دنیا بھر سے مغربی طرزِ سیاست
مغربی طرزِ سیاست کے اس ملامتی روایت کا تازہ ترین شکار ترکی کے طیب اردگان ہوئے ہیں ۔
کارزارِ سیاست ہو یا کارِ عشق ہردو میدانوں کے جگر آزماؤں کو ملامتوں اور تہمتوں کے تیر کھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے اس لیے گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہونے کی صفت ان کے اند ر بدر جہ اتم موجود ہوتی ہے ۔ ان میدانوں کے شاہ سوار دشنام کو انعام سمجھ کر سینے سے لگاتے ہیں کیوں کہ گالیاں ان کے لیے مفت کی ناموری کا سامان لے کر آتی ہیں۔
دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اپنی سیاسی زندگی میں کبھی نہ کبھی تہمتوں کے اس جوہڑ سے گزرنا پڑتا ہے ۔بہت کم سیاستدان تدبر کی کاریگری سے اپنا دامن ان ملامتی آلائشوں سے بچا پاتے ہیں ۔ مغرب کے آزاد منش معاشرے ہوں یا روایتوں کے پابند مشرقی معاشرے اپنے سیاسی لیڈروں سے کچھ ایسی الوہی صفات کی توقع رکھتے ہیں جو انسانوں کے اندر کم ہی پائی جاتی ہیں ۔ یہ خود ہر گناہ اور خطا کواپنے لیے جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کو ہر قسم کی خطاؤں سے مبرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران خصوصاتہمتوں کا بازار خوب دہکتا ہے ۔ لیڈری کے خواہش مند امیدواروں کی زندگیوں کے ایسے ایسے خفیہ اور خفتہ گوشوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی ایسی پردہ دری کے بعد کسی کو مونہہ دکھانے کے قابل نہ رہے لیکن لیڈری کے خواہش مند یہ امیدوار چونکہ عام لوگو ں سے بلند ہوتے ہیں اس لیے یہ مونہہ چھپانے کی بجائے اسی مونہہ کے اشتہا ر چھپوا کر گلی کوچوں میں چپکا دیتے ہیں اور پھر اسی مونہہ سے لوگوں سے گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے ہیں۔
مغربی طرزِ سیاست کے اس ملامتی روایت کا تازہ ترین شکار ترکی کے طیب اردگان ہوئے ہیں ۔ جرمنی میں قائم ایک ترک نائٹ کلب نے طیب اردگان کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ اس نائٹ کلب نے اپنی ویب سائٹ پر 'باذوق' لوگوں کو اگلے مہینے ہونے والے ترکی کے صدارتی انتخابات میں طیب اردگان کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیتے ہوئے ایک سال کی مفت ممبر شپ کی پیش کش کی ہے ۔ سیاسی مبصرین حیران ہیں کہ شراب و کباب کی بیخ کنی کرنے والے طیب اردگان کے صدر بننے میں مے خواروں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ۔
سیکولر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یر غمال ترکی کی گھٹن زدہ سیاست میں طیب اردگان اور ان کی جسٹس پارٹی2003 میں بہارِ نو کا وہ جھونکا بن کر آئی تھی جس نے نہ صرف ترکی کی سسکتی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ بہت سرعت سے ترکی کے اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے بھی کام کیا۔ مسلسل تین دفعہ وزیراعظم منتخب کرنے کے بعد اس سال یکم جولائی کو جسٹس پارٹی نے طیب اردگا ن کو اپنا صدارتی امیدوار منتخب کر کے سیاسی مخالفوں کو بھونچکا ہونے پر مجبور کر دیاہے۔ جہاں عوام میں طیب اردگا ن کی مقبولیت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے وہیں ان کے مخالفین کی فرسٹریشن بھی عروج پر ہے ۔
