اتائی ڈاکٹر اورعوام
ہمارے ملک میں لوگ سستے کمپیوٹر کے عوض اپنی صحت اور ماحول دونوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔۔۔۔
انسان بیمار ہو تو اسے معالج یا ڈاکٹر کے پاس جانا یا لے کر جانا پڑتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی مشین خراب ہوجائے تو اس کو ٹیکنیشن کے پاس لے جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ دونوں صورتوں میں آپ کو خرچہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے،ڈاکٹر اور آئی ٹی کے ٹیکنیشن دونوں مہنگی فیسیں وصول کرتے ہیں۔
عام دنوں میں تو یہ بوجھ برداشت ہو جاتا ہے تاہم رمضان میں اور خاص طور پر اس وقت جب عید سر پر کھڑی ہو تو ایسے میں اِدھر ادھر کے معمولی اخراجات بھی ان معمولی اور حقیر چھید کی طرح ہوتے ہیں جو سمندر میں تیرتے جہاز کو بھی باآسانی غرقاب کر دیں ۔ چند روز قبل ہمارے کمپیوٹر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ اسے اپنے ذاتی اور دیرینہ آزمودہ کار ٹیکنیشن کو دکھایا تو اس نے معائنہ کرنے کے بعد یہ مژدہ الم سنایا کہ ''مدر بورڈ جواب دے چکا ہے،نئی مشین خرید لیں'' اب تصورکریں کہ عید قریب اور نئی مشین کی خریداری میں غیرمتوقع، اضافی اخراجات... یقینا یہ وہ وقت ہوتا ہے جب تکیہ دینے والا ہر پتہ واقعی ہوا دینے لگتا ہے۔
ایک نوجوان سے دوستی آگے بڑھی تو میں نے اپنے کمپیوٹر کی خرابی کا تذکرہ کیا جس پر اس نے کہا کہ وہ خود اس کا معائنہ کریگا ،کمپیوٹر لے جا کر دکھایا تو چیک کر کے مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ'' کمپیوٹر کا مدر بورڈبالکل درست حالت میں ہے مسئلہ صرف ہارڈ ڈرائیو کا تھاجسے اس نے وہیں بدل کر کمپیوٹر چلا کر دکھا دیا ۔مزید پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرے پرانے کمپیوٹر ٹیکنیشن نے اصل بات مجھ سے چھپائی تھی تاکہ وہ نئی مشین مجھے بیچ کر اپنے پیسے کھرے کر سکے۔اب آپ حضرات اندازہ لگائیے کہ جس مشین کی خرابی کو میں اپنے مقدر کی خرابی سمجھ رہا تھا وہ در اصل ٹیکنیشن کی نیت کی خرابی اور لالچ تھا،دوسری صورت میں قدرت مجھے یہ سمجھا رہی تھی کہ جب میرا کمپیوٹر ٹیکنیشن مجھ جیسے پرانے گاہک کے ساتھ ایسا کرسکتا ہے تو وہ معالج یا ڈاکٹر آپ کے ساتھ ایسا کیا کچھ نہیں کرتے ہونگے جن کے پاس ہم بیمار ہونے کی صورت میں علاج کے لیے جاتے ہیں۔
مزید برآں ایک اور انکشاف جو اس نوجوان نے کیا وہ یہ تھا کہ سیکنڈز ہینڈز یا استعمال شدہ کمپیوٹر ماحول اور انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوتے ہیںیہی وجہ ہے کہ پڑوسی ملک بھارت اور بنگلہ دیش اپنے ہاں سیکنڈ ہینڈز کمپیوٹر پہنچنے ہی نہیں دیتے۔ ان دونوں ممالک میں صرف برانڈڈ نئے کمپیوٹرز کا کاروبار اور استعمال ہوتا ہے۔استعمال شدہ کمپیوٹر کی درآمد پر اس لیے پابندی عائد ہے کہ یہ مشینیں ان کے عوام کی صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس کی بہ نسبت پاکستان میں یہ کاروبار ہمیشہ سے زوروں پر ہے ،کمپیوٹر سستے ضرور ہیں مگر انسانی صحت کو زبردست نقصان سے دوچار کرنیوالے ہیں ۔
ہمارے ملک میں لوگ سستے کمپیوٹر کے عوض اپنی صحت اور ماحول دونوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں لیکن ہمیں صحت کو پہنچنے والے نقصانات کے حوالے سے صرف کمپیوٹر کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے کیونکہ یہ کام پاکستان کے ہر شہر میں موجود اتائی ڈاکٹروں کی فوج، فارما کمپنیوں کے نمایندے اور ادویہ ساز ادارے بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والا ہر پہلے شہری کا اپنی پوری زندگی میں ایک سے زائد مرتبہ جعلی دوا کے استعمال، غیرمعیاری علاج، اور ناقص صحت کی سہولیات سے واسطہ ضرور پڑتا ہے۔جعلی ادویات کا کاروبار سندھ اور پنجاب میں اسی طرح جاری ہے جس طرح انسانی جسم میں خون گردش کرتا ہے۔ محکمہ صحت سندھ کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے صوبہ سندھ صحت کی بنیادی سہولیات سے کوسوں دور ہے۔سرکاری اسپتالوں میں صحت کی سہولیات اول تو ہیں ہی نہیں اور جو ہیں ان کا معیار بد ترین ہے۔
نجی اسپتالوں کی طبی سہولیات شہریوں پرگویا احسان ہے اور جس طرح ان کی جیبوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں، لگتا ہے کہ انھیں بیمار یا مریض ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔نجی اسپتال یا کلینک ایک باقاعدہ کاروبار ہے اور او پی ڈی یا زیر علاج مریضوں کی گنتی فنانس ڈپارٹمنٹ میں اس طرح کی جاتی ہے جیسے وہ دودھ دینے والی گائیں ہیں ہیپا ٹائٹس کے انجکشن، ویکسین یہاں خراب بھی ہوتی ہیں،اور ان پر خلاف ضابطہ کمیشن بھی وصول کیا جاتا ہے ۔سرکاری اسپتالوں کو ملنے والے کروڑوں روپے کے فنڈز کی خورد برد عام ہے ۔جعلی بلڈ ٹرانسفیوژن بینکس بھی یہاں موجود ہیں تاہم ان کے خلاف کچھ موثر کارروائیاں سیکریٹری سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے تحت عمل میں لائی گئی ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اتائی ڈاکٹروں کے لیے پاکستان ایک جنت نظیر ملک کہلاتا ہے وہ اس لیے کہ یہاں این آر او اور دیگر نام نہاد جمہوری مسائل کے حل کے لیے تو قانون بن جاتے ہیں تاہم اتائی ڈاکٹروں کی سزا اور ان کی روک تھام کے لیے ابھی تک کوئی قانون موجود نہیں ہے۔یہ اتائی گرفتار ہوتے ہیں مگر قانون نہ ہونے کے باعث جلد ضمانت پر رہا ہوکر دوبارہ وہی کام شروع کردیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے کئی بار حکومت میں آنے کے بعد عطائیت کے خلاف کبھی قانون سازی کی کوشش نہیں کی۔ یہ ایک اجتماعی مسئلہ تھا اور اب تک ہے جس پر ہر ایک کو سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے تھا ۔ کیا ہمارے آئین میں کوئی ایسی شق موجود ہے جس کی رو سے سرکاری اسپتالوں میں سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے بینرزلگانے کی اجازت ہو اور وہ اسپتال کے انتظام و انصرام کے مالک ہوں؟
سیاست کا یہ کاروبار اتنی وسعت اختیار کر گیا ہے کہ محکمہ صحت سندھ اس کی بری طرح سے لپیٹ میں ہے اور سیاسی اثر پذیری نے اسے جکڑ رکھا ہے۔کئی عرصے تک یہاں وزیرصحت کا تقرر نہیں ہو سکا۔ اب جب وزیر صحت کا فیصلہ ہوا تو پہلے سے موجود سیکریٹری ہیلتھ کے ساتھ اختیارات کے حصول کی جنگ شروع ہوگئی ۔سیاسی کاروباریوں نے مفاہمتی جمہوریت کے نام پر جس گورکھ دھندے کی بنیاد رکھی تھی، آج اس کا نقصان صرف عام آدمی کو پہنچ رہا ہے ۔محکمہ صحت سندھ میں پہلے سیکریٹری ہیلتھ ڈاکٹر اقبال درانی کی تعیناتی ہوئی جنہوں نے نئی ایچ آر اصلاحات کے نام پر اپنے منتخب لوگوں کا تقرر کیا ۔اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کے دور میں ایسا محسوس ہوا کہ اب محکمہ صحت سندھ شاید اصلاحی دور سے گزرنا شروع ہورہا ہے ۔
تاہم مفاہمتی جمہوری سیاست نے وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد کا تقرر کروایا، جن کے گزشتہ دور میں سرکاری اسپتالوں میں کچھ جدید سہولیات متعارف کروائیں گئی تھیں تاہم صحت کے بڑے اور ہولناک مسائل کو گزشتہ اور موجودہ دونوں ادوار کی حکومتوں نے نظرانداز کیا یا پھر یہ قدرتی یا وسائل کی کمی کی بنیادوں پر نظر انداز ہی رہے ہیں۔آج محکمہ صحت سندھ اختیارات کی کشمکش کا شکار ہے ۔افسر و اہلکاروں میں یکسوئی مفقود ہے۔ ہر انسان کے کام کرنے کا انداز مختلف اور اس کی صلاحیت اور عقل پرہوتا ہے تاہم محکموں اور دیگر شعبوں میں ہر افسر کے انتظامی امور نپٹانے کا دائرہ کار طے ہونا چاہیے اور اسے اپنی لائن کو کبھی عبور نہیں کرنا چاہیے۔
اگر محکمہ صحت سندھ میں تقرریاں یا نمایندگیاں دینے کا اختیار وزیر صحت کے پاس ہے تو پھر یہ کام اسے ہی زیب دیتا ہے۔ سیکریٹری ہیلتھ یا ماتحت افسران خواہ کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں، اور خواہ وہ وزیر صحت سے زیادہ بہتر صلاحیت صرف کر کے محکمے کی اصلاح کرنے پر قادر کیوں نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ وہ یہ کڑوا گھونٹ پی لیں اور اپنی باری کا انتظار کریں پھر جب انھیں موقع ملے تو وہ اپنے جوہر قابل کا مظاہرہ ضرور کریں تاہم ان باتوں میں نیک نیتی کا ہونا ضروری ہے۔نیک نیتی کھڑکی سے باہر نکل جاتی ہے جب اقرباء پروری ،بدعنوانی اور فنڈز کے ناجائز حصول کی کوشش دروازے توڑ کر اندر داخل ہوتی ہے ۔شاید یہ محکمہ صحت سندھ کا ازلی مقدر ہے کہ اسے وزیر صحت یا سیکریٹری ہیلتھ کی شکل میں کونسا نیک نیت ذمے دار ملتا ہے۔اس کا فیصلہ یا تو قدرت کریگی یا پھر کاروبار سیاست کے رہنما اور ان کے مفاہمتی اصول۔
جا بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے