خطے میں رونما ہوتی نئی تبدیلیاں
افغانستان امریکا کی جانب سے غیر نیٹو اہم اتحادی کا مرتبہ حاصل...
افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے والوں کے لیے شاید یہ اچھی خبر نہ ہوکہ امریکا نے افغانستان کو غیر نیٹو اہم اتحادی قرار دے کر 2014ء کے بعد بھی اس خطے میں اپنی موجودگی کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس طرح افغانستان میں طالبان یا دیگر مذہبی عناصر کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ افغانستان امریکا کی جانب سے غیر نیٹو اہم اتحادی کا مرتبہ حاصل کرنے والا دنیا کا 15واں ملک ہے۔
اس سے قبل یہ مقام مصر، اسرائیل، آسٹریلیا اور جاپان کے علاوہ 2004ء میں پاکستان کو بھی دیا جا چکا ہے۔ اس سے افغانستان کو کیا فوائد حاصل ہوں گے یہ ایک الگ بحث ہے کیونکہ پاکستان یہ رتبہ حاصل کرنے کے باوجود امریکی حکام کی نظر میں اسرائیل یا مصر جیسی اہمیت حاصل نہیں کر سکا ہے۔
اس وقت اس بحث میں الجھے بغیر کہ افغانستان کو اس مقام کے ملنے سے کیا مراعات حاصل ہوں گی ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ اتوار (9جولائی) کو ٹوکیو میں افغانستان پر ہونے والی کانفرنس کے کیا نتائج برآمد ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اس کانفرنس میں پاکستان اور بھارت سمیت 70 سے زائد ممالک نے شرکت کی اور افغانستان کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے16بلین امریکی ڈالر کی امداد کا ایک چار سالہ منصوبہ منظور کیا یعنی چار بلین سالانہ کے حساب سے یہ رقم چار برسوں کے دوران افغانستان میں معاشی استحکام، سماجی ترقی اور سیکیورٹی فورسز کا معیار بلند کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن نے اس منصوبے میں امریکی حصہ کے بابت کچھ بتانے سے گریز کیا لیکن اب تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکی صدر اوباما نے2013ء میں افغانستان کے لیے کانگریس سے 2.5بلین ڈالر کی درخواست کی ہے جو 2012ء کے لیے منظورکردہ 2.2بلین ڈالر سے معمولی سی زیادہ ہے مگر امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا پر بڑھتے ہوئے معاشی دبائو کے باعث کانگریس شاید اس رقم میں کٹوتی کرے۔
ممکن ہے 2.2ڈالر ہی مختص کر دیے جائیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ ہلیری کلنٹن نے ٹوکیو کانفرنس میں امریکی حصے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔
اس سے قبل امریکا نے یورپی ممالک کے تعاون سے افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور انھیں جدید ہتھیاروں سے مسلح کرنے کے لیے 8ارب ڈالر کا ایک پیکیج تیار کیا تھا جس میں چار ارب ڈالر کا نیٹو اراکین کو حصہ ڈالنا تھا مگر اس منصوبے پر یورپی ممالک کی سرد مہری کے سبب کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی البتہ امریکا نے اپنے حصہ کی رقم سے افغان سیکیورٹی فورسز کی جدید خطوط پر تربیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ امریکا افغان سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی سے کلی طور پر مطمئن نہیں ہے لیکن مایوس بھی نہیں ہے۔ اسے توقع ہے کہ جس انداز میں ان سیکیورٹی فورسز کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے وہ 2014ء میں اپنی ذمے داریاں احسن طور پر سنبھال لیں گی۔
ٹوکیو کانفرنس کا بنیادی مقصد 2014ء کے آخر میں نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کو مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ کانفرنس گزشتہ مئی میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرنس کا تسلسل کہی جا سکتی ہے جس میں نیٹو افواج کے انخلاء کا ٹائم ٹیبل طے ہوا۔ چونکہ شکاگو کانفرنس کے بیشتر شرکاء کو خدشہ تھا کہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کی تخریبی کاروائیاں بڑھ جانے سے افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کی آماجگاہ بن سکتا ہے اس لیے کوشش کی گئی کہ مقامی سیکیورٹی فورسز کو جدید خطوط پر تیار کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی سیکٹر کو بھی اس قابل بنایا جائے کہ 2014ء کے بعد افغان حکومت اور سوسائٹی خود ان خطرات سے نمٹ سکیں۔ گزشتہ ماہ افغانستان کے مرکزی بینک کے گورنر نے اپنی رپورٹ میں استدعا کی تھی کہ ان کے ملک میں نظم حکمرانی کو بہتر بنانے، کرپشن کے خاتمے اور پائیدار معاشی ترقی کے لیے 7ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے جو عالمی ماہرین کے تخمینے کے مطابق بہت بڑی رقم تھی لہٰذا اس کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہی Donors چار بلین ڈالر سالانہ کے حساب سے 16بلین ڈالر امداد کے لیے ذہن بنا چکے تھے۔
لیکن افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی اور کرپشن کا خاتمہ ہے جس کے لیے حامد کرزئی پر امریکا سمیت مختلف حلیفوں کا پہلے سے دبائو چلا آرہا ہے۔ اس کانفرنس میں بھی مختلف ممالک کے نمایندوں کے علاوہ عالمی بینک کے مینجنگ ڈائریکٹر نے بھی کرپشن کے خاتمے اور حکمرانی کو بہتر بنانے پر زور دیا۔ یہی وجہ یہ کہ دی جانے والی کل امدادی رقم کا 20فیصد حصہ حکمرانی کو بہتر بنانے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ رقم کی ادائیگی سہ ماہی بنیادوں پر کی جائے گی اور Donors طے کردہ اہداف کے حصول کی رفتار کو وقتاً فوقتاً مانیٹر کرتے رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ اس کانفرنس کو Tokyo Mutual Accountability Framework کا نام دیا گیا ہے۔
افغانستان میں معاشی سرگرمیاں گزشتہ تیس برس سے تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے ملکی معیشت کا 97فیصد انحصار غیرملکی امداد پر ہے۔ صنعت کاری تو دور کی بات ہے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور تجارتی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کے لیے انفراسٹرکچر کی تعمیرنو بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ کام پاکستان احسن طور پر سرانجام دے سکتا تھا مگر پاکستان کے منصوبہ ساز افغانستان میں صرف تزویراتی گہرائی تلاش کرنے میں لگے رہے جس کا بھرپور فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ بھارت اس وقت افغانستان میں خاصی سرگرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے' وہ معاشی اور سماجی دونوں سیکٹروں میں خاصا فعال ہے' سڑکیں بچھانے سے فراہمی آب اور عمارتوں کی تعمیر تک ہر منصوبے میں غیرمعمولی سرعت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی اقدامات کو صرف افغان حکومت ہی نہیں بلکہ بعض طالبان گروپس نے بھی سراہا ہے۔
اس وقت بھارت کے ساتھ افغان تجارت کا حجم 500ملین ڈالر کے قریب ہے۔ 28جون کو دہلی میں کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کے اجلاس میں افغانستان میں مزید سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تجارتی حجم میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ یوں بھارت آنے والے دنوں میں افغانستان میں مزید اہمیت حاصل کرتا نظر آرہا ہے۔
دوسری جانب افغانستان پانچ ہزار سال سے مستعمل روایتی تجارتی راستے درہ خیبر سے بذریعہ واہگہ اٹاری بھارت کے ساتھ تجارت کا خواہشمند ہے۔ اس سلسلے میں وہ پاکستان کی جانب سے جواب کا منتظر ہے۔ اگر پاکستان اس روایتی تجارتی راستے کو کھولنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کا فائدہ صرف افغانستان ہی کو نہیں ہو گا بلکہ پاکستانی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہو گا کیونکہ پاکستان افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنی تجارتی روابط بڑھا کر تجارت کو مزید فروغ دے سکتا ہے لیکن پاکستانی منصوبہ ساز آج بھی 1980ء کے عشرے والی پالیسی کے تسلسل پر اصرار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ آج بھی افغانستان میں شدت پسند عناصر کو تقویت دینے کے لیے سرگرم ہے اور دفاع پاکستان جیسی تنظیموں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ یہ رویہ صرف امریکا ہی کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کا باعث نہیں بلکہ خطے کی دوسری قوتوں کی ناراضگی کا سبب بھی بن رہا ہے جس کا نقصان مسلسل پاکستان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو بیشک اس کانفرنس کے ذریعے وہ کئی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اول وہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں اپنی موجودگی کا جواز پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے جاپان اور بھارت کو افغانستان کی ترقی میں شریک کرکے چین کے اس خطے میں اثرونفوذ اور معاشی سرگرمیوں کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ تیسرے وسط ایشیائی ممالک سے تیل اور گیس کی افغانستان کے راستے بھارت منتقلی کا خواہشمند ہے جہاں اس کے بڑے بڑے صنعتی منصوبے زیرتکمیل ہیں لیکن یہ بھی طے ہے کہ چین یہ سب کچھ جاننے کے باوجود افغانستان میں مذہبی شدت پسند عناصر کی بالادستی کو قبول نہیں کرے گا بلکہ کوشش کرے گا کہ افغانستان میں ایک لبرل اور جمہوری حکومت قائم ہو جس کے ساتھ وہ معاملات طے کر سکے۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی سلامتی اور معاشی ترقی دونوں علاقائی تعلقات میں بہتری اور تجارت کے فروغ سے مشروط ہو چکی ہے اس لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطے اور عالمی سیاست کے رجحانات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور ایک فعال اور متحرک خارجہ پالیسی ترتیب دے کر ماضی کی پُرفریب حکمت عملیوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرے جن کی وجہ سے اسے ان گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