نائٹ کلب والا قضیہ اسی فرسٹریشن کا ایک بیہودہ اظہار ہے۔ گذشتہ سال مصری ہنگاموں سے متاثر ہو کر ترکی کے انتشار پسندوں نے بھی طیب اردگان کے خلاف طوفان برپا کرنے کی کوشش کی تھیں ان پر کر پشن کے کن ٹٹے الزامات لگانے کی سازشیں بھی کی گئیں لیکن اردگان کی سیاسی بصیرت نے مخالفین کی حسرتوں کو بن کھلے ہی مرجھانے پر مجبور کر دیا۔ نائٹ کلب والی شرارت طیب اردگان کے روایتی ووٹروں کوبد ظن کرنے کی ایک ایسی ہی مضحکہ خیز کوشش ہے جس سے اردگان کی صحت پر یقیناًکوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مخالفین کے اوچھے واروں سے بچ نکلنا اردگان کی بقا کے لیے ضروری ہے کیونکہ ان کے ملک کا مستقبل بھی اسی سے جڑا ہے۔ ترکی کے شکستہ حال مسلم امہ کا مستقبل طیب اردگان ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اپنی سیاسی زندگی میں کبھی نہ کبھی تہمتوں کے اس جوہڑ سے گزرنا پڑتا ہے ۔بہت کم سیاستدان تدبر کی کاریگری سے اپنا دامن ان ملامتی آلائشوں سے بچا پاتے ہیں ۔ مغرب کے آزاد منش معاشرے ہوں یا روایتوں کے پابند مشرقی معاشرے اپنے سیاسی لیڈروں سے کچھ ایسی الوہی صفات کی توقع رکھتے ہیں جو انسانوں کے اندر کم ہی پائی جاتی ہیں ۔ یہ خود ہر گناہ اور خطا کواپنے لیے جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کو ہر قسم کی خطاؤں سے مبرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران خصوصاتہمتوں کا بازار خوب دہکتا ہے ۔ لیڈری کے خواہش مند امیدواروں کی زندگیوں کے ایسے ایسے خفیہ اور خفتہ گوشوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی ایسی پردہ دری کے بعد کسی کو مونہہ دکھانے کے قابل نہ رہے لیکن لیڈری کے خواہش مند یہ امیدوار چونکہ عام لوگو ں سے بلند ہوتے ہیں اس لیے یہ مونہہ چھپانے کی بجائے اسی مونہہ کے اشتہا ر چھپوا کر گلی کوچوں میں چپکا دیتے ہیں اور پھر اسی مونہہ سے لوگوں سے گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے ہیں۔
مغربی طرزِ سیاست کے اس ملامتی روایت کا تازہ ترین شکار ترکی کے طیب اردگان ہوئے ہیں ۔ جرمنی میں قائم ایک ترک نائٹ کلب نے طیب اردگان کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ اس نائٹ کلب نے اپنی ویب سائٹ پر 'باذوق' لوگوں کو اگلے مہینے ہونے والے ترکی کے صدارتی انتخابات میں طیب اردگان کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیتے ہوئے ایک سال کی مفت ممبر شپ کی پیش کش کی ہے ۔ سیاسی مبصرین حیران ہیں کہ شراب و کباب کی بیخ کنی کرنے والے طیب اردگان کے صدر بننے میں مے خواروں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ۔
سیکولر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یر غمال ترکی کی گھٹن زدہ سیاست میں طیب اردگان اور ان کی جسٹس پارٹی2003 میں بہارِ نو کا وہ جھونکا بن کر آئی تھی جس نے نہ صرف ترکی کی سسکتی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ بہت سرعت سے ترکی کے اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے بھی کام کیا۔ مسلسل تین دفعہ وزیراعظم منتخب کرنے کے بعد اس سال یکم جولائی کو جسٹس پارٹی نے طیب اردگا ن کو اپنا صدارتی امیدوار منتخب کر کے سیاسی مخالفوں کو بھونچکا ہونے پر مجبور کر دیاہے۔ جہاں عوام میں طیب اردگا ن کی مقبولیت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے وہیں ان کے مخالفین کی فرسٹریشن بھی عروج پر ہے ۔
نائٹ کلب والا قضیہ اسی فرسٹریشن کا ایک بیہودہ اظہار ہے۔ گذشتہ سال مصری ہنگاموں سے متاثر ہو کر ترکی کے انتشار پسندوں نے بھی طیب اردگان کے خلاف طوفان برپا کرنے کی کوشش کی تھیں ان پر کر پشن کے کن ٹٹے الزامات لگانے کی سازشیں بھی کی گئیں لیکن اردگان کی سیاسی بصیرت نے مخالفین کی حسرتوں کو بن کھلے ہی مرجھانے پر مجبور کر دیا۔ نائٹ کلب والی شرارت طیب اردگان کے روایتی ووٹروں کوبد ظن کرنے کی ایک ایسی ہی مضحکہ خیز کوشش ہے جس سے اردگان کی صحت پر یقیناًکوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مخالفین کے اوچھے واروں سے بچ نکلنا اردگان کی بقا کے لیے ضروری ہے کیونکہ ان کے ملک کا مستقبل بھی اسی سے جڑا ہے۔ ترکی کے شکستہ حال مسلم امہ کا مستقبل طیب اردگان ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