شمالی وزیرستان اور ہمارے رویے
ایسی ناول نما آپ بیتیوں کا مقصد ہمارے علم میں اضافہ کرنا ہرگز نہیں ہوتا ۔۔۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر۔ اس بار میری عید کی چھٹیاں دس دنوں تک پھیل گئیں۔ فرصت کے ایسے ایام کو میں کئی برسوں سے وہ کتابیں ختم کرنے میں صرف کیا کرتا ہوں جو خریدی تو بڑے چائو سے گئی ہوتی ہیں مگر انھیں دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ ارادہ اس بار یہ باندھا تھا کہ چھٹیاں شروع ہونے سے قبل چند ایسی کتابیں تلاش کی جائیں جو صرف شمالی وزیرستان کے حقائق کو تجزیاتی انداز میں سمجھا سکیں۔
اپنی اس خواہش کے ساتھ کتابوں کی ایک نہیں تین بڑی دکانوں میں گیا۔ وہاں اس علاقے کی تاریخ کے بارے میں کتابیں تو موجود تھیں۔ مگر یہ سب غیر ملکیوں اور خاص طور پر ان انگریز افسروں کی لکھی ہوئی تھیں جو شمالی وزیرستان کو سامراجی ذہن کے ساتھ جاننے کے بعد اسے کنٹرول کرنے کے ذرایع دریافت کرنا چاہ رہے تھے۔
1947ء کے بعد سے پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست نے بھی قبائلی علاقوں کو برطانوی سامراج کے متعارف کردہ نظام کے ذریعے اپنے تابع رکھا۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری سول سروس کے چند عبقری افسران نے شمالی وزیرستان میں کبھی پولیٹیکل ایجنٹ وغیرہ کے فرائض سرانجام دیے ہوں گے۔ ہمارے یہ افسران مگر کتابیں نہیں لکھتے۔ اگر کبھی زحمت کر بھی ڈالیں تو ''شہاب نامہ'' جیسے ناول نما شاہکار لکھ ڈالتے ہیں۔
ایسی ناول نما آپ بیتیوں کا مقصد ہمارے علم میں اضافہ کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔ لکھاری بس یہ ثابت کرنے میں اپنا پورا زورِ بیان صرف کر دیتا ہے کہ وہ ریاست کی چاکری کرتے ہوئے مفاد پرست منافقوں کے ہجوم میں اپنے ایمان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا۔ شاید ان ہی کوششوں کی وجہ سے انتہائی اہم عہدوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد بالآخر انھیں ولایت نصیب ہو ہی گئی۔ مسئلہ میرا مگر یہ ہے کہ فی الوقت مجھے کشف بانٹتے کسی مرشد کی نہیں بلکہ حقائق کو سمجھانے والے کسی محقق کی تلاش ہے۔
میری بات مان لیجیے کہ 1947ء کے بعد اور خاص طور پر ''افغان جہاد'' کی طفیل شمالی وزیرستان میں جو حیران کن سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے بارے میں کوئی ایک قابلِ ذکر کتاب بھی اس وقت ہمارے ہاں موجود نہیں۔ ہاں تحقیق کے نام پر کچھ افسانہ نگاری ضرور ہوئی ہے۔ مگر افسانے پڑھنا ہوں تو باقاعدہ افسانہ نگاروں کو کیوں نہ پڑھا جائے۔
کتابیں تو خیر وقت، محنت اور لگن کے بغیر نہیں لکھی جا سکتیں مگر ہمارے اپنے تئیں مستعد بنے میڈیا کو کیا ہو گیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں اس وقت ایک بھرپور فوجی آپریشن جاری ہے۔ اس کے بارے میں خبروں کا واحد ذریعہ ISPR کی پریس ریلیزز ہیں۔ چند صحافی ضرور ایسے ہیں جنہوں نے ہمت پکڑی اور چند روز بنوں میں گزارے۔ مگر جو کہانیاں انھوں نے لکھیں وہ تھیں تو بہت جاندار مگر ان کا تعلق صحافت کی اس Category سے بنتا ہے جسے Human Interest Stories کہا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے ذاتی طور پر مجھے اس عمر رسیدہ قبائلی کی کہانی بہت پسند آئی جو تین بیویوں اور بہت سارے بچوں کے ہوتے ہوئے بھی ایک اور شادی کرنا چاہ رہا تھا۔
اس کے دل کے ارمان مگر پورے نہ ہو سکے۔ جو رقم اس نے نئی شادی کے لیے بچائی تھی شمالی وزیرستان سے نقل مکانی اور اس کے بعد خود کو بنوں میں خاندان سمیت زندہ رہنے کی کاوشوں کی نذر ہو گئی۔ شمالی وزیرستان کی بابت اپنے ہمہ وقت چوکس رہنے کے دعوے دار رپورٹروں کی بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ارنسٹ ہیمنگوے یاد آ گیا۔ انگریزی زبان کا یہ منفرد افسانہ نگار نوجوانی میں رپورٹنگ کرنا چاہتا تھا۔ اسے کسی اخبار نے لفٹ نہ کروائی تو اسپین کی خانہ جنگی کے دوران ریڈ کراس کی ایک ایمبولنس کا ڈرائیور بن کر اسپین میں رہنے لگا۔
