فلسطینیوں پر مظالم
اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرح مضبوط رہے ہیں۔
فلسطین میں بے گناہ معصوم نہتے شہریوں کو قتل اور شہروں کو کھنڈر میں تبدیل کرنے کے لئے اسرائیل کی بربریت اور وحشیانہ جارحیت عالمی برادری کے لیے ایک طرف ایک بڑا سوال بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف عالمی اتحاد کی قیادت کرنے والے امریکا اور برطانیہ کے نزدیک شائد فلسطینی عوام انسانوں کے زمرے میں نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو روکنے کی بجائے امریکا اسرائیل کی عسکری،اقتصادی اور سفارتی مدد کرتا چلا آرہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یورپی برادری اور تنظیم اسلامی کانفرنس ( او آئی سی) بھی اس بربریت اور وحشیانہ قتل عام کے روک تھام میں اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ امریکا جس کا ایجنڈا مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنا تھا ، آج وہ خود کیوں مشرق وسطیٰ کو آگ میں دھکیلنے کی کوشش کررہا ہے۔ کیا امریکی حکومت کا امن ایجنڈا ختم کردیا گیا ہے۔ مشرق وسطی ٰ کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والوں کے نزدیک خطے میں بدلتی صورتحال جو عراق میں جاری خانہ جنگی کا ردعمل ہے اور ایران امریکا کشیدگی کے باعث نئی سمت اختیار کررہی ہے، وہ امریکا کو قبول نہیں۔ خاص طور سے فلسطین میں حماس کی کامیابی اور بڑھتی ہوئی طاقت کو امریکا اور اسرائیل اپنے ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے ایجنڈے پر بھر پور عمل درآمد سے قبل خطے میں ہرقسم کی مزاحمت کو ختم یا کم سے کم کردینا چاہتا ہے، جب کے عراق کی موجودہ صورتحال ، افغانستان پر امریکی تسلط اور ایران کے ساتھ اس کی محاذ آرائی نے بالخصوص مسلم دنیا میں ایک نئی مزاحمتی تحریک کو جنم دیا ہے، جو امریکا کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے۔ امریکا ہر ایسی تحریک کو دہشت گردی کا نام دے کر اسے ختم کرنا چاہتا ہے لیکن چونکہ ہر تحریک دہشت گردی کی تحریک نہیں ہے نہ ہی ایسی تحریکیں کسی شوق کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں، بلکہ یہ تحریکیں خالصتا ایک خاص قسم کے ردعمل کا نتیجہ ہیں،جوکسی نہ کسی عالمی دباؤ یا پھر ملک کے اندرکی گھٹن کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے بحران کے معاملے میں امریکا کا رویہ دنیا کے سامنے ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا ایک نیا مشرق وسطیٰ چاہتا ہے، مگر حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اس میں اس بحران کی شدت میں تیزی آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ تو اسرائیل کی تشکیل کے بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کی خاطر امریکا کسی حد تک بھی جاسکتا ہے ۔ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ دونوں ممالک کی تاریخ میں کئی قدر مشترک ہیں دونوں قومیں ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئیں اور انہیں دنیا کے مختلف حصوں سے لاکر ایک ایسے قطعہ زمین پر بسایا گیا ، جس کے وہ بھی کبھی مالک نہیں رہے۔ دونوں اقوام نے اپنے زور بازو پر ترقی کی۔
امریکی جس سرزمین کے مالک بن گئے ہیں ، وہاں وہ بن بلائے مہمان کی حیثیت سے آئے تھے ، جب کہ یہودیوں نے بھی اسی طرح زمین پر قابض ہوکر اپنی مملکت کی تشکیل کی۔ ابتدا میں یہ دونوں اقوام تعداد میں کم تھیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ ان کی آبادیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور اس طرح بن بلائے مہمان آخر کار مالک بن بیٹھے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ امریکا ہمیشہ اسرائیل کی حمایت ہی کرتا ہے ۔ یہ حمایت بنیادی اخلاقی فلسفے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ امریکا وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948 میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا تھا ۔
اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرح مضبوط رہے ہیں۔ امریکا یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو کسی کی بھی ہو ، ان کے تعلقات میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اقوام متحدہ میں امریکا نے 1972 تک ایک بار بھی ویٹو کے حق کا استعمال نہیں کیا ۔1972 میں امریکا نے شام اور لبنان کی اسرائیل کے خلاف کی جانے والی شکایت پر ویٹو اسرائیل کے حق میں استعمال کیا۔ 1973 سے2000 تک سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ پر 90 قراردادیں پیش کی گئیں ، جن میں سے 33 کو امریکا نے ویٹو کردیا۔
اقوام متحدہ نے عالمی دبائو پر کئی بار اسرائیل کے خلاف سخت لب و لہجہ استعمال کیا ، مگر ہر بار امریکا نے اسرائیل کا دفاع کیا ۔ اسرائیل نے اس دوستی کا جواب وفاداری سے دیا اور جنرل اسمبلی کے ہر معاملے میں امریکا کے حق میں ووٹ دیا۔ فوجی حمایت کے نام پر امریکا نے پہلی بار اسرائیل کو ہاک اینٹی ایئر کرافٹ میزائل فروخت کیے۔ 14 اکتوبر 1973 کو شروع کی جانے والی امداد مسلسل ایک مہینہ جاری رہی۔ امریکا نے اسرائیل کی بیرونی امداد میں چار گنا اضافہ کردیا،جس کے نتیجے میں امریکا اسرائیل کو فوجی اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔
آنے والی دہائیوں میں اسرائیل اور امریکا نے مل کر مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ کیا ۔ ان مفادات میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلائو ، دہشت گردی ، مشرق وسطیٰ کے تیل کی دولت تک رسائی اور انتہا پسند اسلام کا پھیلائو شامل ہیں۔ 2006 میں امریکا نے اسرائیل کو تقریبا ڈھائی ہزار ملین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ۔ اس سے پہلے معاشی تعاون کے نام پر امریکا 1951 میں یہودیوں کی آباد کاری کے لئے اسرائیل کو 65 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرچکا تھا۔
اسرائیل پہلا ملک ہے جس نے امریکا کے ساتھ فری ٹریڈ کا معاہدہ کیا۔ جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا۔ اسرائیل دنیا میں ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ کئی امریکی ادارے اور یونیورسٹیاں اسرائیل سے زراعت اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے معاونت حاصل کرتی ہیں۔ فلسطین پر اسرائیل کے مسلسل جارحانہ حملوں نے جہاں فلسطین کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے وہیں فلسطین کے مسلمان شہری بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں ۔ جو جاں بحق ہوچکے ہیں وہ تو اس دنیا سے گزر چکے ہیں لیکن جو زندہ ہیں ان کے لئے زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔ ایسے میں امریکا ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ان وحشیانہ حملوں کو اسرائیل کو حق دفاع قرار دیتا ہے۔
فلسطین کی تباہی، وہاں کے غیر مسلح شہری ،سڑکیں پل، رہائشی عمارتیں ، اسکول ، ذرائع نقل وحمل اور معصوم فلسطینی بچوں کو شہید کردینا کس طرح کا حق دفاع ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کو عالمی ذرائع ابلاغ اور نشریاتی ادارے لمحہ بہ لمحہ کی رپورٹ بنا کر دنیا کے سامنے لا رہے ہیں ۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ خاندان کے خاندان تباہ کیے جارہے ہیں ، جو لوگ گھروں کو غیر محفوظ سمجھ کر پارکوں اور تعلیمی اداروں میں جا کر پناہ لے رہے ہیں، انہیں بھی بمباری کرکے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، اس کے باوجود ظالم اور مظلوم،جارح اور مجروح کے درمیان فرق نہیں کیا جارہا ہے۔
تمام اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ فلسطین کے ہاتھ مضبوط کریں اوراگر مسلمان ممالک اس بار بھی منقسم نظر آئے تو نہ صر ف یہ کہ اتحاد کا ایسا موقع دوبارہ نہیں ملے گا بلکہ تاریخ بھی انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ سیاسی بیانات داغ دینے سے ذمے داری پوری نہیں ہوجاتی عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا ۔ فلسطینی عوام حالت جنگ میں ہیں ۔ فلسطین کا کوئی بچہ ایسا نہیں جس نے انسانی بستیاں روندنے والے ٹینکوں اور بمباری کرنے والے طیاروں کی گڑگڑاہٹ نہ سنی ہو ، کوئی خاندان ایسا نہیں جس کا کوئی فرد شہید ، زخمی یا قیدی نہ بنا ہو۔ وہ جو اپنے وطن میں ہی بے وطن ہوں ، جن کی زمین کو غیروں کے حوالے کردیا گیا ہو، جہاں اپنے وطن ، اپنے حق خود ارادیت کی خاطر پتھر اٹھانے والے کو ظالم اور ظلم ڈھانے والے کو مظلوم قرار دیدیا گیا ہو، ان کی آہیں اور سسکیاں مسلم امہ کے ارباب اقتدار کو سنائی نہیں دیتیں۔
یا اگر سنائی دے بھی جاتی ہوں تو مصلحتوں کے بکل مارے ہوئے ان لوگوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں ورنہ کیا ایسا ممکن تھا کہ مسلم امہ کے ایک حصے کے ننھے ننھے معصوم سے بن کھلے پھول اتنی بے رحمی اور بربریت سے مسل دیئے جاتے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں مگر ہمارے رہنمائوں نے شترمرغ کی طرح اپنی گردن ریت کے اندر چھپا لی ہے اور اپنے اپنے پر تعیش گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مبرا عالی شان محلوں میں دبک گئے ہیں مبادا انہیں یہ دردناک مناظر دکھائی نہ دے جائیں۔