انسان عظیم ہے خدایا
زندہ قومیں اپنے بڑے لوگوں کا احترام کرتی ہیں اور انھیں یاد...
انسان کی عظمت کے گیت گانے والے اس عہدساز ادیب اور شاعر کو ہم سے بچھڑے چھ برس ہو چلے ہیں جسے دنیا احمد ندیم قاسمی کے نام سے جانتی ہے۔ ذاتی طور پر قاسمی صاحب میرے لیے ایک ادبی گرو کی حیثیت رکھتے تھے کہ انھی کی انگلی پکڑ کر میں اس اقلیم سخن میں داخل ہوا تھا جو آج میری پہچان کا سب سے معتبر اور معروف حوالہ ہے اور یہ دست گیری کا کرم صرف مجھ تک ہی محدود نہیں ان کی عمر عزیز کے آخری تقریباً 50 برس تازہ واردان ادب کی صلاحیتوں کو پرکھنے اور انھیں اجالنے میں گزرے ہیں اور کم از کم میری معلومات کی حد تک پاکستان بننے کے بعد سرحد کے دونوں طرف کوئی ایسی شخصیت نہیں جس نے اپنے بعد آنے والے مسافران شعر و ادب کی اس قدر محبت، بے غرضی اور تسلسل سے رہنمائی کی ہو۔
قاسمی صاحب نے زندگی بھر نہ صرف مختلف اصناف ادب میں لکھا بلکہ ہر صنف ادب کے لیے سرمایہ افتخار بھی ٹھہرے کہ گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی سے لے کر اپنی وفات (10 جولائی 2006ء) تک نہ صرف انھوں نے لکھنے کا عمل جاری رکھا بلکہ ہر دور میں ان کا شمار نمایندہ شاعروں اور ادیبوں کی پہلی صف میں رہا اور اگر زمانی طوالت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ عرصہ تقریباً ساٹھ برس پر محیط ہے حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ان کی ان تین نسلوں پر پھیلی ہوئی ادبی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کے کچھ حاسدین نے ان کی عمر کے آخری حصے میں اپنے دلوں کا بغض اور غبار نکالنے کے لیے ان کی اس طویل العمری کو مختلف حوالوں سے نشانہ تنقید بنایا جب کہ مہذب ملکوں اور معاشروں میں ایسے بے مثال بزرگوں کے وجود کو اللہ کی رحمت اور برکت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ایک صاحب نے (جو اب خود اپنی عمر کی آٹھویں دہائی مکمل کرنے والے ہیں) تو حد ہی کر دی۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ان کے بڑھاپے کی منزلوں کو آسان کرے اور انھیں اس بات کا احساس کرنے کی توفیق دے کر اختلاف کرنے کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔
1940ء کی دہائی میں اردو کے ادیب اور شاعر ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے حوالے سے ''ادب برائے زندگی'' اور ''ادب برائے ادب'' کے نعرہ بردار دو واضح گروپوں میں تقسیم ہو رہے تھے۔ اگرچہ یہ تقسیم حقیقت سے زیادہ حالات، جذباتیت اور نعرہ بازی کی پیدا کردہ تھی لیکن اس کا اثر کم و بیش آیندہ تیس برس تک قائم رہا (اور ایک بدلی ہوئی صورت میں آج بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ بوجوہ آیندہ بھی رہے گا) قاسمی صاحب نے اگرچہ زندگی بھر اس مصنوعی تفریق کو دل سے قبول نہیں کیا مگر مختلف اوقات میں وہ اس سے کم یا زیادہ متاثر ضرور ہوئے اور چونکہ وہ ساری زندگی ادب کے میدان میں فعال اور متحرک رہے اس لیے اپنے بیشتر ہم عصروں کی نسبت انھیں دونوں طرف کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ نہ تو ترقی پسندی کو دین اور مذہب کے مخالف خیال کرتے تھے اور نہ ہی ایسے ادب کے قائل تھے جس میں معنی کا سرا قاری کے ہاتھ میں آنے کے بجائے لکھنے والے کی نفسیاتی الجھنوں اور لسانی تجربات کے درمیان اٹکتا اور الجھتا رہے سو انھوں نے جس زمانے میں ''انسان عظیم ہے خدایا'' جیسی نظمیں اور 'رئیس خانہ' جیسے افسانے لکھے انھی دنوں میں وہ حمدیں اور نعتیں بھی لکھتے رہے۔
ان کے افسانوں کا ذکر تو یہاں کالم کی تنگی داماں کے باعث ممکن نہیں لیکن ان کے چند شعر ضرور درج کیے جا سکتے ہیں جس سے ان کی وسیع النظری، گہری فکر، عظمت آدم کے احساس اور انسان اور معاشرے کی اندرونی قوت پر بے پناہ اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح قیام پاکستان اور فسادات کے فوری ردعمل سے لے کر جنگ میں لکھے گئے ترانوں اور بے مثال نظموں اور بعد کے دنوں میں قومی معاملات اور مسائل پر تجزیئے کے ساتھ ساتھ امید اور ایمان کے فروغ کا سلسلہ بھی ان کی شخصیت کی گہرائی، وسعت اور امید پرستی کا آئینہ دار ہے۔ وہ بھی اقبال کی طرح ماضی حال اور مستقبل کو ایک ہی زمانے کی رو سمجھتے تھے اور اس بات پر یقین محکم رکھتے تھے کہ ''اگر ہو جذبۂ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے۔'' آئیے ان کو یاد کرتے ہوئے ان کے چند مختلف ادوار میں کہے گئے اشعار دیکھتے ہیں۔
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جائوں غریب شہر نہیں
دشمن بھی جو آئے تو مری چھائوں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ، سر راہ گزر ہوں
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوںکہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسو ہے تو ٹپکا کیسے!
میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں
مرے ہمراہ دریا جا رہا ہے
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
ترے حالات نے کیسی تری صورت کر دی!
کوئی کوہکن ہو کہ قیس ہو کوئی میر ہو کہ ندیم ہو
سبھی نام ایک ہی شخص کے، سبھی پھول ایک ہی ڈال کے
زندہ قومیں اپنے بڑے لوگوں کا احترام بھی کرتی رہیں اور انھیں یاد رکھنے کے لیے ان کے نام سے مختلف یادگاروں کو بھی محفوظ کر لیتی ہیں۔ آج کے دور میں اس کا ایک طریقہ شہروں کی سڑکوں کو مشاہیر کے نام سے منسوب کرنا بھی ہے۔ حکومت پاکستان نے دو برس قبل ان کی چوتھی برسی کے موقع پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرأ کیا تھا جو ایک انتہائی مستحسن اقدام ہے' یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ان کے گائوں انگہ (ضلع خوشاب) میں لڑکیوں کا ایک اسکول، صادق ایجرٹن کالج، بہاولپور (جہاں سے انھوں نے بی اے کیا تھا) کی لائبریری اور لاہور، سرگودھا اور اسلام آباد میں سڑکوں کو ان کے نام سے منسوب کرنے کے منصوبے بھی تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ ان کا جاری کردہ رسالہ ''فنون'' بھی اب ان کی شاعرہ بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے پھر سے شایع کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ سب باتیں ہمیں اقبال کے اس خوبصورت شعر کی یاد دلا رہی ہیں جس پر میں قاسمی صاحب کی ہمیشہ زندہ رہنے والی یاد کے اس پڑائو پر رکتا ہوں کہ
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
قاسمی صاحب نے زندگی بھر نہ صرف مختلف اصناف ادب میں لکھا بلکہ ہر صنف ادب کے لیے سرمایہ افتخار بھی ٹھہرے کہ گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی سے لے کر اپنی وفات (10 جولائی 2006ء) تک نہ صرف انھوں نے لکھنے کا عمل جاری رکھا بلکہ ہر دور میں ان کا شمار نمایندہ شاعروں اور ادیبوں کی پہلی صف میں رہا اور اگر زمانی طوالت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ عرصہ تقریباً ساٹھ برس پر محیط ہے حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ان کی ان تین نسلوں پر پھیلی ہوئی ادبی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کے کچھ حاسدین نے ان کی عمر کے آخری حصے میں اپنے دلوں کا بغض اور غبار نکالنے کے لیے ان کی اس طویل العمری کو مختلف حوالوں سے نشانہ تنقید بنایا جب کہ مہذب ملکوں اور معاشروں میں ایسے بے مثال بزرگوں کے وجود کو اللہ کی رحمت اور برکت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ایک صاحب نے (جو اب خود اپنی عمر کی آٹھویں دہائی مکمل کرنے والے ہیں) تو حد ہی کر دی۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ان کے بڑھاپے کی منزلوں کو آسان کرے اور انھیں اس بات کا احساس کرنے کی توفیق دے کر اختلاف کرنے کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔
1940ء کی دہائی میں اردو کے ادیب اور شاعر ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے حوالے سے ''ادب برائے زندگی'' اور ''ادب برائے ادب'' کے نعرہ بردار دو واضح گروپوں میں تقسیم ہو رہے تھے۔ اگرچہ یہ تقسیم حقیقت سے زیادہ حالات، جذباتیت اور نعرہ بازی کی پیدا کردہ تھی لیکن اس کا اثر کم و بیش آیندہ تیس برس تک قائم رہا (اور ایک بدلی ہوئی صورت میں آج بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ بوجوہ آیندہ بھی رہے گا) قاسمی صاحب نے اگرچہ زندگی بھر اس مصنوعی تفریق کو دل سے قبول نہیں کیا مگر مختلف اوقات میں وہ اس سے کم یا زیادہ متاثر ضرور ہوئے اور چونکہ وہ ساری زندگی ادب کے میدان میں فعال اور متحرک رہے اس لیے اپنے بیشتر ہم عصروں کی نسبت انھیں دونوں طرف کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ نہ تو ترقی پسندی کو دین اور مذہب کے مخالف خیال کرتے تھے اور نہ ہی ایسے ادب کے قائل تھے جس میں معنی کا سرا قاری کے ہاتھ میں آنے کے بجائے لکھنے والے کی نفسیاتی الجھنوں اور لسانی تجربات کے درمیان اٹکتا اور الجھتا رہے سو انھوں نے جس زمانے میں ''انسان عظیم ہے خدایا'' جیسی نظمیں اور 'رئیس خانہ' جیسے افسانے لکھے انھی دنوں میں وہ حمدیں اور نعتیں بھی لکھتے رہے۔
ان کے افسانوں کا ذکر تو یہاں کالم کی تنگی داماں کے باعث ممکن نہیں لیکن ان کے چند شعر ضرور درج کیے جا سکتے ہیں جس سے ان کی وسیع النظری، گہری فکر، عظمت آدم کے احساس اور انسان اور معاشرے کی اندرونی قوت پر بے پناہ اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح قیام پاکستان اور فسادات کے فوری ردعمل سے لے کر جنگ میں لکھے گئے ترانوں اور بے مثال نظموں اور بعد کے دنوں میں قومی معاملات اور مسائل پر تجزیئے کے ساتھ ساتھ امید اور ایمان کے فروغ کا سلسلہ بھی ان کی شخصیت کی گہرائی، وسعت اور امید پرستی کا آئینہ دار ہے۔ وہ بھی اقبال کی طرح ماضی حال اور مستقبل کو ایک ہی زمانے کی رو سمجھتے تھے اور اس بات پر یقین محکم رکھتے تھے کہ ''اگر ہو جذبۂ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے۔'' آئیے ان کو یاد کرتے ہوئے ان کے چند مختلف ادوار میں کہے گئے اشعار دیکھتے ہیں۔
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جائوں غریب شہر نہیں
دشمن بھی جو آئے تو مری چھائوں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ، سر راہ گزر ہوں
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوںکہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسو ہے تو ٹپکا کیسے!
میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں
مرے ہمراہ دریا جا رہا ہے
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
ترے حالات نے کیسی تری صورت کر دی!
کوئی کوہکن ہو کہ قیس ہو کوئی میر ہو کہ ندیم ہو
سبھی نام ایک ہی شخص کے، سبھی پھول ایک ہی ڈال کے
زندہ قومیں اپنے بڑے لوگوں کا احترام بھی کرتی رہیں اور انھیں یاد رکھنے کے لیے ان کے نام سے مختلف یادگاروں کو بھی محفوظ کر لیتی ہیں۔ آج کے دور میں اس کا ایک طریقہ شہروں کی سڑکوں کو مشاہیر کے نام سے منسوب کرنا بھی ہے۔ حکومت پاکستان نے دو برس قبل ان کی چوتھی برسی کے موقع پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرأ کیا تھا جو ایک انتہائی مستحسن اقدام ہے' یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ان کے گائوں انگہ (ضلع خوشاب) میں لڑکیوں کا ایک اسکول، صادق ایجرٹن کالج، بہاولپور (جہاں سے انھوں نے بی اے کیا تھا) کی لائبریری اور لاہور، سرگودھا اور اسلام آباد میں سڑکوں کو ان کے نام سے منسوب کرنے کے منصوبے بھی تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ ان کا جاری کردہ رسالہ ''فنون'' بھی اب ان کی شاعرہ بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے پھر سے شایع کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ سب باتیں ہمیں اقبال کے اس خوبصورت شعر کی یاد دلا رہی ہیں جس پر میں قاسمی صاحب کی ہمیشہ زندہ رہنے والی یاد کے اس پڑائو پر رکتا ہوں کہ
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں