بُک شیلف

ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ



 تبصرہ نگار: بشیر واثق
قرآنی تعلیمات
مولف: نسیم طاہر،زر تعاون: 500 روپے،صفحات:336
ناشر:ادبستان، پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)


قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں علم کے جویا افراد قرآنی مضامین کو سمجھنے کیلئے تحقیق میں مشغول رہتے ہیں، کاش ایسا ہوتا کہ جس طرح اسے پڑھا اور حفظ کیا جاتا ہے اسی طرح اسے سمجھنے اور سمجھانے والوں کی بھی تعداد بھی کروڑوں میں ہوتی۔

محققین کا کہنا ہے کہ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس میں کائنات کا ہر موضوع زیر بحث لایا گیا ہے صرف دیکھنے اور کھوجنے والی آنکھ کی ضرورت ہے۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں سے زیادہ آج کل غیر مسلم دانشور، سائنس دان اور محققین قرآن پر تحقیق میں لگے ہوئے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر فرد قرآن کی تلاوت صرف ثواب کی نیت سے نہ کرے بلکہ اسے سمجھنے اور سمجھانے کا بھی اہتمام کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ عربی زبان پر عبور ہو، ہر فرد کیونکہ اتنی محنت نہیں کر سکتا تو مسلم علماء نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ قرآن کے تراجم اور تفاسیر کر دی گئی ہیں تاکہ عام پڑھا لکھا مسلمان بھی قرآن سمجھ سکے ۔

زیر تبصرہ کتاب قرآن فہمی کے اسی سلسلے کی کڑی ہے تاہم اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی آسان زبان اور مختصراً قرآن کے مضامین کا احاطہ ہے جس سے کوئی بھی مسلمان آسانی سے قرآن کے مضامین سے آگاہی حاصل کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگی کو اسلام کے مطابق بنا سکتا ہے۔ عبدالمتین ملک کہتے ہیں ’’ اہل عرب کی خاص خوش نصیبی ہے کہ کلام الہیٰ عربی زبان میں نازل ہوا ۔ ان کے لئے قرآن سے براہ راست مستفیض ہونا آسان تر ہے اہل عجم کیلئے بہرحال ایک مشکل موجود رہتی ہے کہ ان کے لئے براہ راست استفادہ ممکن نہیں ۔ عربی زبان سیکھنے کے باوجود پورے نظم قرآنی کا احاطہ ایک مشکل کام ہے ۔

تراجم اور تفاسیر کے عظیم ذخائر موجود ہیں مگر عدیم الفرصتی کے باعث ایک عام مسلمان کے لئے ان خزانوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہوتا ۔ عام مسلمان کو اگر آسان فہم زبان میں قرآنی تعلیمات کی روح سے روشناس کروایا جائے تو لازم ہے کہ وہ کلام پاک سے قربت محسوس کریں اور قلبی تراوت کے ساتھ ساتھ ہدایت کلی سے بھی روشناس ہوں گے ۔

اسی غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے دوست نسیم طاہر صاحب ایڈووکیٹ نے کلام اللہ کی پرمغز تعلیمات کو آسان فہم بنانے کے لئے کچھ کاوش فرمائی ، انھوں نے نماز تراویح کی ترتیب کے قریباً مطابق اٹھائیس ابواب ترتیب دیئے، ادارے نے کچھ ترامیم اور اضافہ کے بعد ان کو کتاب کی صورت قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔‘‘ بہت مفید کتاب ہے خاص طور پر ان کے لئے جو وقت نہ ہونے کا رونا روتے ہیں وہ اس کتاب کو اپنے ساتھ رکھیں جب بھی فارغ وقت ملے تو قرآن فہمی کے لئے اس کا مطالعہ کریں ۔ نوجوان نسل کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔  

۔۔۔

عظیم خواتین کے عظیم کارنامے
(عورت ایک تصویر کائنات)
مصنف : محمد صدیق شاہد،قیمت:700 روپے،صفحات:264
ملنے کا پتہ:ادبستان، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)

