سامراج کی چالیں

وزیراعظم نے کہا کہ ہولوکاسٹ کے انکار پر سزا دی جا سکتی ہے تو مسلمانوں کے جذبات کا خیال کیوں نہیں رکھا جارہا ہے


Zamrad Naqvi September 24, 2012
زمرد نقوی

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اسلام آباد میں عشق رسولﷺ کانفرنس میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ توہین رسالت کو عالمی سطح پر قابل نفرت، قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔

دنیا میں اس کے بجائے نفرت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی گئی ہے جو انسانیت کی خدمت نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ دشمنی ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احساس کرنا ہو گا۔ مسلمانوں کے لیے توہین رسالت ناقابل قبول ہے۔ یہ آزادی رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ فساد فی الارض کا مسئلہ ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہولوکاسٹ کے انکار پر سزا دی جا سکتی ہے تو مسلمانوں کے جذبات کا خیال کیوں نہیں رکھا جارہا ہے۔

مگر یہ احتجاج پرامن ہونا چاہیے، تمام علماء فتویٰ دے چکے ہیں کہ سفارت خانوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ کسی ایک فرد کے جرم کی سزا کسی دوسرے کو نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس نے سرکاری سطح پر احتجاج کیا، یہی نہیں بلکہ صدر زرداری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے۔ وزیراعظم نے متنبہ کیا کہ اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو دنیا میں کسی ہستی کا احترام باقی نہیں رہے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ عالم اسلام متحد ہو کر اپنا مؤقف پیش کرے۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخانہ فلم کی شدید مذمت کرتے ہوئے عوام اور کارکنوں کو پرامن طور پر احتجاج کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ مغرب میں ا یک چھوٹا سا فتنہ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ اسی فتنے نے آزادی رائے کے نام پر سلمان رشدی کو ہیرو بنایا' عالم اسلام کو متحد ہو کر ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ بین الاقوامی سطح پر مسلمہ مقدس ہستیوں کی توہین سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں امن کے قیام کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام پرامن رہیں اور املاک کو نقصان پہنچانے کے بجائے پرامن احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ عمران خان نے درست کہا کہ مغرب میں موجود یہ گروہ چھوٹا سا ہے لیکن ہمارے پرتشدد احتجاج نے ان کو غیر معمولی اہمیت اور فائدہ پہنچا دیا ہے۔

یوم عشق رسولﷺ پر قیمتی جانوں کا نقصان اور نجی اور سرکاری املاک کی جو تباہی و بربادی ہوئی وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس تباہی و بربادی کو روکا جا سکتا تھا اگر اہم مذہبی' سیاسی جماعتوں کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر اس کی قیادت کر رہے ہوتے۔ ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی مؤثر مذہبی سیاسی قیادت موجود نہیں تھی۔ لگتا ہے ایک سازش کے تحت ہجوم کو کھلا چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ حکومت کو بدنام کیا جا سکے تو دوسری طرف موجودہ حکومت کا خاتمہ کیا جا سکے کیونکہ پچھلے چار سال سے اس حکومت کو ہٹانے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے۔

اب شاید پھر یہ سوچا جا رہا ہے کہ مذہب کے نام پر عام سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتے ہوئے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے جس طرح نظام مصطفیٰ ﷺ کی تحریک چلائی گئی تھی، اسی طرح ایک اور تحریک چلائی جائے۔ بہرحال عوام کو سوچنا چاہیے کہ اپنے گھر کو آگ لگا کر احتجاج کرنا کون سی عقل مندی ہے۔ شاید ہم پاکستانی 65 سال گزرنے کے بعد بھی اپنے ملک کو اپنا گھر نہیں سمجھتے جب کہ حب الوطنی کی پہلی شرط ہی یہی ہے کہ پاکستان کو اپنے گھر پر ترجیح دیں۔ اگر کوئی آفت آئے تو گھر کو چاہے نقصان پہنچ جائے پاکستان کو نقصان نہ پہنچے۔ ہم پاکستانی اب تک اپنے میں یہ جذبہ پیدا نہیں کر سکے تو اب تو ہمیں ذہنی طور پر بالغ ہوتے ہوئے یہ جذبہ پیدا کر لینا چاہیے۔

