مستحکم بیٹنگ سری لنکا کیخلاف فتح کی ضمانت ہوگی
ہیڈ کوچ وقار یونس کا دوسری اننگز میں پہلا امتحان
ISLAMABAD:
کئی ماہ بغیر کھیلے سینٹرل کنٹریکٹ کی مد میں لاکھوں روپے وصول کرنے والے قومی کرکٹرز اب ایک بار پھر میدان میں اترنے کے لئے تیار ہیں۔
ٹیم سری لنکا پہنچ چکی جہاں اسے6 ماہ سے زائد عرصے بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیلنی ہے، دونوں ٹیموں کی قوت یکساں ہونے کے سبب شائقین سنسنی خیز مقابلوں کی توقع کر رہے ہیں، میزبان سائیڈ کو ہوم گراؤنڈز کے ساتھ حال ہی میں جنوبی افریقہ سے سیریز کھیلنے کا ایڈوانٹیج بھی حاصل ہے، گوکہ اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر پلیئرز پریکٹس میں ہیں، دوسری جانب گرین کیپس طویل عرصے بعد ایکشن میں نظر آئیں گے لہٰذا میچ پریکٹس کی کمی آڑے آ سکتی ہے۔
گزشتہ عرصے ٹیم نے لاہور کے سخت گرم موسم میں کنڈیشننگ کیمپ میں حصہ لیا، اس دوران ہیڈ کوچ وقار یونس،اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور اور فیلڈنگ کوچ گرانٹ لیوڈن پلیئرز کی صلاحیتیں نکھارنے کے لئے کوشاں نظر آئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی محنت کا کیا صلہ ملتا ہے۔
کوچز کی اس فوج پر بورڈ کے کروڑوں روپے ماہانہ خرچ ہوں گے،ایسے میں ان پر کچھ کر دکھانے کے لئے شدید دباؤ بھی ہو گا کیونکہ بڑے سپورٹر نجم سیٹھی اب سربراہ نہیں رہے، خصوصاً معین خان زیادہ دباؤ میں ہوں گے،چیف سلیکٹر ہونے کے ساتھ ان پر بطور منیجر دہری ذمہ داری عائد ہے، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم کا حشر نشر ہونے کے باوجود وہ خوش نصیب ہیں کہ کسی اور حیثیت سے اسکواڈ کے ساتھ منسلک ہونے میں کامیاب رہے، اب بھی انھوں نے کچھ نہ کیا تو کرسی بچانا آسان نہ ہو گا، وقار یونس کا بطور ہیڈ کوچ دوسری اننگز میں یہ پہلا امتحان ہے، انھیں ماضی کی غلطیوں سے بچتے ہوئے ٹیم کو فتوحات کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔
سری لنکا کے خلاف آخری ٹیسٹ سیریز کے تینوں میچز میں اننگز کا آغاز خرم منظور اور احمد شہزاد نے کیا، تیسرے میچ کی پہلی اننگز میں سنچری شراکت کے سوا ہر بار پہلی وکٹ گرنے سے قبل ٹیم کی نصف سنچری بھی مکمل نہیں ہو سکی تھی، اس سے اوپنرز کی کارکردگی میں عدم تسلسل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، شارجہ میں احمد شہزاد نے بھرپور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوکہ 147 رنز بنائے مگر اگلی اننگز میں 21 رنز کے مہمان ثابت ہوئے،بڑا بیٹسمین کبھی ایسا نہیں کرتا،اسی طرح ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی احمد نے بنگلہ دیش کے خلاف سنچری بنانے کے بعد ویسٹ انڈیز سے اگلے میچ کی پہلی گیند پر وکٹ گنوا دی تھی۔
