آزادی اظہارِ رائے
اس انتہا پسندی کے خلاف خود امریکا 10 سال سے جنگ کر رہا ہے
مسلم ملک پہلے ہی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہیں اور مسلم ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کی ذمے داری امریکا پر عاید کی جا رہی ہے۔
اس انتہا پسندی کے خلاف خود امریکا 10 سال سے جنگ کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرنے والا امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں میں تسلسل کے ساتھ مذہب اسلام اور اس کے اکابرین کے خلاف ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں کہ مسلم ملکوں میں ایک بھونچال آ جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک شوشہ ایک فلم کی شکل میں چھوڑا گیا ہے۔ اس فلم کے خلاف مسلم ملکوں میں پر تشدد مظاہروں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس میں اب تک کئی لوگ ہلاک اورسیکڑوں مظاہرین زخمی ہو چکے ہیں اور مشتعل مظاہرین پٹرول پمپوں، بینکوں، گاڑیوں کو نذر آتش کر رہے ہیں اور احتجاج کا یہ سلسلہ پھیلتا اور شدت پکڑتا چلا جا رہا ہے۔
ان تشدد آمیز مظاہروں کی سنگینی کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ لیبیا میں متعین امریکی سفیر کو مشتعل مظاہرین نے قتل کر دیا۔ مصر، تیونس، افغانستان، پاکستان، ترکی سمیت کئی مسلم ملکوں میں امریکی سفارت خانوں کے باہر مظاہرے کرنے کی کوشش کی گئی۔ کراچی میں مشتعل مظاہرین کو امریکی قونصل خانے جانے سے روکنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور فائرنگ جیسے سخت اقدامات کیے۔ کراچی میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 24 افراد جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
صوبہ سندھ سمیت تینوں صوبوں میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ وکلا برادری نے عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ جن میں اقلیتی آبادی بھی شامل ہے، پر تشدد مظاہروں میں شامل ہیں۔ مذہبی جماعتیں ان مظاہروں کی قیادت کر رہی ہیں۔ اس صورتِ حال کا ایک سنگین پہلو یہ ہے کہ وہ اعتدال پسند بھاری اکثریت بھی سڑکوں پر آ جاتی ہے جو عموماً انتہا پسندانہ سرگرمیوں سے دور رہتی ہے۔
امریکی حکومت اور امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ اس گستاخانہ فلم سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں لیکن مسلم ممالک کے عوام اس حکومتی موقف کو عذرِ لنگ سے تعبیر کرتے ہیں اور یوں سارے مسلم ملکوں میں امریکا کے خلاف پہلے سے موجود نفرت میں اور شدت آ جاتی ہے۔ مغربی ملکوں میں مذہبِ اسلام کے خلاف آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کی جاتی ہے جو مسلم ملکوں میں بھونچال پیدا کر دیتی ہے۔
اس حوالے سے ترقی یافتہ مغربی ملک اس موقف کو دہراتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے معاشروں میں چونکہ اظہارِ رائے کی آزادی ہے، اس لیے اس آزادی کے خلاف کوئی کارروائی ممکن نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادیٔ فکر اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے بغیر کوئی ملک منطقی طور پر ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا، اور ہم بھی آزادی فکر، آزادی اظہار رائے کو معاشرتی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں لیکن خود مغربی سیاسی مفکرین کا اس حوالے سے یہ اصرار ہے کہ آزادیٔ فکر و اظہار انسانی معاشروں کے اندر فساد اور نفرتوں کا سبب بنتے ہیں تو ایسی آزادیاں انسانوں کے اجتماعی مفادات کے لیے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن جاتی ہیں۔
امریکا دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے اس حوالے سے اس سپر پاور پر یہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ آزادیٔ فکر و اظہار کو اتنی چھوٹ نہ دے کہ یہ آزادی دوسری قوموں کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے اور اس شدّت پسندی میں اور اضافہ ہوجائے جس سے ساری دنیا پہلے ہی پناہ مانگ رہی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ وہ امریکا جو دہشت گردی کے خلاف 11-10 برسوں سے جنگ لڑ رہا ہے، کیا اس کے کرتا دھرتائوں کو یہ احساس نہیں کہ مسلم ملکوں میں موجود انتہا پسند طاقتوں کو مذہبِ اسلام کے خلاف اس قسم کی حرکتوں سے اور تقویت حاصل ہوتی ہے، حتیٰ کہ اس قسم کی طفلانہ حرکتوں سے وہ اعتدال پسند بھاری اکثریت بھی شدّت پسندوں کے ساتھ سڑکوں پر کھڑی نظر آتی ہے جو عام حالات میں شدّت پسندی کے خلاف مزاحمتی رویے رکھتی ہے۔ آج اگر مسلم ملکوں میں ہونے والے ان مظاہروں پر نظر ڈالیں تو یہ خطرناک حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ امریکا کے خلاف ہونے والے ان پر تشدد مظاہروں کی قیادت عموماً شدّت پسند کر رہے ہیں اور اعتدال پسند اکثریت ان کی طاقت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
القاعدہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے اعصاب پر ایک خوف ناک بھوت کی طرح سوار ہے۔ ہم اس متنازع بحث میں پڑے بغیر اس فلم کے حوالے سے اخباروں میں شایع ہونے والی سیاسی مبصرین کی یہ رائے پیش کر رہے ہیں جس کے مطابق ''اس متنازع فلم نے القاعدہ جیسی شدّت پسند تنظیموں کو اسلام کے دفاع اور تحفظِ ناموسِ رسالت کے حوالے سے مغربی مفادات پر حملوں کا موقع فراہم کر دیا ہے، گستاخانہ فلم ایک ایسے وقت میں منظرعام پر آئی ہے، جب القاعدہ کی چوٹی کی قیادت پر پاکستان، یمن، الجزائر، مالی وغیرہ میں کاری ضربیں لگائی جا رہی ہیں۔ ایسے موقعے پر اس فلم نے شدّت پسند طاقتوں کی رگوں میں نیا خون دوڑا دیا ہے۔''
امریکا کے طول و عرض میں تھنک ٹینک اسی طرح پھیلے ہوئے ہیں جیسے ہمارے شہر کراچی میں ناگوری ملک شاپس پھیلی ہوئی ہیں اور دنیا کے پس ماندہ ملکوں کو یہ امریکی تھنک ٹینک نظریاتی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ کیا ان تھنک ٹینکوں کو جن کی خدمات سے امریکی حکومتیں بھی رہنمائی حاصل کرتی ہیں، اتنا شعور بھی حاصل نہیں کہ پس ماندہ ملکوں کے عوام گستاخانہ فلموں، گستاخانہ خاکوں وغیرہ کی وجہ سے شدّت پسندوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگ جاتے ہیں۔
ہمارا خطّہ خاص طور پر پاکستان اور افغانستان ایک انتہائی مشکل نظریاتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، ایک طرف وہ طاقتیں ہیں جو بارودی گاڑیوں، خودکش حملوں، ٹائم بموں کے ذریعے اس خطے کے کروڑوں عوام کو جہل کے اندھیروں میں دھکیلنے کی انتہائی مخلصانہ کوششیں کر رہی ہیں، دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جو ان ملکوں، ان معاشروں کو ذہنی پس ماندگی سے نکال کر جدید علوم، سائنس و ٹیکنالوجی، تحقیق و ایجاد کے راستے پر ڈال کر اپنے ملکوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت نے ہمیشہ ترقی اور بہتر مستقبل کی طرف جانے والوں کا ساتھ دیا ہے جس کا ثبوت 1970 سے 2008 تک کے انتخابی نتائج کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ لیکن امریکا اور اس کے حواری ملک وقفے وقفے سے گستاخانہ فلموں، گستاخانہ خاکوں کے ذریعے اعتدال پسند مسلم عوام کو شدّت پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ کیا ان حرکتوں کی سنگینی اور مستقبل پر اس کے اثرات سے مغربی حکمران اور دانشور واقف ہیں؟