دنیا بھر سے اقوام متحدہ محض چند ٹھیکیداروں کا ایک ’’کلب‘‘

اقوام متحدہ کی بے بسی نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ بڑے سے بڑا ادراہ اور حکومت بھی ایک اسرائیل سے زیادہ طاقتور نہیں ہے

جس کسی نے بھی غزہ کی صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اُس کی آنکھیں اشکبار ہوئی ہیں چاہے پھر وہ اینکرز ہوں، رپورٹرز یا غزہ میں اقوام متحدہ کے ترجمان۔ فوٹو: ایکسپریس

اگر آپ اپنے سینے میں دل رکھتے ہیں اور وہ دھڑکتا بھی ہے تو آپ اُس ظلم، بربریت،وہشت اور درندگی کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے جس کا مظاہرہ اسرائیلی افواج فلسطین میں کر رہی ہے۔ اور اگر آپ کی آنکھ میں ان نہتوں کے ساتھ ڈھائے جانیوالے مظا لم دیکھ کر نمی نہیں آتی تو یقین کر لیجیے،آپ مر چکے ہیں۔

حالیہ صورتحال دیکھ کر یقیناًکافی لوگوں کی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی ہو گی کہ اقوام متحدہ کوئی با اختیار ادارہ ہے اور یہ اقوام عالم میں اتحاد و یگانگت کا ضامن ہے۔ اور یہ بات تو کسی چٹکلے سے کم نہیں کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کا محافظ ادارہ ہے۔ یو۔این کے رویے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دنیا کے تمام باسی انسان ہیں اور مسلمان کوئی فروتر مخلوق ہیں جن کے کوئی حقوق نہیں اور نہ ہی یہ انسان کہلائے جانے کے قابل ہیں۔

گزشتہ روز اسرائیلی درندوں نے بزدلی کی بد ترین مثال قائم کرتے ہوئے غزہ میں متاثرہ کیمپوں پر بھی بم برسائے جن میں زخمی عورتوں اور بچوں سمیت پندرہ افراد جاں بحق ہوئے۔ان متاثرہ کیمپوں کی دیکھ بھال کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ریلیف اینڈ ورک کے ترجمان کرس گنیز سے جب حملے کی تفصیلات پو چھی گئیں تو وہ کچھ بول نہ پائے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اُنہوں نے اسرائیلی افواج کے ظلم و بربریت کا نشانہ بننے والے معصوم بچوں کی نعشوں کو دیکھا تو بیان ریکارڈ کروانے کی خواہش ظاہر کی مگر وہ دوران بیان اسرائیلی ظلم و ستم کے حوالے سے زور زور سے روتے رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک عام فرد کی طرح ان کی ہمدردیاں بھی فلسطینییوں کے ساتھ ہیں۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے اور حملوں میں یو۔این۔آر۔ڈبلیو کے بھی پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جب سے یہ خبر اور کرس گنیز کا انٹرویو سامنے آیا ہے، اقوام متحدہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف سے شدید مذمتوں کا سلسہ شروع ہوا جس میں سب لوگوں نے یو۔این۔آر۔ڈبلیو کے پانچ اہلکاروں کی موت پر گہرے غم و غصہ کا اظہا کیا۔ مگر ان سب امن کے ٹھیکیداروں نے اُس ظلم اور بربریت پر ایک لفظ نہیں کہا جس نے اب تک ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں برباد کیں ہیں اور بے شمار بچوں کو یتیم کیا ہے۔ ان سب کے خون اور جان سے زیادہ قیمتی وہ چند جانیں ہیں جن کا تعلق امن کے ان ٹھیکاداروں سے تھا۔ آپ اس بات پر بھی ماتم کیجیے کہ ہمارے نزدیک اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی آہ و بکا،فریادوں اور آنسووں سے زیادہ قیمتی اور قابل بھروسہ وہ آنسو ہیں جو کرس گنیز کی آنکھوں سے جاری ہوئے اور جنہوں نے سوشل میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ہم ایک غیر مسلم کے جذبات سے تو اشتعال میں آسکتے ہیں مگر اپنے ہی بھائیوں کی آہ وزاری ہمیشہ ہماری غیرت بیدار کرنے میں ناکام رہی ہے۔


یہاں یہ بات بھی جان لیجیے کہ میڈیا پرسنز اور اہم اداروں کے ترجمان صاحبان کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے اور مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی غیر جانبدار رہنے اور کسی قسم کے ذاتی رد عمل کا اظہار نہ کرنے کی خاص تربیت دی جاتی ہے مگر میں نے جتنے اینکر پرسنز کو غزہ کی صورتحال پر لائیو رپورٹنگ کرتے ہوئے جذباتی ہوتے دیکھا ہے،اُتنا کسی اور موقع پر دیکھنے میں نہیںآیا۔ اور جب آپ کے سامنے انسانوں کے سر ہواوٗں میں اُڑ رہے ہوں، انسانی اعضاء جابجا بکھرے پڑے ہوں،چلتے پھرتے انسانوں کے ماتھے،ہونٹوں اور آنکھوں میں گولیاں پیوست ہوتی دکھائی دیں، ماں باپ اپنے دو ٹکروں میں تقسیم بچوں کو اُٹھائے رو رہے ہوں،نومولود بچوں کو آپ یتیم ہوتا دیکھیں،چار فٹ کے نحیف بچے کو ٹینک کے نیچے کچلتا پائیں،چھوٹی بچیوں کی انتڑیوں کو اُن کے ہاتھ میں پکڑا دیکھیں،جہاں موت اپنی بھیانک ترین شکل میں ناچ رہی ہو اور جہاں آپ زخمی جسموں سے،خون آلود اور تڑپتی روہوں کو پرواز کرتا دیکھیں،وہاں آپ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے،غیر جانبدار نہیں رہ سکتے اور اپنے آنسووٗں کو نہیں روک سکتے ۔

اقوام متحدہ کی بے بسی نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ بڑے سے بڑا ادراہ اور حکومت بھی ایک اسرائیل سے زیادہ طاقتور نہیں ہے،یہ اُن کے مارے جانے والوں کو دفنا تو سکتے ہیں،مگر اُنہیں مارنے سے نہیں روک سکتے۔ اب یو۔این کو یہ مان لینا چاہیے کہ اب وہ اقوام عالم کا معتمد نہیں دنیا کے چند ٹھیکیداروں کا کلب بن چکا ہے۔اُس کے پاس اب مسلمانوں کی نمائندگی کا بھی کوئی حق نہیں۔۔۔ اُس کی کوئی حیثیت نہیں اور اُس کی اوقات ایک فریادی سے زیادہ نہیں رہی۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story