وہ یقینا بے حد باصلاحیت بیٹسمین ہیں اور ناقدین کو غلط ثابت کرتے ہوئے انھوں نے مختصر طرز سے خود کو ٹیسٹ کے رنگ میں ڈھالا، مگر انھیں اب مزید صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیٹنگ میں تسلسل لانا ہوگا، اسی صورت ان کا نام عظیم بیٹسمینوں کی صف میں شامل ہو سکے گا، اسی طرح آخری سیریز میں خرم نے21، 8، 73، 6، 52، 21 کی اننگز کھیلیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کارکردگی میں بھی تسلسل نام کی کوئی چیز موجود نہیں، کسی بھی ٹیم کی فتح میں اوپنرز کا کھیل انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، بنیاد اچھی ملے تو اس کی بنا پر بڑا اسکور بنایا جا سکتا ہے،پاکستانی اوپنرز کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی، اسی صورت فائٹنگ مجموعے کی تشکیل کا خواب دیکھا جا سکے گا، ویسے اسکواڈ میں شان مسعود بھی موجود ہیں، انھیں بھی موقع دیا جا سکتا ہے۔
شارجہ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں میچ وننگ سنچری بنا کر اظہر علی نے خود کو تیسری پوزیشن کا اہل ثابت کر دیا، محمد حفیظ کے ڈراپ ہونے سے اب ان کے سر پر کوئی تلوار بھی نہیں لٹک رہی ہو گی، اس لیے اظہر کے پاس صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین موقع ہے، چوتھے نمبر پر یونس خان کی صورت میں مضبوط ڈھال موجود ہو گی جس کا پاکستانی بیٹنگ کو حریف بولرز کے حملوں سے بچانے میں اہم کردار ہو گا، ان کے بعد مصباح الحق موجود ہیں ۔
جنھوں نے آخری سیریز میں بھی کئی عمدہ اننگز کھیلی تھیں، یوں پاکستان کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ کو مضبوط قرار دیا جا سکتا ہے، عدنان اکمل کے اخراج سے ٹیسٹ وکٹ کیپنگ کے شعبے میں اکمل برادرز کا راج ختم ہوا، سرفراز احمد کئی مواقع پانے کے بعد گزشتہ سیریز میں ایک اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے تھے، اب تو ان کے بڑے سپورٹر معین خان چیف سلیکٹر و منیجر بھی ہیں لہٰذا انھیں بے فکر ہو کر صرف اپنے کھیل پر توجہ رکھنی چاہیے۔
شائد کچھ کر دکھانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اسد شفیق خوش قسمت ہیں کہ گزشتہ سیریز میں بدترین ناکامی کے باوجود اسکواڈ میں جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، سری لنکا سے تین میچز میں وہ15 کی اوسط سے محض 61 رنز ہی بنا سکے تھے، مگر ان جیسے خاموش طبع پلیئرز کو کپتان خاصا پسند کرتے ہیں کیونکہ ایسے افراد سے کسی سازش کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور یس مین بن کر سر جھکائے رہتے ہیں،اسد کو ابتدا میں یونس خان کا جانشین قرار دیا گیا مگر کارکردگی میں عدم تسلسل نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا، اگر اب بھی وہ پرفارم نہ کر سکے تو پھر کسی کی پسند بھی انھیں اسکواڈ کا حصہ نہ بنوا سکے گی۔ اسکواڈ میں عمر اکمل کی بھی واپسی ہوئی ہے، جس طرح احمد شہزاد نے اپنے انداز میں تبدیلی لا کر خود کو بہتر ٹیسٹ بیٹسمین ثابت کیا، عمر کو بھی اب موقع مل گیا کہ خود پر لگی ون ڈے اسپیشلسٹ کی چھاپ ہٹا دیں۔
پیس بولنگ میں پاکستان کے پاس جنید خان، محمد طلحہٰ، وہاب ریاض اور راحت علی شامل ہیں، بدقسمتی سے ان میں کوئی بھی ایسا نام نہیں جو حریف بیٹسمینوں کے لئے دہشت کی علامت ہو ، مگر ان کے پاس موقع ضرور ہے کہ خود کو عظیم فاسٹ بولرز کی فہرست میں شامل کرا سکیں، چیف کوچ وقار یونس ماضی کے بہترین پیسر رہے ہیں۔
ان سے تحریک لے کر نوجوان بولرز بھی کارنامے انجام دے سکتے ہیں،انگلش کاؤنٹی کرکٹ سے حاصل شدہ تجربہ جنید کے کام آئے گا، وسیم اکرم اور وقار کی صلاحیتیں بھی اسی طرح نکھری تھیں۔ جنوبی افریقہ نے حال ہی میں سری لنکا کو پیس اٹیک کی بدولت زیر کیا، ڈیل اسٹین جیسی تباہی ہمارے کسی پیسر نے بھی مچائی تو فتح پانا دشوار نہ ہو گا۔
دورئہ سری لنکا میں کامیابی کے لئے پاکستانی ٹیم کی امیدیں ایک بار پھر سعید اجمل سے ہی وابستہ ہیں ، وہ انگلش کرکٹ میں اپنی عمدہ بولنگ کی دھاک بٹھا چکے اور اب ایک بار پھر پاکستان کے لئے صلاحیتوں کا اظہار کرنا چاہتے ہیں،ان کی مدد کے لئے عبدالرحمان بھی موجود ہوں گے۔
ایسے میں یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستانی ترپ کا پتہ اسپنرز ہی ہیں،اسی کے ساتھ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ گزشتہ سیریز میں سری لنکن بیٹسمینوں نے سعید کا سامنا اعتماد سے کیا تھا، انھوں نے 3 میچز میں 42 کی اوسط سے 10 وکٹیں لیں، 5 تو دور کی بات تھی وہ کسی اننگز میں 4 وکٹیں بھی نہیں لے سکے تھے، اس لیے انھیں اس بار حریف بیٹسمینوں کا شکار کرنے کے لئے نئی ورائٹیز آزمانی ہوں گی۔
سری لنکا حال ہی میں جنوبی افریقہ سے ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز ہارنے کے سبب دباؤ کا شکار ہے، پاکستانی ٹیم کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے، دونوں ٹیموں کے کپتان ٹاپ پرفارمر ہیں، انجیلو میتھیوز تواتر سے عمدہ کھیل پیش کر رہے ہیں، اسی طرح مصباح الحق کے بیٹ سے بھی مسلسل رنز ابلتے رہتے ہیں، اسی لیے وہ اب تک ٹیم میں جگہ برقرار رکھے ہوئے ہیں، 40 سالہ بیٹسمین کو ایک سیریز میں ناکامی سابق ٹیسٹ کرکٹر بنا دے گی، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف اور اسی لیے عمدہ پرفارم کرنے کے لئے جان لڑا دیتے ہیں۔
سری لنکن عظیم بیٹسمین مہیلا جے وردنے پاکستان کیخلاف کیریئر کی آخری ٹیسٹ سیریز کھیلیں گے، وہ اور ٹیم اسے فتح کے ذریعے یادگار بنانے کے لئے بے چین ہے، کمار سنگارا کی موجودگی میزبان بیٹنگ لائن کو مزید مضبوط بناتی ہے، اسپنرز رنگانا ہیراتھ اور دلروان پریرا نے دوسرے ٹیسٹ میں پروٹیز بیٹسمینوں کو خوب پریشان کیا، ہمیں ان کا سامنا احتیاط سے کرنا ہوگا۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ورلڈ ٹی 20 کے 4 میچز میں 12 کی اوسط سے 48 رنز بنانے والے کامران اکمل ٹیم سے ڈراپ ہونے پر شور مچا رہے ہیں، وہ اسے اپنے ساتھ ناانصافی سے تعبیر کرتے ہوئے یہ تاویل دے رہے ہیں کہ ایونٹ میں دیگر پلیئرز نے بھی کچھ نہیں کیا تو صرف انہی کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، کامران کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انھیں جتنے مواقع ملے کسی اور پلیئر کو نہیں ملے ہوں گے، ہر بار کسی میگا ایونٹ سے قبل اچانک چور دروازے سے ٹیم میں ان کی شمولیت ہوتی ہے۔