معاشرے میں تہذیب و تمدن کے پروان چڑھانے میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ خاتون ہی وہ اکائی ہے جس سے نسل آگے بڑھتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے خاندان کو بھی ایک لڑی میں پروئے رکھتی ہے ۔ مگر اس کے باوجود اسے ہر دور میں استحصال کا سامنا رہا ہے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہر دور میں ایسی خواتین بھی پیدا ہوتی رہی ہیں جنھوں نے اس استحصال نظام کے خلاف ہمت و حوصلہ کی داستانیں رقم کیں ۔ زیر تبصرہ کتاب خواتین کی ایسی ہی جدوجہد کی کہانی سناتی ہے ۔ معروف صحافی و کالم نگار ارشاد احمد عارف کہتے ہیں ’’ جناب محمد صدیق شاہد نے ’’عظیم خواتین کے عظیم کارنامے، عورت ایک تصویر کائنات‘‘ کے ذریعے خواتین کو نہ صرف اپنے دینی اور دنیوی فرائض کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ انھیں اپنے حقوق سے آشنا اور دین و دنیا میں کامیابی کے گر بتانے کی کوشش بھی کی ہے۔

شاہد صاحب چونکہ پرجوش مبلغ ہیں جو خواتین کو گھر کے اندر اور باہر ایک مخصوص دینی نقطہ نظر کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دینا چاہتے ہیں اس لیے انھوں نے اپنی تحقیق اور دینی ذوق کے مطابق ان کا دائرہ کار متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ عورت کو اسلام نے یہ حقوق دیئے اور جن فرائض کی ادائیگی کا پابند کیا یہ ایک وسیع موضوع ہے جسے محض ذہنی و فکری تناظر میں زیر بحث لا کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے ہیں، اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کتاب حرف آخر ہے کیونکہ مادر سری معاشرے سے پدر سری معاشرے اور مغرب کی مادر پدر کی آزاد معاشرت تک کا سفر صدیوں میں طے ہوا ہے اور اس سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات اور مرتب ہونے والے نتائج کا بنظر غائز جائزہ لئے بغیر اس موضوع سے انصاف نہیں کیا جا سکتا ۔

رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات ؓ اور ان کی عزیز ترین صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کی سیرت و کردار اور اقوال میں موجود تنوع سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا ماحصل کیا تھا ’’ عورت ایک تصویر کائنات‘‘ میں جناب محمد صدیق شاہد نے اپنے تبلیغی اسلوب میں مناظرانہ انداز اختیار کیا ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ اس کاوش کو قبول کرے اور انھیں اپنے قلم کی جولانیاں دکھانے کا موقع ملتا رہے ۔‘‘ مصنف کا انداز بیاں بہت جاندار ہے، معاشرے میں خواتین کے کردار کے حوالے سے بہت کھل کر بیان کیا ہے ۔ ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
 (تبصرہ نگار: قراۃ العین حیدر)

۔۔۔

 آسماں در آسماں 
مصنف : شاہد صدیقی،پبلشر: بک کارنر ، جہلم،سالِ اشاعت: 2025

کچھ کتابوں کے سرورق اتنے دیدہ ذیب ہوتے ہیں کہ فوراً دل موہ لیتے ہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ بک فئیر کے آخری روز ہم دوستوں کا پلان وہیں ملنے کا تھا ۔ وہیں ہمدمِ دیرینہ رانا عثمان نے یہ کتاب تحفتاً دی۔ میں اس کتاب کی چند تصاویر فیس بک پر پہلے دیکھ چکی تھی۔ کتاب کے سرورق کا حسن سر چڑھ کر بول رہا تھا ، کیونکہ میرے پسندیدہ اداکار، شاعر، لکھاری اور گلوکار وہاں براجمان تھے۔ سرورق پر دلیپ کمار، محمد رفیع، ساحر لدھیانوی، امرتا پریتم، خوشونت سنگھ، دیو آنند، سریندر کور اور گلزار براجمان تھے۔ اس لئے کتاب پڑھنے کا شدید شوق وصول کرتے ہی ہو گیا اور راستے میں ہی کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی۔ 

ہجرت صرف مکانی تبدیلی نہیں بلکہ ایک جذباتی، ثقافتی اور تاریخی صدمہ ہے جو نسلوں تک اپنی بازگشت قائم رکھتا ہے۔ آسماں در آسماں جیسے ادبی شہ پارے اسی دکھ اور اضطراب کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں بچھڑنے کا کرب اور جڑیں کھو دینے کا دکھ نمایاں ہوتا ہے۔ ہجرت صرف جسموں کا سفر نہیں بلکہ تہذیبوں کی ٹوٹ پھوٹ، یادوں کے بچھڑنے اور شناخت کے بحران کا کرب بھی ساتھ لاتی ہے۔ آسماں در آسماں جیسے ادب کے شاہکار اسی بکھری ہوئی تہذیب کی کہانی کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں فنکار، شاعر اور موسیقار صرف سرحد پار نہیں کرتے بلکہ اپنے اندر ایک نہ ختم ہونے والا خلا لے کر چلتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ تخلیقی ذہن کے لیے جغرافیائی حدبندیاں کم اہم ہو سکتی ہیں، مگر جن گلیوں میں ان کے خوابوں نے آنکھ کھولی ہو، جن فضاؤں میں ان کی دھنیں گونجی ہوں، ان سے بچھڑ جانا ایک دائمی بے وطنی کو جنم دیتا ہے۔ یہ کتاب صرف تاریخ کے اوراق میں بکھری چند کہانیاں یا واقعات نہیں بلکہ ایک تہذیب کے زخموں کا نوحہ ہے۔ ہجرت کا کرب محض سرحد پار کرنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ وہ احساس ہے جو کسی آنگن کی مٹی، کسی درخت کی چھاؤں، کسی محاورے کی چاشنی، یا کسی دھن کی گونج میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان واقعات کو پڑھتے ہیں تو صرف ماضی کے دکھ محسوس نہیں کرتے، بلکہ وہ اداسی بھی دل میں اترتی ہے جو وقت کے ساتھ ختم ہونے کے بجائے مزید گہری ہو جاتی ہے۔

شاہد صدیقی کی نثر تاریخ کا بوجھ اٹھانے والی محض ایک روداد نہیں، بلکہ ایک زندہ تجربہ ہے جو قارئین کو یادوں کے دھندلکوں میں کھینچ کر لے جاتا ہے۔ وہ ہجرت کو صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل جاری رہنے والا دکھ بنا دیتے ہیں۔ ایسا دکھ جو گلیوں، مکینوں، زبانوں، اور دلوں میں آج بھی سانس لیتا ہے۔ ان کا اسلوب جذباتی گہرائی، تاریخی شعور اور ادبی حسن کا ایسا امتزاج ہے جو نہ صرف قاری کو ماضی کے دریچوں میں جھانکنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ اس دکھ کی سچائی کو بھی محسوس کرواتا ہے جو ہجرت کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ نسل در نسل سفر کرتا ہے۔ شاہد صدیقی کی تحریر واقعی جذبات کی ایک ایسی گونج ہے جو صرف پڑھنے تک محدود نہیں رہتی بلکہ قاری کے اندر اتر کر اسے ہجرت کے دکھ سے جوڑ دیتی ہے۔ یہ الفاظ سادہ بیانیہ نہیں بلکہ ایک عمیق تجربہ ہیں، جو محبت، جدائی اور یادوں کے دھیان میں لپٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بہت خوبصورتی سے بیان کیا کہ یہ محض سیاہی کے نقوش نہیں، بلکہ ایک دردمند دل کی صدا ہیں۔ شاید یہی وہ عنصر ہے جو آسماں در آسماں کو محض تاریخ کی کتاب بننے سے روکتا ہے اور اسے ایک جذباتی سفر میں بدل دیتا ہے ۔ ایسا سفر جہاں لفظ، خوشبو، دھن، اور مکالمے سب مل کر ہجرت کے کرب کو امر کر دیتے ہیں۔