ہم اتنے''سمجھدار'' ہیں کہ جب ہمیں ذاتی زندگی میں کسی توہین اور گستاخی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم کبھی اپنے گھروں کو آگ اور نقصان نہیں پہنچاتے۔ کیا ہی خوبصورت روح پرور منظر ہوتا کہ جب پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے قصبے شہروں سے ہزاروں لاکھوں کے ہجوم نکلتے اور ان کے لبوں پر گالم گلوچ کے بجائے درود پاک کا ورد ہوتا، اس طرح ہم گستاخوںؐ کو بتا سکتے کہ ہمارے دلوں میں کتنی محبت، عشق اور احترام ہے اپنے نبی ﷺ کا۔ بہر حال میڈیا کی پرتشدد کوریج کا اگر ایک طرف نقصان ہوا تو دوسری طرف اس کوریج سے یہ فائدہ ہوا کہ پاکستانی عوام کے علم میں آ گیا کہ اس پرامن احتجاج کو پرتشدد بنانے میں اندرونی اور بیرونی سازش کارفرما تھی جس میں ہمارے اپنے ''محبت وطن'' پاکستانی شامل تھے۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق یوم عشق رسولﷺ کی ریلیوں میں کارکن آنسو گیس اور ڈنڈے کھاتے رہے جب کہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما رفو چکر ہو گئے ،جب کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے اعلان کردہ ریلیوں میں ان کی مرکزی قیادتوں کی عدم شرکت نے بھی بہت سارے سوالات کو جنم دے دیا جس میں اہم بات یہ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اینٹی امریکا ریلیوں کی قیادت کے لیے کوئی بھی تیار نہیں جب کہ اینٹی امریکا رجحانات کو کیش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کہ وفاقی وزیراطلاعات نے کہا ہے کہ گستاخانہ فلم کے خلاف مظاہروں میں کالعدم تنظیمیں ریاستی اداروں کی سپورٹ سے آئی تھیں۔ دوسری طرف یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ گستاخانہ فلم کے خلاف اگرچہ ہرسیاسی اور مذہبی جماعت کے کارکنوں کی شرکت کی۔

لیکن ان مظاہرین میں خاصی تعداد مدارس کے طلبا کی تھی جب کہ کراچی کے بارے میں کہا گیا کہ کراچی میں احتجاج کو پرتشدد بنانے میں ایک ''پراسرار گروپ'' کا اہم کردار رہا۔ جب کہ مشہور عالم دین مفتی محمد نعیم نے کہا کہ عشق رسول ﷺ میں کیے جانے والے احتجاج کے دوران پرتشدد کاروائیاں ہمارے رسولﷺ کی تعلیمات اور شریعت کے منافی ہیں۔ شرعی اعتبار سے عشق رسولﷺ کو بنیاد بنا کر لوٹ مار کرنے کی وہی سزا ہے جو قانون کے مطابق ایک ڈاکو کے لیے ہمارے ملک میں نافذ ہے۔

شرعی لحاظ سے مظاہرے اور احتجاج کی آڑ میں لوٹ مار کرنا بڑا گناہ ہے۔ شریعت کے مطابق کسی کی املاک کو جلانے اور نقصان پہنچانے کی سزا یہ ہے کہ ملوث شخص سے اس کا تاوان وصول کیا جائے اور قید و بند کی سزا بھی شریعت کے مطابق ہے۔ دوسری طرف وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ احتجاج کے روز مظاہرین کو پنجاب سے اسلام آباد آنے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ جب کہ آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ جمعے کے مظاہروں کے دوران لوٹ مار کرنے والے 8 ڈاکو بھی پکڑے گئے۔

جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ دنیا میں طاقت کے نئے مراکز وجود میں آنے والے ہیں۔ اس لیے اس سے پہلے کہ امریکا کی دنیا پر مکمل بالادستی ختم ہو جائے۔ امریکا مسلم دنیا کو خاص طور پر مذہبی انتہا پسندی میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ مسلم دنیا اس سازش میں پھنس کر ا یک دوسرے کا خون بہاتی رہے۔ یہ اسی سازش کا حصہ ہے جس کا آغاز امریکا نے اپنے دشمن سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہاد سے کیا۔ پچھلی تین دہائیوں میں اسلامی دنیا میں مذہب کے اس ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان' عراق' ایران اور پاکستان کو تباہ کر دیا۔ امریکی تھنک ٹینک میں شامل لوگوں کی مسلم تاریخ اور مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلاف پر گہری نگاہ ہے۔

پاکستان افغانستان عراق میں مذہب کے نام پر جو قتل و غارت گری پچھلے تیس سالوں سے ہو رہی ہے وہ انھی کا ''کارنامہ'' ہے۔ جس کو مسلمان مذہبی سیاسی عناصر کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں مسلم دنیا کے سارے قدرتی وسائل اس کے قبضے میں آ گئے ہیں۔ اگر اب بھی مسلمان تیس سالوں بعد امریکی سامراج کی چالوں کو سمجھ نہیں سکے تو اس سے بڑی مسلمانوں اور کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے۔

مسلم دنیا صدیوں پرانے زوال سے 2040 تا 2050 کے درمیان نکلنا شروع ہو جائے گی۔

24 ستمبر سے 29 ستمبر کے درمیان کے عرصے میں موسم خوشگوار ہو جائے گا۔
اوقات رابطہ:۔ پیر تا جمعہ دوپہر دو تا شام 6 بجے
سیل فون نمبر:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں