
تاج حیدر رخصت ہوئے تو مجھے 2005 کے زلزلے کی یاد آئی۔ زلزلہ تو آزاد کشمیر میں آیا تھا یا پھر خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں لیکن اس کے جھٹکے ہر پاکستانی نے محسوس کیے اور وہ جھرجھری لے کر اٹھ کھڑا ہوا تب دنیا پر پاکستان میں بسنے والوں کے جوہر کھلے۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے، ناصرہ زبیری نے مجھ سے کہا کہ فاروق! ایک مختلف نوعیت کا پروگرام کرنا ہے۔ کوئی آئیڈیا سوچو!
' ذمے داری کا احساس جگانے کے لیے کیا جھٹکا ضروری ہے؟'
میرے ذہن میں اس سے ملتا جلتا کوئی عنوان آیا جسے ناصرہ نے پسند کیا۔ موضوع کا تعین ہو گیا تو سوال پیدا ہوا کہ ایسا کون ہے جو اس موضوع پر بات کر سکے؟ ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام پر تو فورا اتفاق ہو گیا کہ پاکستانی کلچر کے موضوع پر اسی نام سے ان کی ایک کتاب میرے مطالعے میں رہی تھی۔ دوسرا کون ہو؟ اس سوال نے عجیب طرح کی پریشانی پیدا کر دی۔ دوسرا نام جو ذہن میں آیا، اسے دوسرے نمبر پر نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ بھلا پروفیسر کرار حسین بھی دوسرے نمبر پر ہو سکتے ہیں؟ میں نے اپنی سرزنش خود ہی کی۔ پروفیسر صاحب اب ہمارے درمیان نہیں تھے۔ اس لیے پہلے اور دوسرے نمبر کی الجھن نہیں تھی لیکن ان کے نام کی برکت سے ایک اچھا نام ذہن میں آ گیا۔ یہ تاج حیدر تھے۔ میں نے بات کی تو بلا تردد آمادہ ہو گئے اور سوال کیا کہ پروگرام اور کون ہو گا؟ میں نے ڈاکٹر جمیل جالبی کا بتایا تو خوش ہوئے اور کہا کہ یہ خوب انتخاب ہے، ان کی مدد سے تو میں نے میر ( میر تقی میر)کو پڑھا اور سمجھا۔
تاج حیدر وقت سے پہلے ہی آج ٹی وی پہنچ گئے۔ میں نے خوشی اور حیرت کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا لیکن بے دھیانی میں میری زبان سے کہیں یہ بھی نکل گیا کہ ابھی تو پروگرام میں کافی دیر ہے۔ تاج حیدر یہ بات سن کر مسکرائے اور کہنے لگے کہ میری خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر جمیل جالبی سے پہلے پہنچ جاؤں۔ اب میں تمھارے ساتھ ان کا خیر مقدم کروں گا۔ سیاسی کارکن وضع دار بھی ہوتے ہیں، اس خیال نے مجھے آسودہ کیا۔ کچھ باتیں ہوتی ہیں جن کی سمجھ آن واحد میں آ جاتی ہے اور کچھ قطرہ قطرہ اپنا بھید کھولتی ہیں۔ تاج حیدر کی یہ بات ایسی ہی تھی۔ ہمارے یہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں اچھے لوگ نہیں آتے۔ لوگ یہ بات سنتے ہیں اور خاموشی اختیار کر کے اس پروپیگنڈے پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں لیکن میرے سامنے تاج حیدر کا مسکراتا ہوا چہرہ آ جاتا ہے۔
تاج حیدر کراچی والے تھے لیکن پیپلز پارٹی میں تھے۔ ہمارے سندھ کے دوست ہوں یا خیبر پختونخوا والے، کہیں اکٹھے ہو جائیں تو اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔ ایک بار ہم نثار کھوڑو کے چیمبر میں بیٹھے تھے۔ وہ ان دنوں سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہوا کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چند ارکان صوبائی اسمبلی، دو ایک صحافی اور تاج حیدر صاحب بھی موجود تھے۔ جانے کیا موضوع تھا کہ تند و تیز بحث شروع ہو گئی اور وہ بھی شدھ سندھی زبان میں۔ وہ لوگ دیر تک جوش و خروش سے باتیں کرتے رہے۔ تاج حیدر اس ہنگامے سے لا تعلق سرجھکائے بیٹھے تھے کہ کسی کو ان کا خیال آ گیا اور اس نے محجوب سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے رویے پر معذرت کی تو تاج حیدر اسی طرح سر جھکائے جھکائے مسکرائے اور کہا کہ میں سندھی زبان سمجھتا ہوں۔
اس واقعے نے میرے ایک تاثر کی تصدیق کی کہ سندھ کی حد تک پیپلز پارٹی فی الاصل یک لسانی جماعت ہے جس میں اردو بولنے والے اجنبی ہیں۔ کوئی اور بھی یہ واقعہ دیکھتا تو یہی سوچتا۔ یہ واقعہ میری یاداشت کا مستقل حصہ بن گیا اور جب بھی تاج حیدر کا ذکر ہوا، اس واقعے کی یاد تازہ ہو گئی لیکن اس کے ساتھ ہی میرے چند واہموں کا ازالہ بھی ہوا۔
پاکستان پیپلز پارٹی بلاشبہ ایک قومی جماعت ہے لیکن دیہی سندھ تک پہنچتے پہنچتے اس کے مزاج کی کیفیت داخلی ہو جاتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی، سندھی شناخت کے ضمن میں تاریخی رجحانات، بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والی حساسیت اور سندھ کے قوم پرستوں کے انتہا پسندانہ رویوں کا دباؤ۔ ان تمام عوامل نے مل کر پیپلز پارٹی سندھ کے مزاج میں داخلی کیفیت یا ایک قسم کی شدت پیدا کر دی ہے جس کے اثرات سندھ میں حکومت کی سطح پراور اس کی پالیسیوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی صورت حال ہے جس نے سندھ میں دیہی اور شہری آبادی کے درمیان خلیج گہری کر دی ہے۔ بے گانگی کی یہی کیفیت ہے جس کی وجہ سے سندھ میں بار بار پرتشدد فسادات ہوئے اور پیپلز پارٹی شہری سندھ میں سکڑتی چلی گئی۔ اس ہنگامے میں اردو بولنے والے بہت سے سیاسی کارکن پیپلز پارٹی کو داغ مفارقت دے گئے۔ کچھ الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ کو پیارے ہو گئے اور کچھ خاموشی سے گھر جا بیٹھے لیکن اس کے باوجود تاج حیدر جو چاروں کھونٹ اردو بولنے والے تھے، پیپلز پارٹی میں ڈٹے رہے۔
نوے کی دہائی میں جب شہری اور دیہی سندھ کے درمیان کشمکش سیاست کے دائرے سے نکل کر تشدد اور خون ریزی کی حدود میں داخل ہو چکی تھی، یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کی وجہ سے وہ اپنی برادری یعنی اردو بولنے والوں میں ہدف تنقید بھی بنے لیکن ان کے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ یہ کچھ ایسی صورت حال ہی تھی جیسے چند برس پہلے قومی سطح پر بھی دیکھنے میں آئی یعنی نوجوان اولادیں عمران خان کی چمک دمک سے متاثر ہو کر پی ٹی آئی کا دست و بازو بن گئیں تو بزرگوں کو بھی مجبورا اپنی وفاداری بدلنی پڑی۔ ایسے تند و تیز ماحول میں تاج حیدر کی سیاسی وفاداری معنویت رکھتی ہے۔
اردو بولنے والے دیگر لوگوں کی طرح اگر وہ بھی پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہو جاتے تو سندھ میں پارٹی کا توازن بگڑ جاتا۔ اس جماعت پر علاقائیت کا نقش گہرا ہو جاتا اور اس کی پالیسیوں سے ناراضی اور شکایات اس سے بھی پڑھ جاتیں جتنی اب ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاج حیدر کی اور ان جیسے اردو بولنے والے دیگر راہ نماؤں کی سیاسی بصیرت نے پیپلز پارٹی کو لسانی جماعت بننے سے بچایا اور سندھ کی لسانی تقسیم کے پس منظر اس کی پالیسیوں کو متوازن رکھنے میں مدد دی۔
سیاست دانوں کوبڑی آسانی کے ساتھ موقع پرست کہہ دیا جاتا ہے لیکن تاج حیدر کی مستقل مزاجی بتاتی ہے کہ ان ہی معتوب سیاست دانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے نزدیک مفادات نہیں نظریات اہم ہوتے ہیں۔ ستر کی دہائی میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ تاج حیدر بھی ان میں سے ایک تھے لیکن بائیں بازو کے دیگر لوگوں اور تاج حیدر میں ایک فرق تھا۔ بائیں بازو کے بہت سے بڑے نام بعد میں جو اس سے علیحدہ ہوئے، سمجھتے تھے کہ وہ مقبولیت کی لہر پر سوار بھٹو کو
تابع مہمل بنا کر اپنے نظریاتی مقاصد حاصل کر لیں گے۔ یہ وہی لوگ تھے جو بعد میں بھٹو صاحب کے عتاب کا شکار ہوئے۔ ان کے مقابلے میں تاج حیدر کا رویہ مختلف تھا۔ وہ دھوکے سے بھٹو صاحب کو استعمال کرنے کی چالاکی پر یقین رکھنے کے بہ جائے جمہوری رویہ رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جو تبدیلی آئے، جائز اور جمہوری عمل کے ذریعے آئے۔
کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بار ایئرپورٹ پر تاج حیدر سے ملاقات ہو گئی۔ ان دنوں میں شخصی خاکوں پر مشتمل اپنی پہلی کتاب ' جو صورت نظر آئی' پر کام کر رہا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا خاکہ میں لکھ تو چکا تھا لیکن کچھ پہلو تشنہ تھے۔ میرے دعا سلام پر انھیں پرانی ملاقاتیں یاد آگئیں۔ شفقت سے ملے۔ بے نظیر بھٹو کے بارے میں سوال پر وہ تھوڑے اداس ہو گئے پھر انھوں نے ایک واقعہ سنایا۔ بتایا کہ نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کسی طوفانی دورے کے بعد کراچی پہنچیں تو جو لوگ انھیں بلاول ہاس تک پہنچانے گئے، ان میں ایک وہ بھی تھے۔ بے نظیر بھٹو کے بچے ابھی چھوٹے تھے اور دبئی میں تھے۔ انھوں نے بتایا:
' بی بی جب گھر کے اندر داخل ہو گئیں تو ایک خیال مجھ پر بجلی کے کوندے کی طرح گرا۔ میں نے سوچا کہ ابھی گھر لوٹوں گا تو بیوی بچے میرے ارد گرد ہوں گے، ساری تھکن اتر جائے گی لیکن عین اسی وقت بی بی کے ساتھ کون ہو گا؟ سارے زمانے کے ساتھ لڑنے والی یہ لڑکی کتنی تنہا ہے۔ اس خیال نے مجھے دکھی کر دیا۔'
یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی۔ نہیں معلوم ایسا حساس، دردمند، غور و فکر کرنے والا اور وفادار شخص ہماری سیاست کو پھر کبھی ملے گا یا نہیں؟
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