ہجرت کا کرب واقعی کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب، ایک پورے عہد کا دکھ ہے ۔ وہ لوگ جو صرف جسمانی طور پر بچھڑ گئے، مگر ان کے لفظ، ان کی آوازیں، ان کی تحریریں آج بھی سانس لیتی محسوس ہوتی ہیں۔ بلراج ساہنی کی بازگشت، گلزار کے الفاظ کی کاٹ، پرتھوی راج کپور کی ڈبڈباتی آنکھیں، خوشونت سنگھ کی خاموشی، بھیشم ساہنی کی نارساء تحریریں، میرا جی کی بے سروسامانی، امرتا پریتم کی ٹوٹتی بکھرتی آہیں اور شِو کمار بٹالوی کے نوحے، یہ سب تقسیم کی وہ نشانیاں ہیں جو وقت کی گرد میں دب نہیں سکتیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی ان کی تحریروں، مکالموں اور شاعری میں اپنے بچھڑے ہوئے ماضی کی جھلک تلاشتے ہیں۔ آسماں در آسماں واقعی صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں تاریخ کے دھندلے ہوتے چہرے دوبارہ روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف ناموں کا تذکرہ نہیں بلکہ ان کی زندگیوں میں سرایت کر جانے والے ہجر، جدائی اور بے وطنی کے کرب کی تصویر کشی ہے ۔ شاہد صدیقی نے نہ صرف ان فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں کو یاد کیا ہے بلکہ ان کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ، ان کی خاموش چیخوں اور ان کے فن میں چھپے درد کو بھی لفظوں میں سمو دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب محض تاریخ کا حوالہ نہیں بلکہ ایک جذباتی تجربہ بن جاتی ہے، جو قاری کو ان بجھتے چراغوں کی روشنی میں ماضی کی ان گلیوں، ان صحنوں، ان دھیانوں میں لے جاتی ہے جہاں ہجرت کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ 

ایک اضافہ کرتی چلوں کہ اس کتاب کے اکثر واقعات جو فلمی دنیا کے لوگوں سے متعلق ہیں، وہ تمام واقعات کئی ٹی وی پروگراموں میں دیکھ اور سن چکے ہیں۔ لیکن انہی واقعات کو کتابی صورت میں پڑھنا ایک دلچسپ تجربہ ہے اور یہ واقعات اپنے اندر وہی نیاپن رکھتے ہیں جیسے پڑھنے والا یہ سب پہلی بار پڑھ رہا ہو ۔ یہ کتاب ایسی تحریر ہے جو تاریخ کو صرف واقعات کے ذریعے نہیں سناتی بلکہ جذبات اور احساسات کی زبان میں قاری کو اس میں شامل کر دیتی ہے ۔ یہ شخصیات واقعی صرف تاریخی کردار نہیں بلکہ وہ لمحے ہیں جو وقت کے ایک مخصوص موڑ پر ٹھہر گئے، جن کی یادیں آگے بڑھنے والوں کے ساتھ بھی چلتی رہیں اور پیچھے چھوٹ جانے والوں کے دلوں میں بھی زندہ رہیں ۔ 

خاتون اول سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا 
کی زندگی کے سنہرے واقعات 
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل، لوئر مال، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لاہور
صفحات : 224آرٹ پیپر 4کلر ،قیمت : 2500 روپے 
برائے رابطہ : 042-37324034

 

زیر نظر کتاب ’’خاتون اول سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کے سنہرے واقعات‘‘ کے مولف عبدالمالک مجاہد ہیں۔ پیش نظر کتاب میں مسلمانوں کی عظیم ماں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کے ان تمام پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے جو مسلم بچیوں اور خواتین کیلئے ہی نہیں مردوں کیلئے بھی مشعل راہ ہیں ۔

سیدہ خدیجہؓ ہماری وہ عظیم ماں ہیں جو دور جاہلیت میں بھی طاہرہ کے لقب سے معروف تھیں ۔ کتاب میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عقل و فہم، دینداری ، ایمانداری ، اخلاص، ثابت قدمی، وفا شعاری اور مجاہدانہ کردار کو ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ گویا قاری اسی دور میں موجود ہے اور ام المئومنین کی زندگی کا بچشم خود مشاہدہ کر رہا ہے۔ کتاب میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کے اہم ترین واقعات کے ساتھ ساتھ ان کی اولاد اور اہل بیت کی زندگی پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔ اس سارے عمل میں تحقیق کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ضعیف و بے اصل واقعات سے اجتناب کیا گیا ہے۔

