HRCP کی رپورٹ
شہر کے حالات کو بہتر بنانے میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو کردار ادا کرنا پڑے گا۔۔۔
کسی سیاسی جماعت نے کراچی شہر کے مسائل کا ادراک نہیں کیا۔ شہر میں فوج بلانے سے ملک کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیو من رائٹس کمیشن نے کراچی کے حالات کے جائزے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ وفد کراچی بھیجا۔
کمیشن کے سیکریٹری جنرل اور انسانی حقوق کے محترم کارکن آئی اے رحمن نے کمیشن کے مشن کی فائنڈنگ بیان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں فوج کی تعیناتی کسی بھی طرح مناسب نہیں، اگر فوج کو شہر میں لایا گیا تو حالات زیادہ بگڑ سکتے ہیں، اس فیکٹ فائنڈنگ وفد نے کراچی کے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، صحافیوں، وکلاء، تاجروں کے نمایندوں کے علاوہ وزیر اعلیٰ و پولیس کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں، رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل نے اس مشن کے ارکان سے ملاقات آخری لمحات میں منسوخ کر دی۔ مشن کے سامنے 70 خاندانوں کے افراد پیش ہوئے جن کے عزیزلاپتہ ہیں۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب اس کے اراکین نے 1995ء میں حقائق جمع کیے تھے تو شہر سے روزانہ 80 لاکھ روپے بھتہ وصول کیا جاتا تھا، اب یہ رقم اتنی بڑھ گئی کہ شہر کے صرف ایک علاقے سے ایک کروڑ روپے بھتہ لیا جاتا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس خوف کی وجہ سے جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی، اس لیے لوگ پولیس کے پاس شکایات درج کرانے نہیں جاتے۔
رحمن صاحب کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کی بہت سے شکایات موصول ہوئی ہیں، انھوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس نکتے پر متفق ہیں کہ گزشتہ سال شروع ہونے والا آپریشن اہداف پورا نہیں کر سکا، وفد کے ارکان کی رائے ہے کہ موجودہ حالات میں پولیس کو مکمل طور پر با اختیار بنایا جائے اور اس کو ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔ اس وفد کے اراکین نے اپنے دورے میں اس بات کو محسوس کیا کہ کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کے بارے میں وفاقی حکومت اور سندھ حکومت اختلافات کا شکار ہیں۔
وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو کراچی کے مختصر دورے کرنے کے بجائے کراچی کے مسائل کے حل پر مستقل توجہ دی جائے۔ اس مشن کے اراکین کا کہنا ہے کہ شہر میں بے روز گاری، بنیادی سہولتوں کی کمی، بلدیاتی اداروں کے نہ ہونے اور اسلحے کی بھرمار سے صورتحال خراب ہو رہی ہے پھر سیاسی و مذہبی جماعتیں زمینوں پر قبضے، بھتہ وصول کرنے جیسی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ وفد کا کہنا ہے کہ شہر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو رہا ہے مگر کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو ان خلاف ورزیوں کے بارے میں تحقیقات کرنے اور شکایت کنندگان کی تسلی و تشفی کر سکے۔
شہر کے حالات کو بہتر بنانے میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو کردار ادا کرنا پڑے گا۔ HRCP کی رپورٹ ایک ایسے وقت آئی ہے جب شہر میں امن و امان کی صورتحال خراب تر ہے۔ شہر کی خراب تر صورتحال کی طرف سب ہی توجہ دلا رہے ہیں، تاجروں کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک میں بھتہ کی پرچیاں ملنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اب انفرادی طور پر تاجروں کو پرچیوں کے علاوہ ان کی انجمنوں کو بھی بھتے کی پرچیاں ملی ہیں جن میں یکمشت رقم کی فراہمی کا کہا گیا ہے، اس کے ساتھ شہر میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں جاری ہیں۔