ہارنے کے بعد باہر ہو جاتے ہیں، جس طرح شعیب ملک اور محمد حفیظ نے واویلا مچانے کے بجائے غیر ملکی لیگز کی صورت میں خود کو مصروف رکھنے کا بہانہ ڈھونڈ لیا، انھیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، اپنے ساتھ ناانصافی کی بات کر کے وہ شائقین کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں،انھیں اب ورلڈکپ کا انتظار کرنا چاہیے، ہو سکتا ہے کہ ہر بار کی طرح ان کے چاہنے والے انھیں اس ایونٹ کے لئے بھی ٹیم میں شامل کرا دیں۔
ان دنوں آئی ڈی پیز کی مدد کے لئے پوری قوم یکجا ہو چکی ہے مگر کرکٹرز کا اس ضمن میں رویہ مایوس کن رہا، کھلاڑیوں نے متاثرین کے امدادی کیمپ میں جا کر خوب تصاویر تو بنوائیں مگر صرف چار لاکھ روپے پیش کیے، اس وقت بیشتر کرکٹرز کی سالانہ آمدنی کئی کروڑ روپے ہے، انھیں پی سی بی سے ہر ماہ سینٹرل کنٹریکٹ و دیگر مدوں میں کئی لاکھ روپے ملتے ہیں، لاکھوں روپے بطور میچ فیس اور اپنے ادارے سے بغیر کام کیے ماہانہ تنخواہ بھی ملتی ہے، افسوس کہ ان کے دل بہت چھوٹے ہیں۔
اگر ایک پلیئر چار لاکھ روپے دیتا تو کوئی بات تھی مگر یہاں تو ارب پتی کرکٹرز اور ٹیم آفیشلز نے چند ہزار روپے بھی دل پر پتھر رکھ کر دیے ہوں گے، کھلاڑیوں نے بعد میں پی سی بی کے کہنے پر امدادی میچز میں ضرور حصہ لیا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ سابقہ غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے اس موقع پر ہی ٹیم کی جانب سے مصباح الحق کوئی چیک پیش کر دیتے، شاہد آفریدی اگر آج پورے پاکستان کی آنکھ کا تارا ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ فلاحی کام بھی ہیں، وہ کسی بھی مصیبت زدہ شخص کی مدد کے لئے ہر وقت آمادہ ہوتے ہیں، کاش یہی جذبہ ہماری پوری ٹیم میں بھی آ جائے، اب بھی وقت ہے ٹیم کو سری لنکا سے سیریز میں کسی ایک میچ کی فیس متاثرین کو دینے کا اعلان کر دینا چاہیے، اسی صورت عوام میں ان کا امیج کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے مسائل اب بھی سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں، کھیل کے معاملات کھیلوں سے وابستہ شخصیات کے سپرد ہی ہونے چاہئیں، یہاں انتظار ہو رہا ہے کہ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ وزیر اعظم نئے آفیشلز کا تقرر کریں، انھیں وزیرستان میں آپریشن اور عمران خان کے لانگ مارچ کی فکروں سے آزادی ملے تو اس بارے میں کچھ سوچیں گے ناں۔ بظاہر پی سی بی سے نجم سیٹھی کا دور ختم ہو چکا مگر وہ انتظامی کمیٹی میں بطور رکن شامل ہوں گے، یوں اس بار نئے چیئرمین کو مضبوط حسب اختلاف کا سامنا ہو گا، اب یا تو وہ اسی گروپ کا شخص ہو تو سپورٹ ملے گی، بصورت دیگر عدم اعتماد کی تحریک تختہ دھڑن کر سکتی ہے۔
skhaliq@express.com.pk
کئی ماہ بغیر کھیلے سینٹرل کنٹریکٹ کی مد میں لاکھوں روپے وصول کرنے والے قومی کرکٹرز اب ایک بار پھر میدان میں اترنے کے لئے تیار ہیں۔
ٹیم سری لنکا پہنچ چکی جہاں اسے6 ماہ سے زائد عرصے بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیلنی ہے، دونوں ٹیموں کی قوت یکساں ہونے کے سبب شائقین سنسنی خیز مقابلوں کی توقع کر رہے ہیں، میزبان سائیڈ کو ہوم گراؤنڈز کے ساتھ حال ہی میں جنوبی افریقہ سے سیریز کھیلنے کا ایڈوانٹیج بھی حاصل ہے، گوکہ اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر پلیئرز پریکٹس میں ہیں، دوسری جانب گرین کیپس طویل عرصے بعد ایکشن میں نظر آئیں گے لہٰذا میچ پریکٹس کی کمی آڑے آ سکتی ہے۔
گزشتہ عرصے ٹیم نے لاہور کے سخت گرم موسم میں کنڈیشننگ کیمپ میں حصہ لیا، اس دوران ہیڈ کوچ وقار یونس،اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور اور فیلڈنگ کوچ گرانٹ لیوڈن پلیئرز کی صلاحیتیں نکھارنے کے لئے کوشاں نظر آئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی محنت کا کیا صلہ ملتا ہے۔
کوچز کی اس فوج پر بورڈ کے کروڑوں روپے ماہانہ خرچ ہوں گے،ایسے میں ان پر کچھ کر دکھانے کے لئے شدید دباؤ بھی ہو گا کیونکہ بڑے سپورٹر نجم سیٹھی اب سربراہ نہیں رہے، خصوصاً معین خان زیادہ دباؤ میں ہوں گے،چیف سلیکٹر ہونے کے ساتھ ان پر بطور منیجر دہری ذمہ داری عائد ہے، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم کا حشر نشر ہونے کے باوجود وہ خوش نصیب ہیں کہ کسی اور حیثیت سے اسکواڈ کے ساتھ منسلک ہونے میں کامیاب رہے، اب بھی انھوں نے کچھ نہ کیا تو کرسی بچانا آسان نہ ہو گا، وقار یونس کا بطور ہیڈ کوچ دوسری اننگز میں یہ پہلا امتحان ہے، انھیں ماضی کی غلطیوں سے بچتے ہوئے ٹیم کو فتوحات کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔
سری لنکا کے خلاف آخری ٹیسٹ سیریز کے تینوں میچز میں اننگز کا آغاز خرم منظور اور احمد شہزاد نے کیا، تیسرے میچ کی پہلی اننگز میں سنچری شراکت کے سوا ہر بار پہلی وکٹ گرنے سے قبل ٹیم کی نصف سنچری بھی مکمل نہیں ہو سکی تھی، اس سے اوپنرز کی کارکردگی میں عدم تسلسل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، شارجہ میں احمد شہزاد نے بھرپور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوکہ 147 رنز بنائے مگر اگلی اننگز میں 21 رنز کے مہمان ثابت ہوئے،بڑا بیٹسمین کبھی ایسا نہیں کرتا،اسی طرح ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی احمد نے بنگلہ دیش کے خلاف سنچری بنانے کے بعد ویسٹ انڈیز سے اگلے میچ کی پہلی گیند پر وکٹ گنوا دی تھی۔
وہ یقینا بے حد باصلاحیت بیٹسمین ہیں اور ناقدین کو غلط ثابت کرتے ہوئے انھوں نے مختصر طرز سے خود کو ٹیسٹ کے رنگ میں ڈھالا، مگر انھیں اب مزید صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیٹنگ میں تسلسل لانا ہوگا، اسی صورت ان کا نام عظیم بیٹسمینوں کی صف میں شامل ہو سکے گا، اسی طرح آخری سیریز میں خرم نے21، 8، 73، 6، 52، 21 کی اننگز کھیلیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کارکردگی میں بھی تسلسل نام کی کوئی چیز موجود نہیں، کسی بھی ٹیم کی فتح میں اوپنرز کا کھیل انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، بنیاد اچھی ملے تو اس کی بنا پر بڑا اسکور بنایا جا سکتا ہے،پاکستانی اوپنرز کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی، اسی صورت فائٹنگ مجموعے کی تشکیل کا خواب دیکھا جا سکے گا، ویسے اسکواڈ میں شان مسعود بھی موجود ہیں، انھیں بھی موقع دیا جا سکتا ہے۔
شارجہ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں میچ وننگ سنچری بنا کر اظہر علی نے خود کو تیسری پوزیشن کا اہل ثابت کر دیا، محمد حفیظ کے ڈراپ ہونے سے اب ان کے سر پر کوئی تلوار بھی نہیں لٹک رہی ہو گی، اس لیے اظہر کے پاس صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین موقع ہے، چوتھے نمبر پر یونس خان کی صورت میں مضبوط ڈھال موجود ہو گی جس کا پاکستانی بیٹنگ کو حریف بولرز کے حملوں سے بچانے میں اہم کردار ہو گا، ان کے بعد مصباح الحق موجود ہیں ۔
جنھوں نے آخری سیریز میں بھی کئی عمدہ اننگز کھیلی تھیں، یوں پاکستان کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ کو مضبوط قرار دیا جا سکتا ہے، عدنان اکمل کے اخراج سے ٹیسٹ وکٹ کیپنگ کے شعبے میں اکمل برادرز کا راج ختم ہوا، سرفراز احمد کئی مواقع پانے کے بعد گزشتہ سیریز میں ایک اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے تھے، اب تو ان کے بڑے سپورٹر معین خان چیف سلیکٹر و منیجر بھی ہیں لہٰذا انھیں بے فکر ہو کر صرف اپنے کھیل پر توجہ رکھنی چاہیے۔
شائد کچھ کر دکھانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اسد شفیق خوش قسمت ہیں کہ گزشتہ سیریز میں بدترین ناکامی کے باوجود اسکواڈ میں جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، سری لنکا سے تین میچز میں وہ15 کی اوسط سے محض 61 رنز ہی بنا سکے تھے، مگر ان جیسے خاموش طبع پلیئرز کو کپتان خاصا پسند کرتے ہیں کیونکہ ایسے افراد سے کسی سازش کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور یس مین بن کر سر جھکائے رہتے ہیں،اسد کو ابتدا میں یونس خان کا جانشین قرار دیا گیا مگر کارکردگی میں عدم تسلسل نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا، اگر اب بھی وہ پرفارم نہ کر سکے تو پھر کسی کی پسند بھی انھیں اسکواڈ کا حصہ نہ بنوا سکے گی۔ اسکواڈ میں عمر اکمل کی بھی واپسی ہوئی ہے، جس طرح احمد شہزاد نے اپنے انداز میں تبدیلی لا کر خود کو بہتر ٹیسٹ بیٹسمین ثابت کیا، عمر کو بھی اب موقع مل گیا کہ خود پر لگی ون ڈے اسپیشلسٹ کی چھاپ ہٹا دیں۔