امید ہے یہ کتاب امت مسلمہ کی خواتین کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گی۔ دنیا بھر میں کوئی مسلمان ایسا نہیں جو خاتون اول ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نام اور تذکرہ سے آشنا نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ اسلامی کے اوراق گردانتے ہوئے ایسی بے شمار خواتین کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے شمع اسلام کی سربلندی اور دین حق کی دعوت کے لئے بے پناہ قربانیاں دیں اور تاریخ کے چہرے کو ضیاء بخشی ہے، تاہم ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان عظیم خواتین سے عظیم تر تھیں کیونکہ نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیﷺ نے اپنے اوپر پہلی وحی کا تذکرہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا ا ور کہا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے تو اس عظیم خاتون نے اپنی عظمت، شان اور حکمت کے عین مطابق نبی آخر الزمان ، رسول خداﷺ کو ان الفاظ میں حوصلہ دیا ۔

اللہ کی قسم ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ آپ کو ناکام اور نامراد کر دے، آپ کی مدد نہ کرے کیونکہ آپ صلہ رحمی کرنے والے ہیں، تھکے، ہارے اور درماندہ انسانوں کو ان کی منزل تک پہنچاتے ہیں، ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں، بے ٹھکانہ مسافروں کو اپنا مہمان بناتے ہیں اور حق بجانب امور میں معین و مدد گار رہتے ہیں ۔ پھر صرف ان ہی جملوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے سرتاج ، شریک حیات اور محسن انسانیت کو مکمل یقین دلانے کیلئے انہیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور سارا واقعہ سنا کر اللہ کے رسول ﷺ کو مزید تسلی اور حق پر قائم رہنے کیلئے ہمت بندھائی ۔ دعوت اسلام کو پھیلانے میں ہماری اس ماں کا نہایت معتبر کردار اس کتاب کے اوراق میں تاریخ اسلام سے الفت رکھنے والوں کو میسر آئے گا۔

اس عظیم خاتون کی تمام خوبیاں ایک طرف ۔ ان کی صرف یہی شان اور عظمت کافی ہے کہ نبی آخر الزمانﷺ نے جب اسلام کی دعوت پیش کی تو خواتین میں سے سب سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو قبول اسلام کا شرف حاصل ہوا۔ خاتون اول محض ایک تاجر ہی نہیں بلکہ نہایت مالدار، باوقار ، ذہین ، شریف ، معاملہ فہم اور دور اندیش خاتون تھیں ۔ انہو ں نے اپنا مال اللہ کی راہ میں قربان کر دیا، رسول اللہﷺ کی بیٹیوں کی نہایت عمدہ تربیت کا حق ادا کیا، حضرت خدیجہ کا مرتبہ اور مقام سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جنت کی سردار کہا ہے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت خدیجہؓ کے بطن ہی سے ہی دنیائے فانی میں تشریف لائیں۔ رسولﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اتنی محبت تھی کہ ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی ۔ وہ بلا شبہ نہایت امیر کبیر شہزادی بلکہ ملکہ تھیں مگر شعب ابی طالب میں رسول اللہﷺ کے ساتھ نہایت صبر و تحمل سے تین مشکل ترین سال گزارے ۔ زیر نظر کتاب ان مائوں ،بہنوں اور بیٹیو ں کے لیے لکھی گئی ہے جو امہات المئومنین رضی اللہ عنہا کے اسوہ حیات کو جاننا چاہتی ہیں ۔

اس کتاب کو خوبصورت ڈیزائن، بہترین سرورق ،عمدہ بائینڈنگ،آرٹ پیپر پر چہار کلر طباعت اور اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب اپنے مضامین اور طباعت کے اعتبار سے اتنی عمدہ،خوبصورت اور جاذب نظر ہے کہ بیٹیوں کو شادی بیاہ کے موقع پر تحفے میں دی جانی چاہئے۔ اس سے یقینا ہماری بچیاں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نقش دم چلیں گی۔ 

      (تبصرہ نگار: ارشاد احمد ارشد)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں