اسرائیلی بربریت کے خلاف عالم اسلام متحد ہو
غزہ میں اسرائیلی بربریت کے جارحانہ حملے جاری ہیں، اسرائیل نے جنگ بندی بارود میں اڑا دی اور مزید 92 فلسطینی شہید کردیے
غزہ میں اسرائیلی بربریت کے جارحانہ حملے جاری ہیں، اسرائیل نے جنگ بندی بارود میں اڑا دی اور مزید 92 فلسطینی شہید کردیے، جس سے شہدا کی مجموعی تعداد 1550 ہوگئی ہے، 3 دن کی جنگ بندی 3 گھنٹے ہی برقرار رہ سکی۔ عید کے موقع پر بھی فلسطینی اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہے۔
اسرائیل کی اس ننگی جارحیت پر ہر معصوم دل مغموم ہے اور دنیا بھر کے امن پسند عوام اسرائیل کے اس مذمومانہ فعل کی مخالفت کررہے ہیں، غیر ملکی میڈیا، اخبارات اور سوشل نیٹ ورکس پر بھی اسرائیل کی اس بربریت کی مذمت کی جارہی ہے، ساتھ ہی عالم اسلام کی اس واقعے سے لاتعلقی اور بے حسی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیل کے جنگی جرائم پر مسلم امہ کی مجرمانہ خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ یہ وقت آپس میں بیر رکھنے کا نہیں بلکہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف یکجا ہونے کا ہے۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداﷲ نے کہا کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد عالمی ردعمل سے انتہائی مایوس ہیںان کا کہنا تھا کہ غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیلی حملے جنگی جرائم ہیں، ان حملوں سے غزہ کی نئی نسل کو تشدد کا پیغام جائے گا، مسلمان رہنما اور عالمی برادری ریاستی دہشت گردی کے خلاف یکجا ہوجائیں، مسلمان قائدین اور علماء اسلام کو دہشت گردوں کے ہاتھوں مغوی ہونے سے بچائیں۔ شاہ عبداﷲ نے کہاکہ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے دنیا کی لاتعلقی کا کوئی جواز نہیں، دہشت گردی عرب اور مسلم دنیا کے لیے خطرہ ہے ۔
یقیناً شاہ عبداﷲ کی یہ بات درست ہے لیکن عالمی ردعمل پر افسوس کرنے کے بجائے راست اقدام تو یہ ہوگا کہ تمام مسلم امہ اور عرب ریاستیں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف متحد ہوجائیں ۔ دوسری جانب ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان نے یہودی گروپ کی جانب سے انھیں دیا گیا ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر آپ اس ظلم، نسل کشی، ہٹلر جیسے فاشزم اور بچوں کے قتل عام کی حمایت کرتے ہیں تو اپنا ایوارڈ واپس لیں ۔ ترک وزیراعظم نے عالمی برادری سے سوال کیا کہ اسرائیلی کارروائیوں اور نازی اور ہٹلر کے عمل کے درمیان کیا فرق ہے؟ جو اسرائیل، فلسطین خصوصاً غزہ میں کر رہا ہے آپ اسے کیسے بیان کریں گے ، کیا یہ نسل کشی نہیں ؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ نسل پرستی اور فاشزم ہے، یہ ہٹلر کے طرز عمل اور طریقہ کار کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے ۔
اسرائیل نے فلسطینیوں پر مظالم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں اس پر امت مسلمہ کی لاتعلقی اقوام عالم کے سامنے ہمیں مزید رسوا کر رہی ہے ۔ اگر تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں تو فلسطین کا درد دیگر مسلم ممالک محسوس کیوں نہیں کررہے؟ دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں، سوشل میڈیا پر عوام چیخ رہے ہیں، اپنے حکمرانوں کو غیرت دلا رہے ہیں کہ اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں لیکن مسلم دنیا کے حکمراں بے حسی کی چادر تانے سو رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیائے عرب و مسلم امہ خواب غفلت سے بیدارہو ، کچھ بعید نہیں کہ پڑوس میں لگی آگ آپ کا اپنا گھر بھی جلا ڈالے ۔
اسرائیل کی اس ننگی جارحیت پر ہر معصوم دل مغموم ہے اور دنیا بھر کے امن پسند عوام اسرائیل کے اس مذمومانہ فعل کی مخالفت کررہے ہیں، غیر ملکی میڈیا، اخبارات اور سوشل نیٹ ورکس پر بھی اسرائیل کی اس بربریت کی مذمت کی جارہی ہے، ساتھ ہی عالم اسلام کی اس واقعے سے لاتعلقی اور بے حسی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیل کے جنگی جرائم پر مسلم امہ کی مجرمانہ خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ یہ وقت آپس میں بیر رکھنے کا نہیں بلکہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف یکجا ہونے کا ہے۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداﷲ نے کہا کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد عالمی ردعمل سے انتہائی مایوس ہیںان کا کہنا تھا کہ غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیلی حملے جنگی جرائم ہیں، ان حملوں سے غزہ کی نئی نسل کو تشدد کا پیغام جائے گا، مسلمان رہنما اور عالمی برادری ریاستی دہشت گردی کے خلاف یکجا ہوجائیں، مسلمان قائدین اور علماء اسلام کو دہشت گردوں کے ہاتھوں مغوی ہونے سے بچائیں۔ شاہ عبداﷲ نے کہاکہ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے دنیا کی لاتعلقی کا کوئی جواز نہیں، دہشت گردی عرب اور مسلم دنیا کے لیے خطرہ ہے ۔
یقیناً شاہ عبداﷲ کی یہ بات درست ہے لیکن عالمی ردعمل پر افسوس کرنے کے بجائے راست اقدام تو یہ ہوگا کہ تمام مسلم امہ اور عرب ریاستیں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف متحد ہوجائیں ۔ دوسری جانب ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان نے یہودی گروپ کی جانب سے انھیں دیا گیا ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر آپ اس ظلم، نسل کشی، ہٹلر جیسے فاشزم اور بچوں کے قتل عام کی حمایت کرتے ہیں تو اپنا ایوارڈ واپس لیں ۔ ترک وزیراعظم نے عالمی برادری سے سوال کیا کہ اسرائیلی کارروائیوں اور نازی اور ہٹلر کے عمل کے درمیان کیا فرق ہے؟ جو اسرائیل، فلسطین خصوصاً غزہ میں کر رہا ہے آپ اسے کیسے بیان کریں گے ، کیا یہ نسل کشی نہیں ؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ نسل پرستی اور فاشزم ہے، یہ ہٹلر کے طرز عمل اور طریقہ کار کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے ۔
اسرائیل نے فلسطینیوں پر مظالم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں اس پر امت مسلمہ کی لاتعلقی اقوام عالم کے سامنے ہمیں مزید رسوا کر رہی ہے ۔ اگر تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں تو فلسطین کا درد دیگر مسلم ممالک محسوس کیوں نہیں کررہے؟ دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں، سوشل میڈیا پر عوام چیخ رہے ہیں، اپنے حکمرانوں کو غیرت دلا رہے ہیں کہ اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں لیکن مسلم دنیا کے حکمراں بے حسی کی چادر تانے سو رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیائے عرب و مسلم امہ خواب غفلت سے بیدارہو ، کچھ بعید نہیں کہ پڑوس میں لگی آگ آپ کا اپنا گھر بھی جلا ڈالے ۔