پیس بولنگ میں پاکستان کے پاس جنید خان، محمد طلحہٰ، وہاب ریاض اور راحت علی شامل ہیں، بدقسمتی سے ان میں کوئی بھی ایسا نام نہیں جو حریف بیٹسمینوں کے لئے دہشت کی علامت ہو ، مگر ان کے پاس موقع ضرور ہے کہ خود کو عظیم فاسٹ بولرز کی فہرست میں شامل کرا سکیں، چیف کوچ وقار یونس ماضی کے بہترین پیسر رہے ہیں۔
ان سے تحریک لے کر نوجوان بولرز بھی کارنامے انجام دے سکتے ہیں،انگلش کاؤنٹی کرکٹ سے حاصل شدہ تجربہ جنید کے کام آئے گا، وسیم اکرم اور وقار کی صلاحیتیں بھی اسی طرح نکھری تھیں۔ جنوبی افریقہ نے حال ہی میں سری لنکا کو پیس اٹیک کی بدولت زیر کیا، ڈیل اسٹین جیسی تباہی ہمارے کسی پیسر نے بھی مچائی تو فتح پانا دشوار نہ ہو گا۔
دورئہ سری لنکا میں کامیابی کے لئے پاکستانی ٹیم کی امیدیں ایک بار پھر سعید اجمل سے ہی وابستہ ہیں ، وہ انگلش کرکٹ میں اپنی عمدہ بولنگ کی دھاک بٹھا چکے اور اب ایک بار پھر پاکستان کے لئے صلاحیتوں کا اظہار کرنا چاہتے ہیں،ان کی مدد کے لئے عبدالرحمان بھی موجود ہوں گے۔
ایسے میں یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستانی ترپ کا پتہ اسپنرز ہی ہیں،اسی کے ساتھ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ گزشتہ سیریز میں سری لنکن بیٹسمینوں نے سعید کا سامنا اعتماد سے کیا تھا، انھوں نے 3 میچز میں 42 کی اوسط سے 10 وکٹیں لیں، 5 تو دور کی بات تھی وہ کسی اننگز میں 4 وکٹیں بھی نہیں لے سکے تھے، اس لیے انھیں اس بار حریف بیٹسمینوں کا شکار کرنے کے لئے نئی ورائٹیز آزمانی ہوں گی۔
سری لنکا حال ہی میں جنوبی افریقہ سے ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز ہارنے کے سبب دباؤ کا شکار ہے، پاکستانی ٹیم کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے، دونوں ٹیموں کے کپتان ٹاپ پرفارمر ہیں، انجیلو میتھیوز تواتر سے عمدہ کھیل پیش کر رہے ہیں، اسی طرح مصباح الحق کے بیٹ سے بھی مسلسل رنز ابلتے رہتے ہیں، اسی لیے وہ اب تک ٹیم میں جگہ برقرار رکھے ہوئے ہیں، 40 سالہ بیٹسمین کو ایک سیریز میں ناکامی سابق ٹیسٹ کرکٹر بنا دے گی، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف اور اسی لیے عمدہ پرفارم کرنے کے لئے جان لڑا دیتے ہیں۔
سری لنکن عظیم بیٹسمین مہیلا جے وردنے پاکستان کیخلاف کیریئر کی آخری ٹیسٹ سیریز کھیلیں گے، وہ اور ٹیم اسے فتح کے ذریعے یادگار بنانے کے لئے بے چین ہے، کمار سنگارا کی موجودگی میزبان بیٹنگ لائن کو مزید مضبوط بناتی ہے، اسپنرز رنگانا ہیراتھ اور دلروان پریرا نے دوسرے ٹیسٹ میں پروٹیز بیٹسمینوں کو خوب پریشان کیا، ہمیں ان کا سامنا احتیاط سے کرنا ہوگا۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ورلڈ ٹی 20 کے 4 میچز میں 12 کی اوسط سے 48 رنز بنانے والے کامران اکمل ٹیم سے ڈراپ ہونے پر شور مچا رہے ہیں، وہ اسے اپنے ساتھ ناانصافی سے تعبیر کرتے ہوئے یہ تاویل دے رہے ہیں کہ ایونٹ میں دیگر پلیئرز نے بھی کچھ نہیں کیا تو صرف انہی کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، کامران کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انھیں جتنے مواقع ملے کسی اور پلیئر کو نہیں ملے ہوں گے، ہر بار کسی میگا ایونٹ سے قبل اچانک چور دروازے سے ٹیم میں ان کی شمولیت ہوتی ہے۔
ہارنے کے بعد باہر ہو جاتے ہیں، جس طرح شعیب ملک اور محمد حفیظ نے واویلا مچانے کے بجائے غیر ملکی لیگز کی صورت میں خود کو مصروف رکھنے کا بہانہ ڈھونڈ لیا، انھیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، اپنے ساتھ ناانصافی کی بات کر کے وہ شائقین کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں،انھیں اب ورلڈکپ کا انتظار کرنا چاہیے، ہو سکتا ہے کہ ہر بار کی طرح ان کے چاہنے والے انھیں اس ایونٹ کے لئے بھی ٹیم میں شامل کرا دیں۔
ان دنوں آئی ڈی پیز کی مدد کے لئے پوری قوم یکجا ہو چکی ہے مگر کرکٹرز کا اس ضمن میں رویہ مایوس کن رہا، کھلاڑیوں نے متاثرین کے امدادی کیمپ میں جا کر خوب تصاویر تو بنوائیں مگر صرف چار لاکھ روپے پیش کیے، اس وقت بیشتر کرکٹرز کی سالانہ آمدنی کئی کروڑ روپے ہے، انھیں پی سی بی سے ہر ماہ سینٹرل کنٹریکٹ و دیگر مدوں میں کئی لاکھ روپے ملتے ہیں، لاکھوں روپے بطور میچ فیس اور اپنے ادارے سے بغیر کام کیے ماہانہ تنخواہ بھی ملتی ہے، افسوس کہ ان کے دل بہت چھوٹے ہیں۔
اگر ایک پلیئر چار لاکھ روپے دیتا تو کوئی بات تھی مگر یہاں تو ارب پتی کرکٹرز اور ٹیم آفیشلز نے چند ہزار روپے بھی دل پر پتھر رکھ کر دیے ہوں گے، کھلاڑیوں نے بعد میں پی سی بی کے کہنے پر امدادی میچز میں ضرور حصہ لیا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ سابقہ غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے اس موقع پر ہی ٹیم کی جانب سے مصباح الحق کوئی چیک پیش کر دیتے، شاہد آفریدی اگر آج پورے پاکستان کی آنکھ کا تارا ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ فلاحی کام بھی ہیں، وہ کسی بھی مصیبت زدہ شخص کی مدد کے لئے ہر وقت آمادہ ہوتے ہیں، کاش یہی جذبہ ہماری پوری ٹیم میں بھی آ جائے، اب بھی وقت ہے ٹیم کو سری لنکا سے سیریز میں کسی ایک میچ کی فیس متاثرین کو دینے کا اعلان کر دینا چاہیے، اسی صورت عوام میں ان کا امیج کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے مسائل اب بھی سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں، کھیل کے معاملات کھیلوں سے وابستہ شخصیات کے سپرد ہی ہونے چاہئیں، یہاں انتظار ہو رہا ہے کہ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ وزیر اعظم نئے آفیشلز کا تقرر کریں، انھیں وزیرستان میں آپریشن اور عمران خان کے لانگ مارچ کی فکروں سے آزادی ملے تو اس بارے میں کچھ سوچیں گے ناں۔ بظاہر پی سی بی سے نجم سیٹھی کا دور ختم ہو چکا مگر وہ انتظامی کمیٹی میں بطور رکن شامل ہوں گے، یوں اس بار نئے چیئرمین کو مضبوط حسب اختلاف کا سامنا ہو گا، اب یا تو وہ اسی گروپ کا شخص ہو تو سپورٹ ملے گی، بصورت دیگر عدم اعتماد کی تحریک تختہ دھڑن کر سکتی ہے۔
skhaliq@express.com.pk