خوشبو کی خالی شیشیاں
گزشتہ اتوار کے کالم ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ پہ توقع سے کہیں زیادہ رسپانس ملا۔
ISLAMABAD:
گزشتہ اتوار کے کالم ''لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو'' پہ توقع سے کہیں زیادہ رسپانس ملا۔ خوشی کی بات یہ کہ نوجوان نسل نے زیادہ پسندیدگی کا اظہار ای میل کے ذریعے کیا، انھیں اس بات کا دکھ تھا کہ جیسی عیدیں ان کے والدین مناتے تھے وہ رنگ اور خوشیاں اب کیوں نظر نہیں آتیں؟ بعض خواتین و حضرات کا شکوہ یہ بھی تھا کہ کالم بہت تشنہ تھا، بہت کچھ چھوڑ دیا گیا، جس کی کمی انھیں محسوس ہوئی۔ بات یہ ہے کہ کالم کا حسن اور ضرورت اس کا اختصار ہے اسی لیے ہم سب کچھ ایک ہی کالم میں نہیں کہہ سکتے لیکن قارئین کی شکایت بالکل بجا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ ہم سب اس ماحول کو، ان روایات، تہذیب اور رسموں کو یاد کر کے دکھی ہو جاتے ہیں جن کی خوشبو سے گھر کا آنگن مہکتا تھا۔ وہ سب کچھ اتنی جلدی کہاں کھو گیا؟ مشرقی تہذیب خصوصاً برصغیر کی مشترکہ تہذیبی روایات اچانک کہاں اوجھل ہو گئیں؟ اور ہم اسے کیوں یاد کرتے ہیں؟ آج ہر شے کمرشلائز ہو چکی ہے۔
اب تو سب کچھ تیار بازار سے لے آؤ۔ ساری گہما گہمی صرف چاند رات تک۔ عید والے دن ہو حق سناٹا۔ ہر طرف خاموشی۔ اگر ٹی وی چینلز عید کے پروگرام پیش نہ کریں تو پتا نہ چلے کہ عید کا دن ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آرام کرنے اور چھٹی منانے کا نام عید ہے۔
کیا پہلے ایسی ہی عیدیں آتی تھیں؟ ہم کتابوں میں بسنت کے تہوار کی رنگا رنگی پڑھ کر حیران ہوتے تھے تو والدین اور دادی بسنت میں لہریے دار دوپٹے رنگنے سے لے کر باغوں میں پڑے جھولوں کی پینگوں کی باتیں یاد کرتی تھیں تو بھی ہم حیران ہو کر ان کی باتیں سنتے تھے لیکن عید کی تہذیبی روایات کو تو ہم نے کھلی آنکھوں سے نہایت قریب سے دیکھا ہے کہ یہ ہمارا ورثہ ہے۔ لیکن آج کی نسل کا ورثہ کیا ہے؟ اور وہ اپنے بچوں کو عید جیسے تہوار کے بارے میں کیا بتایا کرینگے؟ یہی کہ پورے رمضان افطار کے بعد ٹارگٹ کلنگ ہوتی تھی۔
ہر دن چھ سات لوگوں کا مرنا معمول تھا۔ جمعے کی نمازیں مسجدوں میں سنگینوں کے سائے میں ادا کی جاتی تھیں کہ اسلامی عسکریت پسندوں کا اپنا ایک علیحدہ اسلام ہے جس کے نفاذ کے لیے وہ اندھا دھند فائرنگ کر کے مسجدوں کے فرش کو خون آلود کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔ کاش آنیوالی نسلوں تک یہ بات بھی پہنچے کہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ جنرل ضیا الحق سے پہلے سب انسان پہلے تھے، کچھ اور بعد میں 70 کی دہائی تک جو عیدیں ہم مناتے تھے ان کا مزہ اور رنگ روپ ہی دوسرا تھا۔ پرانی دشمنیاں بھلانے کے لیے اور محبتوں کا نیا پل تعمیر کرنے کے لیے عید سے بہتر کوئی دن نہ تھا۔
سارے گلے شکوے دور ہوجاتے تھے۔ خاندان کے تمام افراد اس گھر میں ضرور جاتے تھے جس کا سربراہ خاندان کا بزرگ بھی ہوتا تھا اور یوں خالی ہاتھ عید کے تینوں دنوں میں کسی کے ہاں نہیں جایا جاتا تھا۔ کچھ مٹھائی اور تحفے لے کر کسی کے گھر میں قدم رکھتے تھے۔ جس گھر جاتے تھے وہاں آنیوالوں کو گھر کی بزرگ خاتون یا بہو عطر پیش کرتی تھیں۔ بڑوں کو عموماً عطر کی شیشی دی جاتی تھی اور چھوٹوں کو عطر لگایا جاتا تھا۔
آنیوالے تحائف اور مٹھائی پیش کرتے تھے اور میزبان شیر خرمے، گھر کی بنی ہوئی خستہ کچوریوں اور شامی کباب سے مہمانوں کی تواضح کی جاتی تھی بعد میں خاص دان میں پان کی گلوریاں پیش کی جاتی تھیں۔ خاصدان گنبد نما ایک برتن ہوتا تھا جس کے نیچے ایک تھالی ہوتی تھی جس میں گلوریاں ہوتی تھیں اور اوپری حصے میں ایک چھوٹا سا خانہ ہوتا تھا۔ گنبد کے اندر الائچی اور لونگ رکھی ہوتی تھی۔ گلوریوں کو چاندی کے ورق میں لپیٹ کر کاغذ کی کون بنا کر ان میں رکھا جاتا تھا تا کہ کھانے والے کے ہاتھ خراب نہ ہوں۔ مہمانوں کو جانے سے پہلے عیدی دی جاتی تھی۔ عید کے تینوں دن خاندان کے افراد ایک دوسرے کے گھر ضرور جاتے تھے خاص کر معاشی طور پر کمزور رشتے داروں کے گھر جانا ضروری تھا تا کہ غیر محسوس طریقے سے ان کی مالی مدد کی جا سکے۔
زکوٰۃ بھی رمضان کے پہلے ہفتے ہی میں نکال دی جاتی تھی اور جب وہ گھر آتے تھے تو ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی تھی۔ یہ وہ ورثہ تھا جو ہمیں اپنے والدین سے ملا اور ہم نے اپنی اولاد کو منتقل کیا۔ عید کا تہوار صرف خاندان والوں تک محدود نہیں تھا بلکہ اہل محلہ اور پڑوسی بھی اس میں برابر کے شریک تھے۔
رمضان میں ایک دوسرے کے گھر افطاری اور عید پر مختلف پکوان بھیجنا بھی ہماری روایت تھی جو آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی بھیڑ ہے لیکن انسان تنہا ہے، اس کے اندر درد اور کرب کی ایک انجمن آباد ہے جس میں مقید ہو کر وہ ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب پوتا پوتی دادا، دادی کی دعائیں لیے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ آج کے دور میں بچوں کو نانا، نانی، خالہ اور ماموں تو یاد رہتے ہیں لیکن دادا، دادی نہیں؟ ایسا کیوں ہے۔
کبھی سوچا آپ نے؟ ہم بچوں سے کیسے گلہ کریں کہ وہ بزرگوں کو وہ تعظیم نہیں دیتے جو ہم دیا کرتے تھے اور آج بھی دیتے ہیں؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم نے گھر میں ہمیشہ بابا اور امی کو دادی کا خیال رکھتے دیکھا۔ اگر انھوں نے کسی بات کو منع کر دیا تو وہ حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ میری والدہ نے دادی کے تنک مزاج ہونے کے باوجود کبھی ان کی بات نہیں ٹالی۔ دادی کا غصہ بھی بہت تیز تھا۔