پولیس اور رینجرز کے دعوئوں کے باوجود شہریوں کو دن دہاڑے اغواء کیا جاتا ہے پھر بھاری تاوان دے کر رہائی ملتی ہے، اگرچہ پولیس اور رینجرز کی ٹیموں نے کراچی اور اندرون سندھ کارروائیاں کر کے اغواء برائے تاوان میں ملوث بعض گروہوں کا خاتمہ کیا ہے، تاہم شہر میں اسٹریٹ کرائم بڑھتا جا رہا ہے، شہر میں روزانہ کتنے موبائل فون چھینے جاتے ہیں اور کتنے لوگ بینکوں کی ATM مشینوں سے رقم نکالتے وقت اپنی رقموں سے محروم ہو جاتے ہیں ان کے اعداد و شمار اس لیے دستیاب نہیں ہے کہ لوگ خوفزدہ ہو کر پولیس کے پاس رپورٹ درج کرانے نہیں جاتے پھر اگر تھانوں میں رپورٹ درج ہو جائے تو بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
شہر کے مضافاتی علاقوں میں انتہا پسند طالبان کا قبضہ ہے، پولیس، رینجرز اور خفیہ عسکری ایجنسیاں بہت سے حملوں کے بارے میں اب تک لاعلم ہیں۔ گھگر پھاٹک سے حب چوکی پھر بلدیہ ٹائون اور شہر میں جناح کالونی سے متصل علاقوں میں انتہا پسندوں کی کتنی ہی کمین گاہیں محفوظ ہیں۔
بلدیہ ٹائون سے متصل علاقے میں مخلوط تعلیم کے کئی اسکول اپنے پرنسپلز اور اساتذہ پر حملوں کے بعد بند ہو چکے ہیں۔ صورتحال کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے صحافیوں کو گزشتہ دنوں بتایا تھا کہ اورنگی ٹائون میں آباد 200 پولیس والوں اور ان کے خاندان کو کسی اور جگہ منتقلی کا معاملہ زیر غور ہے۔ HRCP کے تحقیقاتی وفد کو شام کو شایع ہونے والے اخبار کی کاپیاں ملیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ممکنہ طور پر ہلاک ہونے والوں کے نام شایع کیے جاتے ہیں اور جن ملزمان کے ریڈ وارنٹ ہیں ان کے انٹرویو جلی سرخیوں سے شایع ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ آزادئ صحافت پر یقین رکھنے والوں اور حکا م کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اس فیکٹ فائنڈنگ وفد کے اراکین کا تجزیہ ہے کہ کراچی کے معاملات کی ذمے دار اتھارٹیز یعنی سول اور پولیس انتظامیہ بدعنوان او ر نااہل ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال کی براہ راست ذمے داری سندھ کی صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ سندھ کی حکومت گڈ گورننس اور میرٹ پر عملدرآمد یقینی نہیں بنا سکی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تین سال قبل اس وقت کے انسپکٹر جنرل آف پولیس واجد درانی کو سپریم کورٹ کے سامنے اقرار کرنا پڑا کہ انھیں 17 گریڈ اور اس سے اوپر کی اسامیوں کے تبادلوں کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ سندھ حکومت کی نااہلی کا ایک بڑا ثبوت طویل عرصے سے مستقل آئی جی پولیس کے تقرر میں ناکامی ہے۔
کراچی کے معاملات کے دیکھنے میں اس مشن کا کہنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام، بیروز گاری کے خاتمے، پولیس کو بااختیار بنانے اور جدید سہولتیں فراہم کرنے سے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے زیادہ وقت دیں۔ گزشتہ ایک سال سے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ کراچی کے معاملات پر بہت کم وقت دے رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو گزشتہ دنوں کراچی میں امن و امان کے بارے میں اجلاس میں یہ احساس ہوا کہ کراچی آپریشن کو موثر بنانے کے لیے جو اہم فیصلے ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
وزیر اعظم کی ذاتی توجہ سے یہ مسائل کا حل ممکن ہے۔ کمیشن کے اراکین کی یہ رائے سب سے اہم ہے کہ فوج کو شہر میں تعینات کرنے سے معاملات بگڑنے کا احتمال ہے۔ فوج کا شہر میں ہدف پور ا کرنے کا تجربہ کبھی کامیاب نہیں ہوا ہے۔ فوج جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے موثر قوت ہے، شہر میں فوج کے استعمال سے ان صلاحیتوں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ عوام سے فاصلے بڑھتے ہیں مگر اس رپورٹ کا نچوڑ یہ ہے کہ نچلی سطح تک اختیار کا بلدیاتی نظام قائم کیا جائے اور انتظامیہ گڈ گورننس کے معیار کو بہتر بنائے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میرٹ اور گڈ گورننس کی صلاحیت سے محروم ہے، یوں سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اپنا تاریخی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
کمیشن کے سیکریٹری جنرل اور انسانی حقوق کے محترم کارکن آئی اے رحمن نے کمیشن کے مشن کی فائنڈنگ بیان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں فوج کی تعیناتی کسی بھی طرح مناسب نہیں، اگر فوج کو شہر میں لایا گیا تو حالات زیادہ بگڑ سکتے ہیں، اس فیکٹ فائنڈنگ وفد نے کراچی کے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، صحافیوں، وکلاء، تاجروں کے نمایندوں کے علاوہ وزیر اعلیٰ و پولیس کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں، رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل نے اس مشن کے ارکان سے ملاقات آخری لمحات میں منسوخ کر دی۔ مشن کے سامنے 70 خاندانوں کے افراد پیش ہوئے جن کے عزیزلاپتہ ہیں۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب اس کے اراکین نے 1995ء میں حقائق جمع کیے تھے تو شہر سے روزانہ 80 لاکھ روپے بھتہ وصول کیا جاتا تھا، اب یہ رقم اتنی بڑھ گئی کہ شہر کے صرف ایک علاقے سے ایک کروڑ روپے بھتہ لیا جاتا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس خوف کی وجہ سے جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی، اس لیے لوگ پولیس کے پاس شکایات درج کرانے نہیں جاتے۔
رحمن صاحب کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کی بہت سے شکایات موصول ہوئی ہیں، انھوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس نکتے پر متفق ہیں کہ گزشتہ سال شروع ہونے والا آپریشن اہداف پورا نہیں کر سکا، وفد کے ارکان کی رائے ہے کہ موجودہ حالات میں پولیس کو مکمل طور پر با اختیار بنایا جائے اور اس کو ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔ اس وفد کے اراکین نے اپنے دورے میں اس بات کو محسوس کیا کہ کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کے بارے میں وفاقی حکومت اور سندھ حکومت اختلافات کا شکار ہیں۔
وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو کراچی کے مختصر دورے کرنے کے بجائے کراچی کے مسائل کے حل پر مستقل توجہ دی جائے۔ اس مشن کے اراکین کا کہنا ہے کہ شہر میں بے روز گاری، بنیادی سہولتوں کی کمی، بلدیاتی اداروں کے نہ ہونے اور اسلحے کی بھرمار سے صورتحال خراب ہو رہی ہے پھر سیاسی و مذہبی جماعتیں زمینوں پر قبضے، بھتہ وصول کرنے جیسی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ وفد کا کہنا ہے کہ شہر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو رہا ہے مگر کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو ان خلاف ورزیوں کے بارے میں تحقیقات کرنے اور شکایت کنندگان کی تسلی و تشفی کر سکے۔
شہر کے حالات کو بہتر بنانے میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو کردار ادا کرنا پڑے گا۔ HRCP کی رپورٹ ایک ایسے وقت آئی ہے جب شہر میں امن و امان کی صورتحال خراب تر ہے۔ شہر کی خراب تر صورتحال کی طرف سب ہی توجہ دلا رہے ہیں، تاجروں کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک میں بھتہ کی پرچیاں ملنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اب انفرادی طور پر تاجروں کو پرچیوں کے علاوہ ان کی انجمنوں کو بھی بھتے کی پرچیاں ملی ہیں جن میں یکمشت رقم کی فراہمی کا کہا گیا ہے، اس کے ساتھ شہر میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں جاری ہیں۔
