2014 کو 5 سال کی بسمہ کا نواب شاہ میں Rape ہوا۔ اب وہ اپنے اوپر کیے گئے ظلم کو بیان کیسے کرے؟ غریب مزدور والد نے رپورٹ درج کروائی اور چپ ہوکرکے بیٹھ گئے۔ پولیس میڈیکل رپورٹ کی منتظر ہے کہ جب وہ رپورٹ آئے گی تب F.I.R داخل ہوگی۔ چند لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی لیکن اصل مجرم ابھی تک نہیں ملا۔جتنی چھوٹ ملتی ہے جرم اتنا ہی بڑھتا ہے۔ مجرم جانتے ہیں کہ ان کے اس کھیل کو قانون کی گرفت میں لانا بہت مشکل ہے۔
4 جولائی 2014 کوٹری میرواہ کے قریب گاؤں شیرخان کھپرو میں 10 مسلح افراد نے خادم حسین ڈکھن کے گھر سے تین بہنوں کو اغوا کیا اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کے بعد خادم حسین قرآن پاک سر پر اٹھا کر انصاف انصاف پکارتا رہا۔ ثبوت کے طور پر گولیوں کے خالی خول بھی گھر میں دکھاتا رہا، کچھ گواہ بھی ہیں جوکہ قریبی کھیتوں سے لڑکیوں کو گھر اٹھالائے تھے لیکن تادم تحریر ان کا کیس داخل نہیں ہوا۔ کبھی کبھی لوگوں کی لاعلمی اور کج فہمی بھی مصیبت بن جاتی ہے خادم حسین ڈکھن بھی اپنی حدود کے تھانے سے لاعلم تھا پولیس نے F.I.R اس لیے داخل نہیں کی کہ یہ کیس ان کی حدود کا نہیں تھا۔ جولائی میں ہی 9 سالہ بچی روبینہ چانگ بھی اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی اس کے اپنے ہی رشتے دار بہلا پھسلا کر لے گئے اور صبح واپس گھر چھوڑ گئے۔
روبینہ یتیم بچی نانی کے ساتھ رہتی تھی۔ غریب بوڑھی نانی بچی کو لے کر اسپتال گئی میڈیکل کروایا، پولیس اسٹیشن گئی۔ وومن ایکشن فورم کی کوششوں سے ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس معصوم بچی کے ساتھ بھی محلے والوں اور عزیزوں کا رویہ الزامات سے بھرپور تھا۔ میڈیا پر اس چھوٹی سی لڑکی کا فوٹو آگیا تھا اور جن 4 لوگوں نے جرم کیا وہ پردے کے پیچھے چھپے رہے۔ بچی کی نانی اور ماموں نے کوششیں کیں کچھ پولیس نے بھی فرض نبھایا اور 3 لوگ گرفتار ہو گئے۔ ایک کی کورٹ سے ضمانت بھی کروالی گئی۔ روبینہ اور اس کی نانی ابھی تک محو انتظار انصاف کے عمل کے مرحلوں سے گزر رہی ہے۔
بہت طویل فہرست ہے۔ اس فہرست میں رسول آباد کی 4 لڑکیوں کے نام بھی شامل کرتے چلیں ۔ یہ واقعہ تو 25 مئی 2014 کو پیش آیا۔ لیکن لوگوں کے ڈر سے اجتماعی زیادتی کا ایف آئی آر میں ذکر نہیں کیا گیا صرف ڈکیتی کی رپورٹ کروائی گئی۔ ایک ماہ بعد یہ کیس میڈیا پر آیا تو پتا چلا کہ ضلع خیرپور کے شہر رسول آباد کے بیوپاری بابوپریل میمن کے گھر میں 7 افراد ہتھیار لے کر گھس آئے۔ ڈکیتی کے بعد سب خواتین کو ایک کمرے میں بند کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا ان میں ایک بچی کم عمر تھی اور اس کی برین سرجری کو 10 دن مشکل سے ہوئے تھے۔
ان خواتین کی ہمت کو سلام کہ وہ اپنے اوپر کیے گئے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے ساتھ نکل پڑیں لیکن اخلاقیات کی حدوں کو پار کرتے ہوئے ان خواتین کے ڈھکے ہوئے چہروں کو میڈیا پر دکھایا گیا۔ کسی تصویر میں رو رہی تھیں تو کہیں آنسو پونچھ رہی تھیں تو کہیں ہاتھ باندھے کھڑی تھیں۔ افسوس کہ اس طرح کی تصاویر کے ساتھ جو خبر کی زباں ہوتی ہے وہ بھی اذیت ناک ہوتی ہے۔
ان چار خواتین کے فوٹو کے ساتھ ہمارے سندھی اخبارات نے جو ہیڈنگ لگائی تھی وہ اس طرح تھی ''لج لٹیل عورتوں'' (عزت لوٹی ہوئی خواتین) افسوس کہ جو مجرم ایسی گری ہوئی حرکت کرتا ہے وہ اپنی عزت نہیں کھوتا اس کے لیے کبھی بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔ یہ بھی اخباری زبان کا کمال ہے کہ جب عورت زیادتی کی شکایت کرتی ہے تو لفظ ''الزام'' استعمال کیا جاتا ہے۔ حتمی بات نہیں مانی جاتی۔ Rape کے کیسز رپورٹ کرتے وقت جب خبر بنائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری عورت کی مخالفت میں ہی ہوتی ہے۔
مرد گناہ کرکے بھی قابل عزت رہتا ہے۔ چاہے وہ Rape کرے، قتل کرے، عورت کو بیچ دے، جوئے میں ہار دے، اس کے لیے کبھی بھی ''عزت گیا ہوا، بے عزت'' لفظ استعمال نہیں کیا جاتا لیکن عورت کے لیے یہ لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ان سب باتوں پر سنجیدگی سے وزیر اطلاعات و نشریات پیمرا، APNS اور CPNC کو نوٹس لینا چاہیے۔ پہلے ایسے واقعات چھپائے جاتے تھے، رپورٹ نہیں ہوتے تھے ۔
سندھ میں قبائلی جھگڑوں میں بھی زیادہ تر عورت شکار ہوتی ہے عورت پر ظلم کرکے وہ اپنا انتقام لیتے ہیں۔ عورت کو عزت کا نام دے کر بھی ایک دوسرے سے بدلا لینے کے لیے عورت پر ظلم کیا جاتا ہے۔ کم یا زیادہ وقت کی بات ہے مگر انصاف تو ہو کبھی تو Rape کا مجرم سزا پا سکے۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ان روتی ماتم کرتی ہوئی مظلوم بچیوں اور خواتین کی تصاویر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر روک سکیں۔ انصاف تک پہنچتے پہنچتے معاشرے کے چبھتے ہوئے رویوں کے پتھر جیتے جی عورت کو مار دیتے ہیں، جو مجرم ہوتا ہے وہ سر اٹھاکر چلتا ہے اور باقی عورت اور اس کے عزیز واقارب زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ بربریت کے اس کھیل کے کھلاڑی سدا کامیاب اور سرخرو ہی نظر آتے ہیں، آخر میں ایک التجا کہ ان بچیوں کی تصویریں چھاپنے سے گریز کریں تاکہ وہ اگر انصاف نہ پاسکیں تو کم ازکم چین سے زندہ تو رہ سکیں۔