وہ جب بھی امی پر ناراض ہوتیں تو دونوں بھائی ان کا دفاع کرتے لیکن وہ کہتیں ''انھیں کچھ نہ کہو، کہ نہ تو تمہارے دادا زندہ ہیں، اور نہ ہی ان کی کوئی دوسری اولاد ہے، تمہارے ابا ان کی اکلوتی اولاد ہیں'' اور وہ خاموشی سے جا کر کمرے میں لیٹ جاتی تھیں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد دادی جان والدہ کو آواز دے کر بلاتیں اور کہتیں ''برا لگ گیا کیا۔ بس بہت ہو گیا۔ کیا کبھی تمہاری اماں جان نے کسی بات پہ نہیں ڈانٹا؟ جو یوں ذرا سی بات پہ اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑگئیں؟'' اور پھر اگلے ہی لمحے والدہ دادی کے گلے لگ جاتی تھیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بچے اپنے والدین کو بزرگوں کا ادب کرتے دیکھتے ہیں، تو یہی ان کی تربیت بھی ہوتی ہے البتہ جب معاملہ برعکس ہو تو بچے کیونکر دادا، دادی کو یاد رکھیں گے اور احترام کرینگے؟
دنیا کی تمام قومیں اپنا ورثہ اور روایت سنبھال کر رکھتی ہیں اور تہواروں پہ ان روایات کو تازہ کرتی ہیں لیکن ہم پاکستانی جو مجموعی طور پر شدید احساس کمتری کا شکار ہیں انھیں اپنی تہذیب اور ثقافتی ورثے سے کوئی لگاؤ نہیں۔ کرسمس پر سانتا کلاز کا وجود لازمی ہے جب کہ یہ ایک خیالی اور روایتی کردار ہے لیکن کرسمس کا تصور سانتا کلاز کے بغیر ممکن نہیں لیکن ہمیں ویلنٹائن ڈے یاد رہتا ہے، اس پر سرخ گلاب خریدنے بھی ضروری ہیں لیکن عید پر خوشبو کا تحفہ دینا، بزرگوں کو جھک کر سلام کرنا، چھوٹوں کو گلے سے لگانا اب ضروری نہیں۔
ہم اپنی اصلی مغلئی بریانی کو بھول گئے، نرگسی کوفتے، شاہی قورمہ، خستہ کچوریاں، متنجن اور شاہی ٹکڑے پکانا تو دور کی بات، ان کا ذائقہ بھی کسی کو یاد نہ ہو گا۔ اگر ٹی وی چینلز پہ لاتعداد کھانے پکانے کے پروگرام نہ ہوں تو رہے سہے کھانوں کے نام پر بھی کمرشل ازم کا شکار ہو جائیں لیکن افسوس کہ اب ان پکوان پروگراموں میں بھی مقامی روایتی کھانوں کے بجائے زیادہ زور چائنیز کھانوں پر دیا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ہم اپنی دال، سبزی، بینگن کا رائتہ، کڑھی، دیوانی ہانڈی، پائے، دم کا قیمہ، آلو کا بھرتا، چنے اور ماش کی دال کا ذائقہ بھولتے جا رہے ہیں۔ مختلف اقوام کے کھانوں کا تجربہ کرنا کوئی بری بات نہیں، لیکن ایسا بھی کیا کہ تہواروں پہ بھی پیزا، برگر، نوڈلز، چائنیز رائس، اور چکن چاؤمن ہی پکانا سکھایا جائے۔ عید ہو، بقر عید ہو، یا شب برأت، ان موقعوں پر خالص مشرقی کھانے اور میٹھے اچھے لگتے ہیں۔
لیکن پھر وہی ایک کرب اور دکھ کہ اب عیدیں پہلی جیسی کہاں رہی ہیں؟ ڈاکیہ جو عید کارڈ لے کر آتا تھا اور عیدی لے کر جاتا تھا نجانے کہاں چلا گیا۔ عید کارڈ غائب ہو گئے صرف بے جان SMS رہ گئے۔ زندگی بھی محبتوں کی خوشبو سے اسی طرح خالی ہو گئی۔ خوشبو کی خالی شیشیاں جو کپڑوں کی الماری سے نکل کر یادوں کو مہکا دیتی ہیں۔ بس عید اب یاد ماضی کا نام رہ گئی ہے۔
گزشتہ اتوار کے کالم ''لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو'' پہ توقع سے کہیں زیادہ رسپانس ملا۔ خوشی کی بات یہ کہ نوجوان نسل نے زیادہ پسندیدگی کا اظہار ای میل کے ذریعے کیا، انھیں اس بات کا دکھ تھا کہ جیسی عیدیں ان کے والدین مناتے تھے وہ رنگ اور خوشیاں اب کیوں نظر نہیں آتیں؟ بعض خواتین و حضرات کا شکوہ یہ بھی تھا کہ کالم بہت تشنہ تھا، بہت کچھ چھوڑ دیا گیا، جس کی کمی انھیں محسوس ہوئی۔ بات یہ ہے کہ کالم کا حسن اور ضرورت اس کا اختصار ہے اسی لیے ہم سب کچھ ایک ہی کالم میں نہیں کہہ سکتے لیکن قارئین کی شکایت بالکل بجا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ ہم سب اس ماحول کو، ان روایات، تہذیب اور رسموں کو یاد کر کے دکھی ہو جاتے ہیں جن کی خوشبو سے گھر کا آنگن مہکتا تھا۔ وہ سب کچھ اتنی جلدی کہاں کھو گیا؟ مشرقی تہذیب خصوصاً برصغیر کی مشترکہ تہذیبی روایات اچانک کہاں اوجھل ہو گئیں؟ اور ہم اسے کیوں یاد کرتے ہیں؟ آج ہر شے کمرشلائز ہو چکی ہے۔
اب تو سب کچھ تیار بازار سے لے آؤ۔ ساری گہما گہمی صرف چاند رات تک۔ عید والے دن ہو حق سناٹا۔ ہر طرف خاموشی۔ اگر ٹی وی چینلز عید کے پروگرام پیش نہ کریں تو پتا نہ چلے کہ عید کا دن ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آرام کرنے اور چھٹی منانے کا نام عید ہے۔
کیا پہلے ایسی ہی عیدیں آتی تھیں؟ ہم کتابوں میں بسنت کے تہوار کی رنگا رنگی پڑھ کر حیران ہوتے تھے تو والدین اور دادی بسنت میں لہریے دار دوپٹے رنگنے سے لے کر باغوں میں پڑے جھولوں کی پینگوں کی باتیں یاد کرتی تھیں تو بھی ہم حیران ہو کر ان کی باتیں سنتے تھے لیکن عید کی تہذیبی روایات کو تو ہم نے کھلی آنکھوں سے نہایت قریب سے دیکھا ہے کہ یہ ہمارا ورثہ ہے۔ لیکن آج کی نسل کا ورثہ کیا ہے؟ اور وہ اپنے بچوں کو عید جیسے تہوار کے بارے میں کیا بتایا کرینگے؟ یہی کہ پورے رمضان افطار کے بعد ٹارگٹ کلنگ ہوتی تھی۔
ہر دن چھ سات لوگوں کا مرنا معمول تھا۔ جمعے کی نمازیں مسجدوں میں سنگینوں کے سائے میں ادا کی جاتی تھیں کہ اسلامی عسکریت پسندوں کا اپنا ایک علیحدہ اسلام ہے جس کے نفاذ کے لیے وہ اندھا دھند فائرنگ کر کے مسجدوں کے فرش کو خون آلود کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔ کاش آنیوالی نسلوں تک یہ بات بھی پہنچے کہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ جنرل ضیا الحق سے پہلے سب انسان پہلے تھے، کچھ اور بعد میں 70 کی دہائی تک جو عیدیں ہم مناتے تھے ان کا مزہ اور رنگ روپ ہی دوسرا تھا۔ پرانی دشمنیاں بھلانے کے لیے اور محبتوں کا نیا پل تعمیر کرنے کے لیے عید سے بہتر کوئی دن نہ تھا۔
سارے گلے شکوے دور ہوجاتے تھے۔ خاندان کے تمام افراد اس گھر میں ضرور جاتے تھے جس کا سربراہ خاندان کا بزرگ بھی ہوتا تھا اور یوں خالی ہاتھ عید کے تینوں دنوں میں کسی کے ہاں نہیں جایا جاتا تھا۔ کچھ مٹھائی اور تحفے لے کر کسی کے گھر میں قدم رکھتے تھے۔ جس گھر جاتے تھے وہاں آنیوالوں کو گھر کی بزرگ خاتون یا بہو عطر پیش کرتی تھیں۔ بڑوں کو عموماً عطر کی شیشی دی جاتی تھی اور چھوٹوں کو عطر لگایا جاتا تھا۔
آنیوالے تحائف اور مٹھائی پیش کرتے تھے اور میزبان شیر خرمے، گھر کی بنی ہوئی خستہ کچوریوں اور شامی کباب سے مہمانوں کی تواضح کی جاتی تھی بعد میں خاص دان میں پان کی گلوریاں پیش کی جاتی تھیں۔ خاصدان گنبد نما ایک برتن ہوتا تھا جس کے نیچے ایک تھالی ہوتی تھی جس میں گلوریاں ہوتی تھیں اور اوپری حصے میں ایک چھوٹا سا خانہ ہوتا تھا۔ گنبد کے اندر الائچی اور لونگ رکھی ہوتی تھی۔ گلوریوں کو چاندی کے ورق میں لپیٹ کر کاغذ کی کون بنا کر ان میں رکھا جاتا تھا تا کہ کھانے والے کے ہاتھ خراب نہ ہوں۔ مہمانوں کو جانے سے پہلے عیدی دی جاتی تھی۔ عید کے تینوں دن خاندان کے افراد ایک دوسرے کے گھر ضرور جاتے تھے خاص کر معاشی طور پر کمزور رشتے داروں کے گھر جانا ضروری تھا تا کہ غیر محسوس طریقے سے ان کی مالی مدد کی جا سکے۔
زکوٰۃ بھی رمضان کے پہلے ہفتے ہی میں نکال دی جاتی تھی اور جب وہ گھر آتے تھے تو ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی تھی۔ یہ وہ ورثہ تھا جو ہمیں اپنے والدین سے ملا اور ہم نے اپنی اولاد کو منتقل کیا۔ عید کا تہوار صرف خاندان والوں تک محدود نہیں تھا بلکہ اہل محلہ اور پڑوسی بھی اس میں برابر کے شریک تھے۔
رمضان میں ایک دوسرے کے گھر افطاری اور عید پر مختلف پکوان بھیجنا بھی ہماری روایت تھی جو آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی بھیڑ ہے لیکن انسان تنہا ہے، اس کے اندر درد اور کرب کی ایک انجمن آباد ہے جس میں مقید ہو کر وہ ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب پوتا پوتی دادا، دادی کی دعائیں لیے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ آج کے دور میں بچوں کو نانا، نانی، خالہ اور ماموں تو یاد رہتے ہیں لیکن دادا، دادی نہیں؟ ایسا کیوں ہے۔
کبھی سوچا آپ نے؟ ہم بچوں سے کیسے گلہ کریں کہ وہ بزرگوں کو وہ تعظیم نہیں دیتے جو ہم دیا کرتے تھے اور آج بھی دیتے ہیں؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم نے گھر میں ہمیشہ بابا اور امی کو دادی کا خیال رکھتے دیکھا۔ اگر انھوں نے کسی بات کو منع کر دیا تو وہ حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ میری والدہ نے دادی کے تنک مزاج ہونے کے باوجود کبھی ان کی بات نہیں ٹالی۔ دادی کا غصہ بھی بہت تیز تھا۔
وہ جب بھی امی پر ناراض ہوتیں تو دونوں بھائی ان کا دفاع کرتے لیکن وہ کہتیں ''انھیں کچھ نہ کہو، کہ نہ تو تمہارے دادا زندہ ہیں، اور نہ ہی ان کی کوئی دوسری اولاد ہے، تمہارے ابا ان کی اکلوتی اولاد ہیں'' اور وہ خاموشی سے جا کر کمرے میں لیٹ جاتی تھیں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد دادی جان والدہ کو آواز دے کر بلاتیں اور کہتیں ''برا لگ گیا کیا۔ بس بہت ہو گیا۔ کیا کبھی تمہاری اماں جان نے کسی بات پہ نہیں ڈانٹا؟ جو یوں ذرا سی بات پہ اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑگئیں؟'' اور پھر اگلے ہی لمحے والدہ دادی کے گلے لگ جاتی تھیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بچے اپنے والدین کو بزرگوں کا ادب کرتے دیکھتے ہیں، تو یہی ان کی تربیت بھی ہوتی ہے البتہ جب معاملہ برعکس ہو تو بچے کیونکر دادا، دادی کو یاد رکھیں گے اور احترام کرینگے؟
دنیا کی تمام قومیں اپنا ورثہ اور روایت سنبھال کر رکھتی ہیں اور تہواروں پہ ان روایات کو تازہ کرتی ہیں لیکن ہم پاکستانی جو مجموعی طور پر شدید احساس کمتری کا شکار ہیں انھیں اپنی تہذیب اور ثقافتی ورثے سے کوئی لگاؤ نہیں۔ کرسمس پر سانتا کلاز کا وجود لازمی ہے جب کہ یہ ایک خیالی اور روایتی کردار ہے لیکن کرسمس کا تصور سانتا کلاز کے بغیر ممکن نہیں لیکن ہمیں ویلنٹائن ڈے یاد رہتا ہے، اس پر سرخ گلاب خریدنے بھی ضروری ہیں لیکن عید پر خوشبو کا تحفہ دینا، بزرگوں کو جھک کر سلام کرنا، چھوٹوں کو گلے سے لگانا اب ضروری نہیں۔
ہم اپنی اصلی مغلئی بریانی کو بھول گئے، نرگسی کوفتے، شاہی قورمہ، خستہ کچوریاں، متنجن اور شاہی ٹکڑے پکانا تو دور کی بات، ان کا ذائقہ بھی کسی کو یاد نہ ہو گا۔ اگر ٹی وی چینلز پہ لاتعداد کھانے پکانے کے پروگرام نہ ہوں تو رہے سہے کھانوں کے نام پر بھی کمرشل ازم کا شکار ہو جائیں لیکن افسوس کہ اب ان پکوان پروگراموں میں بھی مقامی روایتی کھانوں کے بجائے زیادہ زور چائنیز کھانوں پر دیا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ہم اپنی دال، سبزی، بینگن کا رائتہ، کڑھی، دیوانی ہانڈی، پائے، دم کا قیمہ، آلو کا بھرتا، چنے اور ماش کی دال کا ذائقہ بھولتے جا رہے ہیں۔ مختلف اقوام کے کھانوں کا تجربہ کرنا کوئی بری بات نہیں، لیکن ایسا بھی کیا کہ تہواروں پہ بھی پیزا، برگر، نوڈلز، چائنیز رائس، اور چکن چاؤمن ہی پکانا سکھایا جائے۔ عید ہو، بقر عید ہو، یا شب برأت، ان موقعوں پر خالص مشرقی کھانے اور میٹھے اچھے لگتے ہیں۔
لیکن پھر وہی ایک کرب اور دکھ کہ اب عیدیں پہلی جیسی کہاں رہی ہیں؟ ڈاکیہ جو عید کارڈ لے کر آتا تھا اور عیدی لے کر جاتا تھا نجانے کہاں چلا گیا۔ عید کارڈ غائب ہو گئے صرف بے جان SMS رہ گئے۔ زندگی بھی محبتوں کی خوشبو سے اسی طرح خالی ہو گئی۔ خوشبو کی خالی شیشیاں جو کپڑوں کی الماری سے نکل کر یادوں کو مہکا دیتی ہیں۔ بس عید اب یاد ماضی کا نام رہ گئی ہے۔