اس کی اسپین میں موجودگی کی وجہ سے ایک اخبار نے اسے خبریں بھیجنے کا کہا۔ طے مگر یہ بھی ہوا کہ اس کی خبروں کا معاوضہ چھپے ہوئے لفظوں کو گن کر ادا کیا جائے گا۔ ان دنوں انٹرنیٹ کی آسانیاں موجود نہیں تھیں۔ رپورٹروں کو اپنی خبریں تار کے ذریعے بھیجنا ہوتی تھیں۔ ہیمنگوے ان دنوں مکمل فقیر تھا۔ وہ لمبی تاروں کا بل ادا ہی نہیں کر سکتا تھا۔ اپنی کم مائیگی کی وجہ سے وہ مختصر ترین لفظوں میں تار کے ذریعے اپنی خبر بیان کرنے پر مجبور ہوا۔ غربت کے ان دنوں کی ایسی طویل مشقت کی بدولت ہی اس نے مختصر مگر تاثر کے اعتبار سے بھرپور افسانے لکھنے کی مہارت دریافت کی تھی۔
اسی ہیمنگوے نے مگر یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ''جنگوں کے بارے میں سچ لکھنا (کسی لکھاری کے لیے) بہت خوفناک ہوا کرتا ہے''۔ شاید اسی وجہ سے اس نے اسپین کی خانہ جنگی کے بارے میں کوئی آپ بیتی لکھنے کے بجائے اس کے تناظر میں اپنا شہرئہ آفاق ناول For Whom The Bell Tolls لکھا۔ اس ناول نے اپنا پورا فوکس خانہ جنگی کی تفصیلات میں اُلجھنے کے بجائے صرف ان چار دنوں تک محدود رکھا جب ایک غار میں چھپے باغی کسانوں کا ایک گروہ جنگی اعتبار سے ایک اہم پل کو تباہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔
شمالی وزیرستان کے بارے میں میرے جیسوں کی بے اعتنائی کی بدولت عید کی چھٹیوں کے دوران ہمارے انٹرنیٹ مجاہدین اور نام نہاد انسانیت نواز اپنے Tweets کے ذریعے صرف غزہ کے بارے میں نوحہ گیری میں مصروف رہے۔ ایسا کرتے ہوئے صرف چند لوگوں کو اگرچہ یہ بھی یاد آتا رہا کہ ہمارے ایک بڑے شہر گوجرانوالہ میں بھی چاند رات کو ''کچھ'' ہوا تھا۔
بہرحال میں نے تو چھٹیوں کے دس دن کتابیں پڑھنے میں گزارنے تھے۔ میری خوش بختی کہ مصر، شام، لبنان اور عراق کے کچھ صحافتی دوروں کی بدولت ان ملکوں میں ان دنوں نظر آنے والے انتشار کی وجوہات سے تھوڑا بہت واقف ہوں۔ نام نہاد ''عرب بہار'' کے بعد سے جاری اس خلفشار کی اصل جڑیں مگر پہلی جنگ عظیم کے دنوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں یہ تمام ممالک ''خلافتِ عثمانیہ'' کے زیر نگین تھے۔ ترکی پہلی عالمی جنگ کے دوران اتحادی قوتوں کے بجائے جرمنی کا حلیف تھا۔
جرمنوں کی ترکی سے یہ دوستی اتحادی افواج کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی۔ اسی لیے برطانیہ نے بجائے ترکی پر براہِ راست حملہ کرنے کے عرب قوم پرستی کے نام پر ان ملکوں کو ''آزاد'' کروانے کی ٹھان لی۔ Te Lawrence جسے ہم لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتے ہیں ''آزادی'' کی اس جنگ کا اہم کردار تھا۔ ہم تو اسے بس ایک سازشی جاسوس ہی گردانتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ لارنس ایک بے تحاشہ پڑھا لکھا انسان بھی تھا۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے برطانوی عجائب گھر کے لیے شام میں موجود رومنوں کے بنائے ایک قلعے کی کھدائی کے بعد نوادرات اکٹھا کرنے کی مہم میں چار سال گزارے تھے۔ عربی زبان اور ثقافت سے گہری آشنائی کی بدولت اسے 1917ء میں حجاز کو ''آزاد'' کروانے کے لیے برپا جنگ میں برطانوی مفادات کی نگہبانی کے لیے مامور کیا گیا۔ اپنے ان دنوں کے تجربات کو اس نے Seven Pillars Of Wisdom جیسی ضخیم کتاب لکھ کر بیان کیا ہے۔ اس موقعہ پر یہ حقیقت بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ برطانوی سامراج کی طرف سے اس کی بطور لارنس آف عریبیہ پھیلائی گئی شہرت کے بارے میں بہت نادم تھا۔ اسی لیے اس نے اپنا نام دوبار بدل کر گمنامی چاہی۔
بالآخر تنگ آ کر ایئرفورس میں چلا گیا۔ برطانوی ایئر فورس کا پائلٹ ہوتے ہوئے اس نے کچھ مہینے میران شاہ جی ہاں ہمارے شمالی وزیرستان کے میران شاہ میں بھی گزارے تھے۔ مگر بدقسمتی سے ایک حادثے میں موت کے سبب اس کے بارے میں کوئی کتاب نہ لکھ پایا۔ عید کے پہلے دو دن اس کی عربوں کی ترکوں کے خلاف ''جنگِ آزادی'' کی داستان پڑھتے ہوئے میں بار ہا خدا سے شکوہ کرتا رہا کہ اس نے لارنس کو اس دُنیا سے شمالی وزیرستان پر کوئی کتاب لکھنے سے پہلے کیوں اٹھا لیا۔ اس سے زیادہ اور کیا لکھوں۔