پاکستان ایک نظر میں کسی کا واحد کفیل گیا تو کسی کا لاڈلا

ایک دوسرے پر بہادری اور سبقت لے جانے کے چکر میں نوجوان گہرے سے گہرے پانی میں اپنی زندگیوں کا خطرہ مول لیتے ہیں۔


محمد عمیر دبیر August 02, 2014
ایک دوسرے پر بہادری اور سبقت لے جانے کے چکر میں نوجوان گہرے سے گہرے پانی میں اپنی زندگیوں کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

سانحہ سی ویو کراچی کا کوئی پہلا سانحہ نہیں۔ اِس سے پہلے کئی بار اسی جگہ پر کئی ایسے سانحات پیش آئے ہیں جس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ۔ اور ہر دفعہ کے سانحے کے بعد حکومتی اداروں کی طرف سے مذمتی بیانات، امداد کا اعلان ، تحقیقات کا حکم اور پھر فائل ردی کی نظر۔ کچھ سالوں پہلے سی ویو سے منسلک روڈ پر موٹرسائیکل رائیڈرز کا ایکسڈینٹ ہوا۔ جس کے نتیجے میں کئی نوجوانوں کی جانوں کا ضیاع ہوا۔ شروع میں تو اس روڈ پر موٹر سائیکل سواروں کی تیز رفتار رائیڈنگ پر پابندی لگا دی گئی لیکن بعد میں پھر وہی ہوا جو پاکستان میں ہوتا ہے کہ مطلب وہی کام اُس سے زیادہ زور وشور سے باقاعدہ طور پر شروع کر دیا گیا۔

یعنی کراچی کے نوجوان شہری ہر تعطیل سے پہلے آنے والی رات کو اپنی موٹر سائیکلوں کا رخ سی ویو کی جانب کرتے ہیں اور آپس میں شرطیں لگا کراور موت سے بے خوف ہوکر گاڑیا ں چلاتے ہیں۔ہر ہفتہ یا کسی خاص دن کے موقع پر یہاں پر نوجوانوں کا بے پناہ رش ہوتا ہے۔ بہت سے نوجوان شراب کے نشے میں دھت ہوتے ہیں اور باقی تقریبا لوگ سگریٹوں اور دیگر منشیات پر اپنا گزارا کر رہے ہوتے ہیں۔شاید ہی کوئی ایسا جرم ہو جو یہاں نہ ہوتا ہو۔ رہی پولیس کی بات تو جو ہاتھ آیا اُس سے اپنا حصہ لے کر ایک سائٹ کھڑے ہوکر اُسی شخص کی چوکیداری پر مامور ہوجاتے ہیں۔ یہاں نوجوان ٹولیوں کی شکلوں میں پہنچتے ہیں۔ جسکے باعث لڑائی جھگڑا اور مار کٹائی کو ئی بڑی بات نہیں۔ ہاں جب بات حد سے بڑھ جائے تو شدید زخمی حالت میں لڑکوں کو درخشاں تھانے کی نفری اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ کراچی کے رہائشی اول تو یہاں ایسے مواقعوں پر نہ صرف خود جانے سے گریز کرتے ہیں بلکہ انکی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنی فیملیز کو بھی عام دن میں لے جایا جائے۔

عموماً سمندری تفریح کے مواقعوں پر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ نوجوان پانی کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، اور ایک دوسرے پر بہادری اور سبقت لے جانے کے چکر میں گہرے سے گہرے پانی میں اتر کر اپنی زندگیوں کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ شاید اس بار عید پر بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہو محکمہ موسمیات کی جانب سے پابندی کے باوجود نوجوان بڑی تعداد میں کراچی کے ساحل سمند ر پر پہنچے۔ پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے پانی کافی پیچھے ہوگیا تھا۔

ساحل سے صرف 40کلومیٹر دور سانحہ والی جگہ پر مشرف دور کے بلدیاتی دور میں کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے حوالے سے ایک پروجیکٹ کے لئے 40سے 80 فٹ کی کھدائی کی گئی تھی ۔ اسکے بعد اس منصوبے پر کوئی کام نہ کیا گیا اور نہ ہی اس کھائی کو مٹی سے بھرا گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ کوئی بورڈ اور کوئی خطرے کا نشان تک آویزاں نہ کیا گیا تھا۔ ابھی پانی کمر تک پہنچا ایک بڑی لہر نے ان سب نوجوانوں کو بے قابو کر کے سمندر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔ بس تھوڑی دور ہی جاکر یہ کہائی ہے ۔ یہی ان نوجوانوں کی موت کا باعث بنی۔ جنکی تعداد کم و بیش 40کے قریب ہے۔

اس سانحہ کا مورود الزام کسی کو بھی ٹھرانا غلط ہوگا۔ تاہم یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اگر اسکے بعداگر بلدیاتی نظام کو اسی طرح چلنے دیا جاتا تو شاید یہ یا پھر تھر جیسے واقعات نہ ہوتے۔ سندھ کی حکومت اسطرح کے واقعات سے بچنے کے لئے جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروائے تاکہ عوام کو بھی صیح معنوں میں ریلیف مل سکے۔ حکومت سندھ نے اس سانحہ میں سوائے امداد ی اعلان کے اپنا کوئی کردار اد ا نہیں کیا ۔ امدادی کاموں کے حوالے سے پاکستان نیوی ، کے کے ایف، ایدھی اور صرف ایک سیاسی جماعت کاریلیف کیمپ قابل تعریف تھا۔ جو متاثرین کی ہر صورت مدد کر رہے تھے۔

جبکہ اس حلقے NA-250(تحریک انصاف) کے ایم این اے ٹوئیٹر پر بیٹھ کر صرف الزام تراشیوں اور PS-113 تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے وزیر تینوں دن ایسے غائب رہے جیسے انکا تعلق ہی نہیں۔ ساتھ ہی سندھ حکومت کے وزراء کے پاس ٹائم نہیں تھا کیونکہ وہ اپنی عید منانے میں بے حد مصروف تھے۔ جبکہ عید کے موقع پر پولیس والے بھی موٹر سائیکل سواروں سے عیدیاں بٹورنے کی ڈیوٹیوں میں مصروف تھے۔

خدا را عوام کے ووٹوں سے آنے والے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور عوام کے لئے بغیر کسی سیاسی مقاصد کے اپنے کام کر کے دکھائیں تاکہ پتا چلے کہ واقعی سندھ حکومت (پیپلز پارٹی ) بھی جمہوری طرز کی حکومت ہے۔ اللہ تعالی ایسے سانحات سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین



نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں