پاکستان ایک نظر میں جے اور ویرو
اسے پاکستان کی بہت سی جیلیں چھاننی ہونگی جہاں اسے " جے" اور " ویرو" ملیں گے اور ساتھ انصاف بھی۔
کیا سمجھ کر آئے تھے کہ سردار بہت خوش ہو گا۔ شاباشی دے گا۔
ارے او سانبھا کتنے آدمی تھے۔ بہت یارانہ لگتا ہے۔ تیرا کیا ہوگا کالیا۔
سردار میں نے آپ کا نمک کھایاہے۔اب گولی کھا۔ کھوٹا سکہ تو دونوں طرف سے کھوٹا ہوتا ہے.
یہ "ویرو "ہے اور یہ" جے"۔ یاد ہے جب ہم دو دن کے لیے دولت پور تھانے میں بند ہوئے تھے۔تھانیدار صاحب یہی تو تھے ۔
مجھے تو سب پولیس والوں کی شکلیں ایک سی لگتی ہیں۔ وہ بدمعاش ہیں لیکن بہادر ہیں۔ خطرناک ہیں اسی لئے لڑنا جانتے ہیں۔ برے ہیں مگر انسان ہیں۔
بسنتی تمہارا نام کیا ہے؟۔ چل دھنو بھاگ۔ کیونکہ مجھے بے فجول بات کرنے کی عادت تو ہے نہیں۔
ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر۔ یہ ہاتھ نہیں پھانسی کا پھندہ ہیں۔ یہ ہاتھ ہمکو دے دے ٹھاکر۔ جو ڈر گیا سمجھو مرگیا۔
تم گبھر سنگھ کو نہیں مارو گے،تم یہاں اسے پکڑنے میرے حوالے کرنے آئے ہو زندہ۔
1975 میں بننے والی شعلے فلم ایک ایسا شاہکار ہے جس کا عکس اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اسی طرح قائم ہے یہ آج بھی دیکھیں تو اس فلم پر فلم ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔اس میں بے شمار سبق ہیں،اس کی ایک خوبصورتی تو اس کے چھوٹے چھوٹے ڈائیلاگز ہیں جو زندگی کے فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔معاشرے کے تمام کردار اس میں اکٹھے دکھائی دیتے ہیں بلکہ ہر طبقہ اس میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔مجھے اس کا ایک ایک کردار بہت متاثر کرتا ہے۔آج بھی میں جب دونوں ہاتھوں سے معذور کسی انسان کو دیکھتا ہوں تو ایک دم سے " ٹھاکر" کا کردار چھلانگ لگا کر میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور میں خوف سے آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ مگر اس اندھیرے میں بھی وہ مناظر چل رہے ہوتے ہیں جب کسی گبھر سنگھ نے اس سے اس کے ہاتھ چھینے ہونگے۔
ہم سب حقائق سے دور بھاگتے ہیں۔ہر سچ کچھ دن تک ہی ہم پر اپنا اثر رکھتا ہے۔کچھ روز قبل مجھے پھر سے اپنی آنکھیں بند کر کے اس منظر کی تکلیف کو برداشت کرنا پڑاجب گجرات کے 10 سالہ تبسم کو میں نے مقامی اسپتال میں لیٹے دیکھا،اس نے جب ہمارے وزیر اعلیٰ کو دیکھا مگر چیخ چیخ کر اپنے بے گناہ ہونے کا احساس نہیں دلایا۔ ایک دس لاکھ کا چیک اور علاج و تعلیم کے اخراجات کے علاوہ حکومت پنجاب نے تبسم نے فوری انصاف کا تقاضا بھی کیا۔
یہ الفاظ کہ بچے کے ساتھ ظلم کرنے والا دھرتی کا ناسور ہے، کاش بازو واپس دلا سکتا۔ان کی اس سچائی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی بے بسی کو بھی میں نے اپنے اندر محسوس کیا جیسے وہ اس کا فوری انصاف چاہتے ہیں مگرکچھ ایسا ہے جو انہیں وہ نہیں کرنے دے رہا جو وہ اس معصوم بیگناہ کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو دونوں ہاتھوں سے سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے انصاف کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ڈی ایس پی،اے ایس پی،اور ایم ایس کو مطل کر دیا اور معافی مانگنے پر ڈی پی او کی معطلی کے احکامات واپس لے لئے۔ مگر جب مجرم گرفتار تھا تو اس کو موقعہ پر عدالت لگا کر سزا کیوں نہیں سنائی؟ ہمارا نظام موقعے پر کسی بھی مجرم کو سزا سنانے سے کیوں قاصر ہے؟ ہم نے اس مجرم کو صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ قانون کے مطابق انصاف ہو؟مگر چند روز میں یہی زمیندار غلام مصطفی ہماری عدالتوں سے عارضی ضمانت نامہ تھامے اسی گاؤں میں دندناتا ہوا پھر رہا ہوگا اور یہی افسران جو آج معطل ہوئے ہیں آنے والے دنوں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہنس رہے ہونگے۔
مجھے کسی بھی جگہ تبسم کی آنکھ میں کوئی سوال نہیں دکھائی دیا جو اس نے ہم سے ، ہمارے اداروں سے یا ہمارے اس بیمار معاشرے سے کیا ہو،اس کے چہرے پر ایک طرف دکھ ہے اذیت ہے تو دوسرے طرف ایک امید اور ایک یقین کہ جیسے ہی وہ ٹھیک ہوگا سب سے پہلے اپنا سفر گجرات کی جیل سے ہی شروع کرے گا۔ اسے پاکستان کی بہت سی جیلیں چھاننی ہونگی جہاں اسے " جے" اور " ویرو" ملیں گے اور ساتھ انصاف بھی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ارے او سانبھا کتنے آدمی تھے۔ بہت یارانہ لگتا ہے۔ تیرا کیا ہوگا کالیا۔
سردار میں نے آپ کا نمک کھایاہے۔اب گولی کھا۔ کھوٹا سکہ تو دونوں طرف سے کھوٹا ہوتا ہے.
یہ "ویرو "ہے اور یہ" جے"۔ یاد ہے جب ہم دو دن کے لیے دولت پور تھانے میں بند ہوئے تھے۔تھانیدار صاحب یہی تو تھے ۔
مجھے تو سب پولیس والوں کی شکلیں ایک سی لگتی ہیں۔ وہ بدمعاش ہیں لیکن بہادر ہیں۔ خطرناک ہیں اسی لئے لڑنا جانتے ہیں۔ برے ہیں مگر انسان ہیں۔
بسنتی تمہارا نام کیا ہے؟۔ چل دھنو بھاگ۔ کیونکہ مجھے بے فجول بات کرنے کی عادت تو ہے نہیں۔
ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر۔ یہ ہاتھ نہیں پھانسی کا پھندہ ہیں۔ یہ ہاتھ ہمکو دے دے ٹھاکر۔ جو ڈر گیا سمجھو مرگیا۔
تم گبھر سنگھ کو نہیں مارو گے،تم یہاں اسے پکڑنے میرے حوالے کرنے آئے ہو زندہ۔
1975 میں بننے والی شعلے فلم ایک ایسا شاہکار ہے جس کا عکس اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اسی طرح قائم ہے یہ آج بھی دیکھیں تو اس فلم پر فلم ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔اس میں بے شمار سبق ہیں،اس کی ایک خوبصورتی تو اس کے چھوٹے چھوٹے ڈائیلاگز ہیں جو زندگی کے فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔معاشرے کے تمام کردار اس میں اکٹھے دکھائی دیتے ہیں بلکہ ہر طبقہ اس میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔مجھے اس کا ایک ایک کردار بہت متاثر کرتا ہے۔آج بھی میں جب دونوں ہاتھوں سے معذور کسی انسان کو دیکھتا ہوں تو ایک دم سے " ٹھاکر" کا کردار چھلانگ لگا کر میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور میں خوف سے آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ مگر اس اندھیرے میں بھی وہ مناظر چل رہے ہوتے ہیں جب کسی گبھر سنگھ نے اس سے اس کے ہاتھ چھینے ہونگے۔
ہم سب حقائق سے دور بھاگتے ہیں۔ہر سچ کچھ دن تک ہی ہم پر اپنا اثر رکھتا ہے۔کچھ روز قبل مجھے پھر سے اپنی آنکھیں بند کر کے اس منظر کی تکلیف کو برداشت کرنا پڑاجب گجرات کے 10 سالہ تبسم کو میں نے مقامی اسپتال میں لیٹے دیکھا،اس نے جب ہمارے وزیر اعلیٰ کو دیکھا مگر چیخ چیخ کر اپنے بے گناہ ہونے کا احساس نہیں دلایا۔ ایک دس لاکھ کا چیک اور علاج و تعلیم کے اخراجات کے علاوہ حکومت پنجاب نے تبسم نے فوری انصاف کا تقاضا بھی کیا۔
یہ الفاظ کہ بچے کے ساتھ ظلم کرنے والا دھرتی کا ناسور ہے، کاش بازو واپس دلا سکتا۔ان کی اس سچائی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی بے بسی کو بھی میں نے اپنے اندر محسوس کیا جیسے وہ اس کا فوری انصاف چاہتے ہیں مگرکچھ ایسا ہے جو انہیں وہ نہیں کرنے دے رہا جو وہ اس معصوم بیگناہ کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو دونوں ہاتھوں سے سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے انصاف کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ڈی ایس پی،اے ایس پی،اور ایم ایس کو مطل کر دیا اور معافی مانگنے پر ڈی پی او کی معطلی کے احکامات واپس لے لئے۔ مگر جب مجرم گرفتار تھا تو اس کو موقعہ پر عدالت لگا کر سزا کیوں نہیں سنائی؟ ہمارا نظام موقعے پر کسی بھی مجرم کو سزا سنانے سے کیوں قاصر ہے؟ ہم نے اس مجرم کو صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ قانون کے مطابق انصاف ہو؟مگر چند روز میں یہی زمیندار غلام مصطفی ہماری عدالتوں سے عارضی ضمانت نامہ تھامے اسی گاؤں میں دندناتا ہوا پھر رہا ہوگا اور یہی افسران جو آج معطل ہوئے ہیں آنے والے دنوں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہنس رہے ہونگے۔
مجھے کسی بھی جگہ تبسم کی آنکھ میں کوئی سوال نہیں دکھائی دیا جو اس نے ہم سے ، ہمارے اداروں سے یا ہمارے اس بیمار معاشرے سے کیا ہو،اس کے چہرے پر ایک طرف دکھ ہے اذیت ہے تو دوسرے طرف ایک امید اور ایک یقین کہ جیسے ہی وہ ٹھیک ہوگا سب سے پہلے اپنا سفر گجرات کی جیل سے ہی شروع کرے گا۔ اسے پاکستان کی بہت سی جیلیں چھاننی ہونگی جہاں اسے " جے" اور " ویرو" ملیں گے اور ساتھ انصاف بھی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