
سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔
آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
دورانِ سماعت وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب میں دلائل دیے۔ خواجہ حارث کل بھی اپنا جواب الجواب جاری رکھیں گے۔
آج ہونے والی سماعت میں جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس میں سزاؤں کیخلاف پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس وقار سیٹھ نے فیصلہ دیا، جس کے خلاف بہت تنقید ہوئی ۔ بعد میں عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کیس میں وقار سیٹھ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس وقار سیٹھ کو بتایا گیا کہ ان کے فیصلے کا حوالہ عالمی عدالت انصاف میں دیا جا رہا ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ نے وہ عدالتی کارروائی براہ راست ٹی وی پر دیکھی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میرا ایک ہی سوال ہے جو بار بار پوچھ رہا ہوں۔ ملٹری کورٹس میں کارروائی کیسے چلائی جاتی ہے۔
خواجہ حارث نے بتایا کہ کورٹ آف انکوائری کا پورا طریقہ کار موجود ہے۔ کورٹ آف انکوائری کے ذریعے تفتیش کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ آرمی ایکٹ میں ایف آئی آر کی کوئی شق نہیں ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت کل جمعرات کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