پولیس اور رینجرز کے دعوئوں کے باوجود شہریوں کو دن دہاڑے اغواء کیا جاتا ہے پھر بھاری تاوان دے کر رہائی ملتی ہے، اگرچہ پولیس اور رینجرز کی ٹیموں نے کراچی اور اندرون سندھ کارروائیاں کر کے اغواء برائے تاوان میں ملوث بعض گروہوں کا خاتمہ کیا ہے، تاہم شہر میں اسٹریٹ کرائم بڑھتا جا رہا ہے، شہر میں روزانہ کتنے موبائل فون چھینے جاتے ہیں اور کتنے لوگ بینکوں کی ATM مشینوں سے رقم نکالتے وقت اپنی رقموں سے محروم ہو جاتے ہیں ان کے اعداد و شمار اس لیے دستیاب نہیں ہے کہ لوگ خوفزدہ ہو کر پولیس کے پاس رپورٹ درج کرانے نہیں جاتے پھر اگر تھانوں میں رپورٹ درج ہو جائے تو بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
شہر کے مضافاتی علاقوں میں انتہا پسند طالبان کا قبضہ ہے، پولیس، رینجرز اور خفیہ عسکری ایجنسیاں بہت سے حملوں کے بارے میں اب تک لاعلم ہیں۔ گھگر پھاٹک سے حب چوکی پھر بلدیہ ٹائون اور شہر میں جناح کالونی سے متصل علاقوں میں انتہا پسندوں کی کتنی ہی کمین گاہیں محفوظ ہیں۔
بلدیہ ٹائون سے متصل علاقے میں مخلوط تعلیم کے کئی اسکول اپنے پرنسپلز اور اساتذہ پر حملوں کے بعد بند ہو چکے ہیں۔ صورتحال کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے صحافیوں کو گزشتہ دنوں بتایا تھا کہ اورنگی ٹائون میں آباد 200 پولیس والوں اور ان کے خاندان کو کسی اور جگہ منتقلی کا معاملہ زیر غور ہے۔ HRCP کے تحقیقاتی وفد کو شام کو شایع ہونے والے اخبار کی کاپیاں ملیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ممکنہ طور پر ہلاک ہونے والوں کے نام شایع کیے جاتے ہیں اور جن ملزمان کے ریڈ وارنٹ ہیں ان کے انٹرویو جلی سرخیوں سے شایع ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ آزادئ صحافت پر یقین رکھنے والوں اور حکا م کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اس فیکٹ فائنڈنگ وفد کے اراکین کا تجزیہ ہے کہ کراچی کے معاملات کی ذمے دار اتھارٹیز یعنی سول اور پولیس انتظامیہ بدعنوان او ر نااہل ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال کی براہ راست ذمے داری سندھ کی صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ سندھ کی حکومت گڈ گورننس اور میرٹ پر عملدرآمد یقینی نہیں بنا سکی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تین سال قبل اس وقت کے انسپکٹر جنرل آف پولیس واجد درانی کو سپریم کورٹ کے سامنے اقرار کرنا پڑا کہ انھیں 17 گریڈ اور اس سے اوپر کی اسامیوں کے تبادلوں کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ سندھ حکومت کی نااہلی کا ایک بڑا ثبوت طویل عرصے سے مستقل آئی جی پولیس کے تقرر میں ناکامی ہے۔
کراچی کے معاملات کے دیکھنے میں اس مشن کا کہنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام، بیروز گاری کے خاتمے، پولیس کو بااختیار بنانے اور جدید سہولتیں فراہم کرنے سے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے زیادہ وقت دیں۔ گزشتہ ایک سال سے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ کراچی کے معاملات پر بہت کم وقت دے رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو گزشتہ دنوں کراچی میں امن و امان کے بارے میں اجلاس میں یہ احساس ہوا کہ کراچی آپریشن کو موثر بنانے کے لیے جو اہم فیصلے ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
وزیر اعظم کی ذاتی توجہ سے یہ مسائل کا حل ممکن ہے۔ کمیشن کے اراکین کی یہ رائے سب سے اہم ہے کہ فوج کو شہر میں تعینات کرنے سے معاملات بگڑنے کا احتمال ہے۔ فوج کا شہر میں ہدف پور ا کرنے کا تجربہ کبھی کامیاب نہیں ہوا ہے۔ فوج جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے موثر قوت ہے، شہر میں فوج کے استعمال سے ان صلاحیتوں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ عوام سے فاصلے بڑھتے ہیں مگر اس رپورٹ کا نچوڑ یہ ہے کہ نچلی سطح تک اختیار کا بلدیاتی نظام قائم کیا جائے اور انتظامیہ گڈ گورننس کے معیار کو بہتر بنائے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میرٹ اور گڈ گورننس کی صلاحیت سے محروم ہے، یوں سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اپنا تاریخی کردار ادا کر سکتی ہیں۔