70 برس

4 اگست 2014ء کو بشرط زندگی میری عمر کے 70 برس (عیسوی کیلنڈر کے مطابق) مکمل ہو جائیں گے

Amjadislam@gmail.com

4 اگست 2014ء کو بشرط زندگی میری عمر کے 70 برس (عیسوی کیلنڈر کے مطابق) مکمل ہو جائیں گے۔ خدا بخشے دلدار پرویز بھٹی مرحوم ستر برس کو بڑھاپے کی جوانی کا نام دیا کرتا تھا۔ اسی حوالے سے ایک بہت دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ کوئی بیس برس قبل جب، عطا الحق قاسمی، طاہر اسلم گورا، ڈاکٹر یونس بٹ اور میں ازبکستان کے ایک نیم ادبی قسم کے دورے پر تھے۔ ہمیں ایک مشہور اور سینئر ازبک مزاح نگار نے اپنی کتاب پیش کی۔ زبان سے لاعلمی کے باعث ہم اس کو پڑھ تو نہیں پائے مگر ایک مقامی دوست انصارالدین نے اس کے دیباچے کا کچھ حصہ ہمیں ترجمہ کر کے سنایا جو کچھ اس طرح سے تھا۔

''میری عمر اس وقت 93 (ترانوے) برس ہے میرا دفتر چوتھی منزل پر ہے میں یہ چاروں منزلیں بغیر رکے ایک ہی سانس میں چڑھا کرتا تھا لیکن اب گزشتہ کچھ دنوں سے مجھے تیسری منزل پر کچھ دیر رک کر سانس ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ میں ایک وقت کے کھانے میں پانچ نان آسانی سے کھا لیتا تھا لیکن ادھر کچھ عرصے سے اکثر پانچواں نان پورا نہیں کھا پاتا۔ ہر روز صبح دس کلو میٹر کی سیر میرا معمول تھا لیکن اب کچھ دنوں سے یہ فاصلہ کم ہو کر آٹھ ساڑھے آٹھ کلو میٹر رہ گیا ہے۔ میرے کان اور آنکھیں کچھ عرصہ قبل تک بالکل ٹھیک تھے لیکن اب اگر کوئی تیز تیز بولے تو کچھ الفاظ ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتے اور پڑھتے وقت بھی عینک کی ضرورت پڑتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب میں بوڑھا ہوں گا تو کیا ہو گا؟''

طالب علمی کے دنوں میں چینی ادیب لین بوتانگ کی کتاب ''جینے کی اہمیت'' (ترجمہ: مختار صدیقی مرحوم) پڑھی تو اس کے ایک باب نے جس کا ذیلی عنوان غالباً ''خوشگوار بڑھاپا'' تھا، بہت لطف دیا جس کا ماحصل یہ تھا کہ آپ عمر کے بڑھنے اور اعضائے جسمانی کے کمزور ہونے کے باوجود ایک بہتر بامعنی اور پر لطف زندگی کیسے گزار سکتے ہیں یعنی اگر آپ کا ذہن روشن اور روح بشاش ہو تو مہ و سال کی کی گنتی کا اضافہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

اب جب کہ میں خود ستر برس کی حد کو چھو رہا ہوں میرا ایمان اس بات پر مزید پختہ ہو گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کا تعلق ایک جسمانی حقیقت سے زیادہ اس ذہنی اور نفسیاتی رویے سے ہے جس سے آپ زندگی کی کسوٹی پر اپنی قدر یعنی Value کو متعین کرتے ہیں۔ ایک قدیم تصور کے مطابق 20 سے 50 سال کی عمر کے دوران انسان زندگی کی پہاڑی پر چڑھائی کا سفر طے کرتا ہے اور اس کے بعد کا سفر اسی پہاڑی کی ڈھلوان کو طے کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ کوئی 40 (چالیس) برس قبل میں نے ''سال گرہ'' کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی اور ابھی چند ماہ قبل اسی کا ایک عکس ایک تازہ نظم ''اے منجم مرا ستارا دیکھ'' میں صورت پذیر ہوا ہے میں یہ دونوں نظمیں اس کالم میں درج کر رہا ہوں کہ میرے خیال میں یہ ان سب باتوں کا احاطہ کر رہی ہیں جو شاید نثر میں اس سے بہتر انداز میں کہنا کم از کم میرے لیے مشکل ہے۔ البتہ میں اس موقع پر اللہ کی رحمت اور ان سب محبتوں کا شکر اور شکریہ ادا کرنا اپنا خوشگوار فرض سمجھتا ہوں جن کی وجہ سے اب تک جتنی بھی گزری، بہت اچھی گزری ہے۔ دعا کیجیے گا کہ جتنی مہلت باقی ہے اس میں بھی یہ دونوں نعمتیں میرے ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔۔۔ آمین

سال گرہ
برتھ ڈے کیک پہ جلتی ہوئی شمعوں کو بجھا دینے سے
کب بجھیں گے یہ شب و روز و مہ و سال کے انگار، جنھیں
چھو نہ سکا، وقت کا سیل رواں
وقت کا سیل رواں، جس کے خم و پیچ میں گم
ہم اور تم
ہم اور تم سے ہزاروں لاکھوں گم سم
وقت کا سیل رواں
جس کے اس پار کہیں رکھی ہے
گمشدہ عمر کے لمحوں کی کتاب
اور اس پار فقط، خواب ہی خواب!
جو بھی رت آئے کھلا کرتے ہیں
تیری یادوں کے کنول، تیری جدائی کے گلاب!
اور ان گزرے ہوئے چالیس برسوں میں غم جاناں کس طرح غم دوراں سے ہم آمیز ہوا اور ذاتی خوشیاں کیسے اجتماعی غموں میں عکس پذیر ہوئیں اور میرا ستارہ میرے زمان و مکان کی کہکشاں میں کیسے سفر کرتا رہا۔ اس کا احوال اس نظم میں ملاحظہ فرمائیے۔
اے منجم مرا ستارا دیکھ!
اے منجم مرا ستارا دیکھ
تجھ کو شائد یہ بات یاد نہ ہو!
بات ہے بھی بہت پرانی یہ
تیسویں سال میں تھا میں اس وقت
(اور ستر کا ہو رہا ہوں اب)
تو نے مجھ سے مرے ہی بارے میں
کچھ عمومی سوال پوچھے تھے
اور اک زائچہ بنایا تھا
ٹھیک لگتی تھیں بیشتر باتیں
جن کا رشتہ تھا میرے ماضی سے
آنے والے دنوں کے بارے میں
جتنی باتیں تھیں، وہ بھی اچھی تھیں
(اور کچھ تو بہت ہی اچھی تھیں)
تو نے مژدہ مجھے سنایا تھا
نیک نامی کا اور عزت کا
میری تحریر کے توسط سے

ملنے والی ہر ایک سہولت کا
اور اس سے بے شمار شہرت کا
(جو کہیں میرے انتظار میں تھی)
دل تو خوش تھا مگر دماغ میں یہ
وسوسے بار بار آتے تھے
ان ستارا شناس لوگوں میں
یہ ہنر، بیشتر کا پیشہ ہے
سلسلہ سا ہے روزی روٹی کا
سو جو وہ دیکھتے رہیں اس میں سے
اچھی باتیں ہی بس بتاتے ہیں
(اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے
واقعی یہ کوئی منجم ہے!)
پھر ہوا یوں کہ ہر نئے دن میں
ایک اک کر کے سب وہ خوش خبریں
شکل میں ''واقعوں'' کی ڈھلتی گئیں
اس گھڑی جو نہ تھا گماں تک میں
اس کو دیکھا یقین بنتے ہوئے
(زندگی کو حسین بنتے ہوئے!)
آج وہ سب ہے میرے دامن میں
جو مری سوچ سے بھی باہر تھا
پر وہ دنیا نظر نہیں آتی
جس کے میں خواب دیکھا کرتا تھا
''اب بھی انصاف کو ترستی ہے
بے اماں بھیڑ، بے وسیلوں کی
ڈھونڈتی آج بھی ہے خلق خدا
کوئی تعبیر اپنے خوابوں کی
(یاد ہے مجھ کو، تو نے لکھا تھا
یہ بھی ظاہر ہے زائچے سے ترے)
''آنے والے دنوں کی خوشیاں سب
مل کے دیکھیں گے اور بانٹیں گے
شادماں ہوں گے ہم سفر بھی ترے
مل کے سب منزلوں پہ پہنچیں گے
سب سے انصاف ایک سا ہو گا
جو بھی بوئیں گے، وہ ہی کاٹیں گے''
اے منجم مرا ستارہ دیکھ !
وقت کے آئینے سے وہ منظر
کس طرح کٹ کے، رہ گیا ہے کہاں؟
جو مری آرزو میں بستا ہے
اک حقیقت بنے گا کب وہ جہاں؟
اے منجم، ذرا دوبارا دیکھ!!
Load Next Story