اداروں میں سیاست

سیاست ہر اس جگہ ہوتی ہے جہاں انسان رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں


سہیل یعقوب April 09, 2025

کیا اداروں میں سیاست ہوتی ہے؟ سیاست ہر اس جگہ ہوتی ہے جہاں انسان رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں اور ادارے اس سے مستثنٰی نہیں ہے۔ حالانکہ اداروں میں کام کرنے والے تمام لوگوں کےلیے انسان کا لفظ استعمال کرنا بھی مبالغہ آرائی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی شخص نوکری کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات (انٹرویو) میں یہ کہے کہ اسے پچھلی نوکری محض اس لیے چھوڑنی پڑی تھی کہ وہ سیاست کا شکار ہوگیا تھا تو اس کا یہ جواب کسی بھی طور پر مثبت انداز میں نہیں لیا جائے گا، چاہے ملاقات کرنے والے خود بھی دفتری سیاست کا شکار کیوں نہ ہوئے ہوں۔

اعلیٰ انتظامی عہدوں پر پہنچنے والے عموماً اپنی نوکری کے ابتدائی دور میں سیاست کا شکار ہوئے ہوتے ہیں اور پھر باقی عمر وہ خود لوگوں کا شکار کھیلتے ہیں۔ جواب دینے والے کا یہ جواب کہ وہ سیاست کا شکار ہوا کیوں مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ دفتری سیاست میں آپ ہمیشہ حزب اقتدار کے ساتھ رہے گے اور دفاتر میں حزب اختلاف کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا چاہے معاملہ یا وجہ اصولی، مالی، تہذیبی، یا اخلاقی ہی کیوں نہ ہو۔

آج کل کاروباری دنیا میں نوکری کے کیا حال ہے؟ اس کو سمجھنے کےلیے کسی اجیر کا یہ جواب کافی ہے جو انھوں نے اپنے آجر کی شان میں دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں حاجی رجاق بھائی یعنی آجر کا نوکر نہیں بلکہ ’’چاکر‘‘ ہوں۔ اب جن لوگوں کو نوکر اور چاکر کا فرق معلوم نہ ہو تو انھیں یہ فرق جناب مختار مسعود کی کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں صفحہ نمبر اٹھاون پر مل جائے گا۔

ویسے اس وقت پورے ملک میں نوکری کا یہی حال ہے اور اس میں نجی اور سرکاری اداروں میں کوئی خاص تفریق نہیں ہے۔ پہلے یہ صرف سرکاری اداروں میں ہوتا تھا کہ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ کیا کہا جارہا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ کون کہہ رہا ہے۔ اگر اپنا آدمی کہہ رہا ہے تو غلط بھی صحیح ہے اور اگر دوسری پارٹی کا آدمی کہہ رہا ہے تو پہلی پارٹی پر لازم ہے کہ اس کی درست بات کو بھی غلط قرار دے اور اس کی پوری قوت سے مخالفت کرے، چاہے اس میں ملک کا دیوالیہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ یہ جھوٹ ہے کہ اداروں کو قابل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اداروں کی قیادت کو ’’صرف‘‘ مقلدین کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ باقی سب خطرہ ہوتے ہیں۔ 

میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ حصہ نجی اداروں میں گزارا ہے اور کچھ حصہ ایسے اداروں میں بھی کام کیا ہے جہاں ریاست کے حصص اکثریت میں تھے۔ نجی اداروں میں تو مزاج نہ ملنے پر ’’سیٹھ‘‘ جنبش ابرو سے ملازم کو ملازمت سے فارغ کر دیتا ہے کیونکہ نجی اداروں میں قابلیت سے زیادہ وفاداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھی ایسی وفاداری کہ جس کےلیے پطرس کو ایک پورا مضمون لکھنا پڑا تھا، ہرچند کہ وہ اس جاندار کی وفاداری پر نہ تھا۔ جبکہ سرکاری اداروں میں ایسے ملازمین سے نمٹنے کا مجرب نسخہ ’’افسر بکار خاص‘‘ بنایا جانا ہوتا ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ کردار ادارے کے دیگر ملازمین کا ہوتا ہے کہ جو بیک وقت افسر بکار خاص بنائے جانے والے افسر سے ہمدردی کرتے ہیں اور نئے آنے والے افسر کو باور کرواتے ہیں کہ پہلی دفعہ انتظامیہ نے کوئی فیصلہ میرٹ پر کیا ہے اور اس عہدے پر ان سے بہتر تقرر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ غلط کو غلط کہہ سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں چناؤ سفارش کی جنگ ہوتی ہے اور جو یہ جنگ جیت جائے اس چناؤ کو میرٹ پر چناؤ یا شفافیت کہا جاتا ہے۔

میں نے تمام زندگی وفاداری کے مقابلے میں ایمانداری سے نوکری کرنے کو ترجیح دی اور عمر بھر اس کا پرچار بھی کیا لیکن آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں نے خود تو اپنے مستقبل سے جو کہ اب ماضی ہوچکا ہے، کھلواڑ ہی کیا بلکہ اوروں کو بھی غلط ہی نصیحت کی، حالانکہ یہ غلطی دانستہ نہیں کی تھی بلکہ اپنی طرف سے تو صحیح نصیحت کی کوشش تھی، بس ملک کی صورتحال کو پیش نظر رکھنا بھول گیا تھا۔ یہ ملک ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے من و رنجن کےلیے بنا ہے۔ یقین نہ آئے تو کرکٹ ٹیم سے لے کر کوئی بھی ٹیم دیکھ لیجئے، آپ کو وہ ٹیم بھانجے، بھتیجے، داماد اور بیٹوں پر مشتمل نظر آئے گی اور ٹیم میں داخلے کےلیے ہم میرٹ کے اشتہار سے اخبار بھر دیں گے۔

آخر میں ایک کہانی اور اختتام۔ یہ کہانی بھی باتصویر سماجی ذرائع ابلاغ پر دیکھی اور پڑھی تھی۔ ایک نوکری کےلیے آخر میں دو امیدوار رہ گئے تھے اور ادارے کا دعوٰی ہے کہ وہ اپنے ادارے میں انتخاب شفاف طریقے سے کرتے ہیں۔ دونوں امیدواروں کو ایک تصویر دکھائی جاتی ہے۔ تصویر میں سیکڑوں گاجریں زمین پر پڑی ہوتی ہیں۔ پہلے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ تصویر میں کون سی سبزی دکھائی گئی ہے؟ اور دوسرے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کتنی گاجریں ہیں؟ آپ جیسا کہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ادارے کا ریکارڈ کسی بھی داغ سے محفوظ رہتا ہے کہ وہاں صرف میرٹ پر ہی انتخاب ہوتا ہے۔ اس کہانی کی ایک سے زیادہ اداروں سے مماثلت محض اتفاقی ہے اور اس کو سنجیدہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں