’’ادبی ای سی جی رپورٹ‘‘
وہ لوگ دل کے عارضہ میں مبتلا ہوسکتے ہیںجو انسانیت کا درد محسوس کرتے ہوں؟
SRINAGAR:
تازہ ریسرچ میںیہ انکشاف کیاگیا ہے کہ ''بار،بار گھڑی دیکھنے سے ہارٹ اٹیک کے چانسز 80فیصد تک بڑھ جاتے ہیں''۔
سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو گھڑی اوروقت کا غلام بنانے میںمصروف رہتے ہیںدراصل وہ اپنے آپ کو ہارٹ اٹیک کے لیے ''بلامقابلہ منتخب '' کررہے ہوتے ہیں ۔ ایک ماہر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا میںدل کے عارضہ میںمبتلاء ہر مریض کی میڈیکل ہسٹری مختلف ہوتی ہے ،تاہم کچھ اثرات مشترک بھی ہوتے ہیںجن میں ٹیشن، ڈپریشن ،نفانفسی ، مقابلہ و مسابقت ا ورکم از کم وقت میںبہت سارا پیسہ کماناشامل ہیں۔ آج کا انسان بہت زیادہ پیسہ کمانے کے جنون میںگرفتار ہوکر دن کے12گھنٹوں کو اپنی ان لمٹیڈ مصروفیات پر تقسیم کرکے اپنے آپ کو گھڑی کی سوئیوںجیسی سولیوں پر چڑھا دیتا ہے جو ہارٹ اٹیک کا باعث بنتاہے۔
میڈیکل سائنس کی روشنی میںہارٹ اٹیک کیاہوتا ہے اوریہ انسان کو کیوں ہوتاہے؟انسانی جسم میںدل کا کردار مرکزی نوعیت کا ہوتاہے اس کے دھڑکنے سے ہی زندگی کی حرارت رہتی ہے ۔یوںتو انسانی جسم میںکروڑوں شریانیں ہیںلیکن دل کے دھڑکانے کے عمل کے لیے تین بڑی اور مرکزی شریانیںاہم ہیں۔ مختلف عوامل سے ان شریانوں میں چکنائی اوردیگر جسمانی فاضل مادے اکٹھا ہوکر لوتھڑوں کی صورت میںشریانوں میںجم جاتے ہیں۔
جس سے خون کی سپلائی رک جاتی ہے اور شریانیںسکڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ماہرین اس عمل کوVasoconstrictionکہتے ہیںجس میںشریانوں کے سکڑنے کے باعث خون انسانی جسم کے اگلے حصے کو منتقل نہیں ہوپاتا یہ عمل INFRACTION کہلاتا ہے اور یہی ہارٹ اٹیک ہوتا ہے ۔ ہارٹ اٹیک سے دنیا میںہر سال کروڑوںافراد مرجاتے ہیںاورجو خوش قسمت اس حملے میںبچ جاتے ہیںان غازیوںکے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ وہ قیامت صغریٰ کا ''ٹریلر'' دیکھ چکے ہیں۔ ہارٹ اٹیک کو دل کا دورہ بھی کہاجاتاہے۔پہلے پہل سمجھا جاتاتھاکہ دل کا دورہ صرف امرااوررئوسا کوہی پڑتا ہے لیکن بعد ازاں یہ عارضہ صرف غریبوںکو ہی الاٹ کردیاگیا۔
دنیا سمیت ہمارے ہاں امیروں کے لیے دل کے عارضہ کے فائیو اسٹار اور ڈیلیکس اسپتال بنائے گئے ہیںجب کہ غریب سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسیوں،وارڈوںاوربرآمدوں میں دل کی بازی ہار جاتے ہیں۔ امیروں کے لیے ان VIP اسپتالوں میں بائی پاس آپریشن اورانجیو پلاسٹی کی سہولت مہیا ہے،بائی پاس آپریشن اوراسٹنٹ ڈالنے کے آپریشن کو تو اب اے ٹی ایم اورویزا کارڈ کی سہولت کے ساتھ آن لائن بھی کر دیاگیا ہے ۔کاروباری ذہن رکھنے والے مسیحا تویہ دونوں آپریشنزکریڈٹ کارڈ پر کرنے کا پلان بھی بنائے ہوئے ہیں۔ قصہء مختصر اب دل کے آپریشن کی بابت بہت سی سہولیات میسرہیں کسی زمانہ میںبائی پاس آپریشن میجر سرجری کے زمرے میںآتاتھا مگر جدید میڈیکل سہولیات کے پیش نظر اب اس کی درجہ بندی جراح حضرات کے ختنہ آپریشن کے ساتھ کی جاتی ہے۔
لیکن یاد رہے کہ میڈیکل سائنس کی یہ تمام ترقی حکمرانوںاورامیروں کے لیے ہے عوام کا تو پہلے کی طرح دواوں(میڈیسن) سے زیادہ دعاوں پر گزارا ہے۔ ہمارے ہاںدل کے معاملہ میںخادم اعلیٰ نے PIC(پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی) بنا کر ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیاہے ،لیکن ایمرجنسی اورکار پارکنگ کے مابین فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ ہارٹ اٹیک میںمبتلاء کوئی خوش قسمت ہی زندگی اور موت کا یہ ''واہگہ باڈر '' عبور کرپاتا ہوگا۔مذکورہ اسپتال سے وابستہ ینگ ڈاکٹرز اکثر اوقات ہڑتال پر رہتے ہیںجب کہ پروفیسر حضرات پر مریضوں کو مضرصحت دوائی استعمال کرانے کامقدمہ بھی زیر سماعت ہے ۔بہر حال خادم اعلیٰ کی خدمات اپنی جگہ انھوںنے تو نیک نیتی سے دل کے معاملات سلجھانے کی کاوشیں کیں۔
مشرقی ادب میںدل کے ''عارضہ'' کے پروفیسر ڈاکٹر مانے جانے والے میرتقی میراورغالب کی امامت میںانکے بعد آنے والے اپرنٹس ڈاکٹروں نے بھی اس بیماری کے حوالے سے کھوج لگائے ہیں،لیکن سب کی تشخیص کا نام ''عشق '' ہی کہلایاہے ۔سب سے پہلے دل کی ڈاکٹری کے بانی میرتقی میر کا نسخہ ملاحظہ کیجئے۔۔۔دوزخ کیاہے سینہ مراسوزِ عشق سے ۔۔۔اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں عذاب میں۔۔ ۔غالب نے دل کی ایک ہی بیماری کو ان گنت ناموںسے موسوم کیاہے جیساکہ نالہ دل ، دلِ حسرت، دلِ افسردہ،دل ِمضطرب، دل خستہ اورکافر دل وغیر ہ وغیرہ ۔
دل کے امراض کے دوسرے بڑے ڈاکٹر مرزا غالب کی تشخیص ملاحظہ ہو جو ہو بہو اس مرض کے بانی ڈاکٹر میر تقی سے مشابہ ہے ،غالب فرماتے ہیںکہ ۔۔۔۔ دل میںپھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالب۔۔۔۔ آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا ، سو طوفاں نکلا۔۔۔۔ شکیب جلالی بیک وقت دل کے ماہر بھی تھے اور اس مرض کی صورت میںریلیف کے لیے استعمال کی جانے والی میڈیسن کے '' ہول سیل ڈیلر'' بھی ان کا تحریر کردہ ایک انمول نسخہ یوںہے ۔۔۔ دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیب ۔۔۔۔ جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بکِ جائے گا۔۔۔۔دل کے عارضہ سے متعلق شکیب جلالی کا دوسرا نسخہ یوں ہے کہ ۔۔۔ جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا۔۔۔۔ پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی۔ ۔۔کیا دکھی انسانوں کا در د محسوس کرنا بھی دل کا عارضہ ہوتاہے ؟یا وہ لوگ دل کے عارضہ میںمبتلا ہوسکتے ہیںجو انسانیت کا درد محسوس کرتے ہوں؟۔
در ِد دل رکھنے والے لوگ جب یہ دکھ اپنے لبوں پر لے آتے ہیںتو اکثر اوقات انھیں دوگنا دکھ سہنا پڑتاہے ۔اس درد کی ''ای سی جی رپورٹ'' حبیب جالب نے یوں جاری کی تھی کہ ۔۔۔۔دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں۔۔۔۔ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں۔دلوں کو دکھ دینے والوں کی شکلیںاکثر دل کے مریضوں کو یاد رہ جاتی ہیںاوروہ پھر انھیںاپنی ساری زندگی بھلانہیںپاتے ۔منیر نیازی نے کہاتھاکہ ۔۔۔۔ جس نے میرے دل کو درد دیا ۔۔۔۔۔ اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں۔۔۔۔۔۔استاد خواجہ میر درد نے دل کے درد کو انسان کی تخلیق کی بنیاد قرار دیا ہے ۔۔۔۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔۔۔ ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔۔۔جان ایلیا نے دل میںپلنے والے دکھوں اور نالوں کو کمرشلائز کرنے والے کارپوریٹس سیکٹر کا تذکرہ یوں کیاہے کہ ۔۔۔ دل ِ حزیں ترے نالوں میںشائقین ِ ہنر ۔۔۔۔ ۔ بصد خلوص ترانے تلاش کرتے ہیں۔۔ ۔ درد سے بھرے محسن نقوی نے دل کی بات کرتے ، کرتے اس شہر کا تذکرہ بھی کیاجسے سنگ دلوں نے آباد کیاتھا اور وہاں ہر ساعت دل توڑ ے جاتے رہے ۔۔۔۔۔ جس شہر کو آباد کیا سنگ دلوں نے ۔۔۔۔ اس شہر کے ہر موڑ پہ شیشوں کی دکاں ہے۔دل انسان کو ملنے والی خوشیوں اورغموں کا محرک ہوتا ہے۔
مجید امجد نے آنکھیںبھر آنے کی شکایت دل سے یوں کی تھی کہ ۔۔۔۔۔۔ مری آنکھوں میںآنسو جھوم آئے۔۔۔۔۔۔۔۔نہ چھیڑ اے دل جوانی کی کہانی۔۔۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے دل کی اخلاقی شکست کی ذمے داری صنعتی ترقی کی دوڑ کو قرار دیتے ہوئے کہاتھاکہ ۔۔۔ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔۔۔۔۔ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۔۔۔۔۔یہ درست ہے کہ نفا نفسی، مقابلہ اور مسابقت انسانی دل کو ہارٹ اٹیک کے قریب لے جاتاہے مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ امیر کی سانس اس لیے پھولی رہتی ہے کہ وہ اپنی دولت کو ضرب دینے کی ڈربی دوڑ رہا ہوتا ہے جب کہ غریب زندہ رہنے کے میراتھن میںبھاگ رہا ہوتاہے۔