میں بھارت کے خلاف کچھ نہیں کہوں گا،اگر کچھ کہہ دوں تو مجھے اندازہ ہے ،میرے ملک کے تاجر ناراض ہوجائینگے،جو پڑوسی ملک سے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔سیاستدان ناراض ہوجائینگے کیوں کہ انہیں بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ نے یقین دہانی کرادی ہے کہ تمہارا فائدہ مضبوط بھارت سے ہی وابستہ ہے اور کچھ سخت کہہ دوں تو وہ مائنڈ سیٹ ناراض ہوجائے گا جو پاکستان میں'' میرا بھارت مہان ''کی مالا جپتا رہتا ہے،ان میں کچھ کی چڑیاؤں کے بین الاقوامی رابطے بھی ہیں۔اور یہ کسی کو بھی دنیا کے امن کا دشمن قرار دے سکتے ہیں اور پھر اس کے خلاف کون کون آپریشن کریگا یہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔
اس لیے چلیں انڈین فلم انڈسٹری پر بات کرتے ہیں، ہر جمعے ریلیز ہونے والی بھانت بھانت کی فلموں کی کہانیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں،سو کروڑ کلب میں کونسی فلم شامل ہوگئی،اس کو موضوع بحث بناتے ہیں،بھارتی ڈراموں میں ساس ، بہو، بھابھی ،باجی ، جھٹانی اور دیورانی کی سیاست ، کرائم شوز اور سی آئی ڈی کے کمالات سے ذہن کو تازہ کرتے ہیں۔ممبئی ، دلی، چندی گڑھ، بنگلور ،کرناٹک اور کولکتہ کی ترقی پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ بس کوشش کریں کہ بھارت کے ہاتھوں پاکستان میں دہشتگردی، اس کی پڑوسی کے پانی پر دھڑا دھڑ ڈیم بنانے کی کارروائی اور کشمیر، گجرات ، اعظم گڑھ سمیت کئی علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام اور تشدد لب پر نہ آسکے ۔ اگر ایسا ہوا تو آپ اس طعنے کیلئے تیار ہوجائیں کہ آپ بھارت کی ترقی ، خوشحالی اور اس کی طاقت سے حسد کرتے ہیں۔ ہاں وہ بھی اس بھارت کی ترقی ، خوشی اور طاقت سے جس میں باتھ رومز کا کال پڑا ہوا ہے،کرپشن اور خواتین کو بے آبرو کرنے کی خبریں ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں،جس میں علیحدگی کی ایک دو نہیں دو درجن کے قریب تحریکیں چل رہی ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف ،تاجروں ، سیاستدانوں اور خاص مائنڈ سیٹ کے پروردہ قابل عزت عناصر کی میری اس ساری گفتگو سے ناراض نہ ہوجائیں اس سے وضاحت ضروری ہے کہ آج میں بھارت سے متعلق اس انداز سے گفتگو کیوں کررہا ہو۔تو لیجئے!۔ بھارت کے نئے آرمی چیف دلبیر سنگھ سہاگ نے عسنہدہ سنبھالتے ساتھ ہی پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کردیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ''سرحدی جھڑپوں ( اطلاعات کے مطابق جن کا اکثر آغاز بھارت ہی کرتا ہے) میں ہلاک بھارتی فوجیوں کا بھرپور بدلہ لیا جائیگا۔ خاص طور پر سرحدی کشیدگی کے دوران پکڑے جانیوالے مبینہ بھارتی فوجی کے سر کاٹنے کا بدلہ لینے کا تو آغاز بھی کردیا گیا ،کیونکہ ہم ایسی کارروائیوں کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتے،اور جب ہم طاقت کے استعمال کی بات کرتے ہیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی کئی اقسام ہیں،بھارتی فوجیوں کو اہداف کے مطابق مناسب ہتھیار اور دیگر آلات سے لیس کررہے ہیں''۔
پاکستان میں بسے کئی'' دلوں کی دھڑکن'' جناب دلبیر سنگھ سہاگ سے میں تو صرف اتنی ہی گزارش کروں گا کہ آپ بلا شبہ فوج میں 1974ء سے ہیں مگر جس عہدے پر آپ نئے نئے لگے ہیں،اس کے معاملات کو سمجھیں، بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان امن کے قیام کی کوششوں کو آگے بڑھنے دیں۔ آپ کے کریڈیٹ پر ''آپریشن پون ''، کشمیر کی دوسالہ کارروائیاں اور کارگل ہے توتھوڑے حوصلے اور عقل کا استعمال کریں،ذہن کے کسی کونے میں موجود یہ بات دہرائیں کہ جنگ سے آج تک کسی کا بھی بھلا نہیں ہوا۔پاکستان تو پہلے ( امریکا، طالبان، افغانستان اور بھارت ) کی طرف سے پیدا کی گئی جنگ میں مبتلا ہے ،اس کی ترقی کا سفر رک گیا ہے، مگر آپ کے حکمران تو شائننگ انڈیا کے خواب تعبیر تلاش کررہے ہیں، بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ آپ کو چین کے مدمقابل دیکھنا چاہتی ہے تو اپنا فوکس درست کریں،آپ کے اس طرح کے بیانات کہیں آپ کواصل راہ سے ہٹا نہ دیں۔ مسلم دشمنی میں کہیں آپ بھارتیوں کے دشمن نہ بن جائیں۔ کیونکہ چھوٹا بڑا اسلحہ صرف آپ کے ہی پاس نہیں پاکستان بھی تو اسے رکھتا ہے۔اس لیے دلبیر سنگھ صاحب سوچ کر بولیں تو اچھا ہے۔میرے پاس تو کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے پر میں ڈرتا ہوں تاجروں سے بھارت دوست سیاستدانوں سے اورآپ کے دوست بین الاقوامی مائنڈ سیٹ سے کہیں وہ مائنڈ نہ کر جائیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