
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عائد ٹیرف کے نتیجے میں اگلے روز عالمی اسٹاک مارکیٹس کریش کرگئیں، کھربوں ڈالر ڈوب گئے، تیل کی قیمتیں پانچ سال کی کم ترین سطح پر آگئیں، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی تاریخی مندی دیکھی گئی ، ادھر سعودی اسٹاک میں 500 ارب ریال کا خسارہ ہوا جب کہ بھارت میں انویسٹرز کے 20لاکھ کروڑ روپے برباد ہوگئے۔ البتہ منگل کے روز پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے بہتر پرفارم کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو دوسری بار امریکی صدر کے طور پر حلف اٹھایا تھا اور صرف ڈھائی ماہ بعد ان کی معاشی اور تجارتی پالیسیوں اور اقدامات نے امریکی شہریوں اور پوری دنیا کے لیے سنگین مسائل کھڑے کر دیے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت ٹیرف اسٹریٹیجی نے نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کو معاشی ہنگاموں کی طرف دھکیل دیا ہے اور عالمی تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پر جوشکاروباری امید اور جنگوں کے خاتمے کا امکان تھا، لیکن صرف75 دنوں میں، یہ سب کچھ داؤ پر لگ گیا اور عالمی معاشی کساد بازاری میں اضافہ ہونے کے خطرات منڈلانے لگے ہیں ۔
ٹیرف عائد کرنے سے امریکی برآمدات میں25 فیصد کمی ہوسکتی ہے،کیونکہ کینیڈا،چین اور یورپی یونین نے جوابی ٹیرف لگائے ہیں۔ یوں امریکی کسانوں اورکاروباریوں کی آمدنی کم ہونے کے خدشات ظاہر ہورہے ہیں ۔ امریکی شہریوں میں عدم اطمینان بڑھا ہے۔ مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔یوں لوگوں کو معاشی پریشانیاں لاحق ہورہی ہیں ۔
امریکا کی معیشت دنیا سے کچھ حد تک الگ تھلگ ہے، کیونکہ وہ تجارت پر دوسرے ممالک جیسا انحصار نہیں کرتا، لیکن اس کے باوجود، یہ ٹیرف عالمی سپلائی چینز کو متاثر کریں گے۔ چین نے پہلے ہی 34 فیصد جوابی ٹیرف کا اعلان کیا ہے اور یورپی یونین اور برطانیہ بھی جواب دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نتیجہ لامحالہ ایک عالمی تجارتی جنگ ہوسکتا ہے، جو سب کے لیے نقصان دہ ہوگی ۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایک سنہری موقع ضایع کیا، اگر وہ ضابطوں کو ہلکا کرنے، ٹیکس کم کرنے، اور سرحدوں کو مضبوط کرنے پر توجہ دیتی، تو عوام کی حمایت اور معاشی ترقی دونوں مل سکتے تھے، لیکن اب، یہ سب غبارے کی طرح پھٹ گیا۔ ماہرین کے مطابق، اگر یہ ٹیرف برقرار رہے، تو 2025 میں امریکی معیشت کو ایک فیصد سے کم ترقی اور 4عشاریہ5 فیصد بے روزگاری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ امریکی عوام شاید مہنگی زندگی کے ساتھ گزارا کر لیں، لیکن سیاسی نتائج تیز اور سخت ہوں گے۔
امریکی اخبار کے مطابق صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ ٹیرف کے بعد ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن کی قیمت 10 فیصد کم ہوکر 78ہزار ڈالر سے نیچے آگئی ہے۔ یورپی اور ایشیائی مارکیٹس میں شدید مندی دیکھنے کو مل رہی اور پاکستان سمیت مختلف ممالک کی اسٹاک مارکیٹس نیچے گررہی ہیں۔ چند روز قبل وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد پریس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوابی محصولات عائد کرنے کے حوالے سے وہاں کی انتظامیہ سے بات چیت کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد واشنگٹن بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے شروع کی گئی اِس ’’ٹیرف وار‘‘ کے نتیجے میں چین اور کینیڈا کے علاوہ بعض دوسرے ممالک نے بھی امریکا پر جوابی ٹیرف عائد کر دیا اور اب اس تجارتی جنگ کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں، اِن کے انڈیکس ایک ایک دن میں کئی کئی فیصد گر رہے ہیں، امریکی صدر سے جب عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں بھونچال سے متعلق سوال کیا گیا تو اْن کا جواب تھا کہ وہ کچھ بھی گرانا نہیں چاہتے تاہم کبھی کبھار دوائی بھی لینی پڑتی ہے، جب تک وہ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ حل نہیں کر لیتے، ڈیل نہیں کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا چین کا ٹریڈ سرپلس ناپائیدار ہے، ٹیرف پر یورپی اور ایشیائی رہنماؤں سے بات ہوئی ہے۔ کینیڈا، میکسیکو اور چین سے اسٹرٹیجک درآمدات پر ٹیرف کو دوبارہ متعارف کرانے کا فیصلہ ایک وسیع حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے جس کا مقصد غیر ملکی حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ امریکا کے مطالبات کو تسلیم کریں۔ تجارتی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ ملکی صنعتوں کو مضبوط کرنے کا مقصد رکھتا ہے، مگر عالمی ردعمل شدید ترین رہا ہے۔
چین، جنوبی کوریا، اور جاپان کے درمیان حالیہ معاہدوں نے بھی اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ عالمی تجارتی تعلقات میں تبدیلی آ رہی ہے جس کا ردعمل امریکا کی ٹیرف پالیسیوں کے باعث ہوا ہے۔ ان تینوں ممالک نے تجارتی تعاون بڑھانے، مغربی منڈیوں پر انحصار کم کرنے اور ایشیا میں مزید اقتصادی یکجہتی پیدا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ سپلائی چینز کو بہتر بنانے، علاقائی سرمایہ کاری کی شرائط کو بہتر بنانے اور مشترکہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اقدامات پر مشتمل ہے۔ ان اقتصادی طاقتوں کا ہم آہنگ ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکا کی مارکیٹ پر انحصار بڑھتا ہوا خطرہ بنتا جا رہا ہے، اور یہ اقدام عالمی تجارتی نظام کو دوبارہ ترتیب دے سکتا ہے، جس سے اقتصادی مرکز کی کشش ایشیا کی طرف مزید بڑھ جائے گی۔
یورپی یونین نے طویل عرصے سے امریکا کو ایک اہم اقتصادی اور سیکیورٹی اتحادی سمجھا ہے، لیکن امریکی تجارتی پالیسی کی غیر متوقع نوعیت یورپی رہنماؤں کو متبادل حکمت عملیوں پر غور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ایشیائی مارکیٹوں کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات کے امکانات قوت پکڑ رہے ہیں، کیونکہ یورپی کمپنیاں بڑھتی ہوئی عالمی معیشت میں استحکام تلاش کر رہی ہیں۔
پاکستان کا براہِ راست امریکی تجارت سے تعلق اتنا گہرا نہیں جتنا کینیڈا یا چین کا ہے، لیکن عالمی منڈیوں میں ہونے والی یہ ہلچل پاکستان کو بالواسطہ طور پر متاثر کرسکتی ہے، اگر عالمی معاشی ترقی سست ہوئی تو پاکستانی برآمدات، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات کی مانگ کم ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور امریکی ڈالر کی مضبوطی پاکستان کے لیے درآمدات کو مہنگا کر سکتی ہے، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف، اگر چین اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرتا ہے تو پاکستان کو سستی چینی اشیا تک رسائی مل سکتی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ یہ خطرہ بھی ہے کہ چین اپنی پیداوار کو پاکستان جیسے ممالک میں منتقل کرے، جو مقامی صنعتوں کے لیے مقابلہ بڑھا سکتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی امریکا ہے۔ پاکستان پر لگنے والا نیا ٹیرف کافی زیادہ ہے تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ ٹیرف پورے ٹیرف لائن پر لگے گا یعنی امریکا جانے والی تمام اشیاء پر اس کا اطلاق ہوگا یا یہ کہ نیا ٹیرف بلند ترین سطح ہو گا۔ پاکستان کا امریکا سے آزادانہ تجارت کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ جس میں تجارتی رعایت حاصل ہوتی ہے، اس لیے نئے ٹیرف سے خدشہ ہے کہ پاکستان کی اشیاء مسابقتی نہیں رہیں گی۔ نئے ٹیرف میں انڈیا کو پاکستان پر برتری حاصل ہے تاہم بنگلہ دیش اور ویتنام کو نقصان ہوا ہے کہ ان پر پاکستان سے زیادہ ٹیرف لگا ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان دوسروں کے مقابلے میں مکمل طور پر نقصان میں ہے۔ البتہ ملک کی برآمدات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ٹیرف صرف ایک مذاکراتی حربہ ہیں اور ٹرمپ ان کے ذریعے دوسرے ممالک سے رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ تنازعہ جلد ختم ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عالمی معیشت بڑے تجارتی بحران کی طرف جا سکتی ہے، اس وقت عالمی منڈیاں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو اس صورتحال پر گہری نظر رکھنی ہوگی تاکہ وہ اپنی معیشت کو ممکنہ خطرات سے بچا سکیں۔ عالمی تجارتی تعلقات کا ازسر نو ڈھانچہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور ممالک امریکا کی پالیسی میں تبدیلیوں سے بچنے کے لیے نئے اتحادیوں کی تلاش کر رہے ہیں۔ متبادل تجارتی بلاکوں کا ابھرنا اور علاقائی اتحادوں کا مضبوط ہونا امریکا کے اثر و رسوخ کو طویل مدت میں کم کر سکتا ہے۔ ان تجارتی پالیسیوں کے جغرافیائی سیاسی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اقتصادی فیصلے عالمی طاقت کے توازن سے جڑے ہوتے ہیں۔ عالمی تجارتی تعلقات کا دوبارہ رخ نئی عالمی حکمرانی کو تشکیل دے رہا ہے، جہاں اقتصادی اتحاد سیاسی اثرورسوخ کے تعین میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