پی سی بی کا نیا چیئرمین کتنا بااختیار ہوگا

کرکٹ حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی

کرکٹ حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی۔ فوٹو : فائل

FAISALABAD:
قومی کرکٹرز میدان میں ہوں تو ہر گیند اور سٹروک پر کروڑوں پاکستانیوں کے دل دھڑکتے ہیں، عوام کرکٹرز کی ایک ایک ادا پر وارے نیارے جاتے ہیں، فتح پر جشن منائے جاتے ہیں، ناکامی ملک میں سوگ کی سی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔

میدانوں کے سہولت رکھنے والے خوش قسمت کھلاڑی ہوں یا سڑکوں اور گلیوں میں سرگرم بچے اور جوان، ہر کوئی کرکٹ میں نام کمانے کا خواب سجائے نظر آتا ہے، اس کھیل میں جنون کی بدولت ہی پاکستان نے قدرتی ٹیلنٹ سے مالامال سیکڑوں کرکٹرز پیدا کئے جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر عمدہ کارکردگی سے دنیا کو حیران کیا۔ پی سی بی کی رونقیں اور دولت کی ریل پیل بھی کھلاڑیوں کے دم قدم سے ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی حمایت کے بل بوتے پر باگ ڈور سنبھالنے والے عہدیدار اسے ذاتی جاگیر سمجھ لیتے ہیں، اختیارات اور انا کی جنگ طول پکڑتی ہے تو کرکٹ اور کرکٹرز کے معاملات کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔

پی سی بی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اقتدار یا اختیار کے حوالے سے تنازعات کی ایک لمبی فہرست تیار کی جاسکتی ہے لیکن گزشتہ ایک سال میں جو جگ ہنسائی ہوئی اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔اس وقت کے چیف پیٹرن سابق صدر آصف علی زرداری کے نامزد چیئرمین ذکاء اشرف نے پیپلز پارٹی کا دور حکومت تو مکمل اختیارات کے ساتھ گزارا،بعد ازاں اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی کی لہر محسوس کرتے ہوئے انہوں نے عجلت میں جمہوری آئین کا فریضہ پورا کرتے ہوئے اپنا الیکشن کے ذریعے انتخاب بھی یقینی بنالیا۔

نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تو خیرخواہوں نے ارباب اختیار کو یاد دلایا کہ کسی بھی حکومت میں سیاسی مخالف جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو پی سی بی کی سربراہ برقرار رکھنے کی کوئی روایت موجود نہیں۔ اس کے بعد گزشتہ سال ایسی رسہ کشی شروع ہوئی کہ کرکٹ بورڈ فٹبال بنا رہا،ایک درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے 28 مئی کو ذکاء اشرف کا انتخاب غیر شفاف قرار دیتے ہوئے انہیں گھر بھیج کر نئے انتخابات کے احکامات جاری کردیئے۔

23 جون کو وزیر اعظم نواز شریف نے نجم سیٹھی کو چیئرمین بنادیا، پی سی بی کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے وزیراعظم نے 15 اکتوبر کو نجم سیٹھی کی سربراہی میں ایک مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دے دی،نیا سال شروع ہوا تو 15 جنوری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ذکا اشرف کو بحال کردیا لیکن وزیر اعظم اپنے نے 10 فروری کو چیف پیٹرن کا اختیار استعمال کرتے ہوئے انہیں ہٹا کر دوبارہ نجم سیٹھی کو مسند سونپ دی، عدالت نے 17 مئی کو ذکا اشرف کو بحال کیا گیا لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور صرف 4 دن بعد غم میں بدل گئی۔

اس بار سپریم کورٹ نے ان کی چھٹی کرادی، آخری اطلاعات کے مطابق نجم سیٹھی چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دیکر گورننگ بورڈ کے رکن بن چکے جبکہ عدالت نے پی سی بی کے مستقل سربراہ کے انتخات کے لئے نئے آئین کے تحت ایک ماہ میں الیکشن کا حکم دے دیا تھا۔ دوسری طرف کرکٹ حلقوں میں سوالات گردش کررہے ہیں کہ نئے آئین کے تحت منتخب چیئرمین کو کٹھ پتلی بنائے جانے کے خدشات موجود ہوں گے۔ قانونی ماہرین اور کرکٹ حلقوں نے طاقتور گورننگ بورڈ میں نجم سیٹھی کی بطور رکن موجودگی کو پلان کا حصہ قرار دیتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ حکومتی مداخلت ختم ہوجانے کا رسمی اعلان کرنے کے لئے راستہ نکالا گیا، تحریک عدم اعتماد کی تلوار اور چیف پیٹرن وزیر اعظم کا اختیار بورڈ کے سربراہ کو ربڑ سٹمپ بننے پر مجبور کرسکتا ہے۔

لاہور رجسٹری میں 21 جولائی کو سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ کے روبرو کیس کی سماعت میں کے دوران جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی سر وکار نہیں کہ بورڈ کا سربراہ کس کو لگایا جاتا ہے، تاہم عدالت یہ ضرور دیکھے گی کہ حکومت کی طرف سے چیئرمین کے تقرر میں بدنیتی کا عنصر تو کارفرما نہیں، نجم سیٹھی جو اس سے قبل 10 جولائی کو وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ امور کے نوٹیفکیشن کے تحت گورننگ بورڈ کا رکن بنائے جانے پر خاصے مطمئن تھے۔


انہوں نے اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر اپنا پیغام چھوڑنے میں بھی کوئی تاخیر نہیں کی کہ وزیر اعظم نے مجھے گورننگ بورڈ کا رکن بنایا ہے جو چیئرمین کا الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا۔گزشتہ سماعت میں سوال اٹھائے جانے پر ''نیک نیتی'' ثابت کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے حیران کن موقف اختیار کیا کہ انہیں چیف پیٹرن نے گورننگ بورڈ کا رکن بنادیا ہے اور وہ چیئرمین کے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے، عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ میری حیثیت ایک ''واچ ڈاگ'' کی سی ہوگی۔

نئے آئین میں چیئرمین کے اختیارات اور نجم سیٹھی کے ممکنہ کردار کے حوالے سے ''ایکسپریس'' کے ساتھ گفتگو میں قانونی ماہرین اور کرکٹ سے وابستہ چند اہم شخصیات کا کہنا تھا کہ 3سال کی مدت کے لئے تقرری پانے والے گورننگ بورڈ کے 10 ارکان ووٹنگ کے ذریعے پی سی بی کا نیا سربراہ منتخب کریں گے جس کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ بھی کیا جاسکے گا، نئے سیٹ اپ میں چیئرمین کو کٹھ پتلی بنائے جانے کے خدشات موجود ہوں گے،گورننگ بورڈ میں حکومتی ''واچ ڈاگ'' نجم سیٹھی معاملات پر کڑی نظر رکھتے ہوئے چیئرمین کو فارغ کرنے کے لئے ووٹنگ کراسکتے ہیں۔

دوسری صورت میں ان کی ''قیمتی معلومات'' پر انحصار کرنے والے انتہائی مہربان وزیر اعظم بطور چیف پیٹرن اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انتظامی اور مالی بدعنوانی کے الزامات کے تحت عہدے سے ہٹا سکیں گے۔ نجم سیٹھی نے فی الحال عدالت کے روبرو امیدوار نہ بننے کا اعلان کرکے بظاہر تو عہدے کے لئے بیتاب نہ ہونے کا تاثر دیا ہے لیکن کسی بھی انداز میں نیا چیئرمین فارغ ہوجاتا ہے تو ان کے الیکشن لڑنے میں قانونی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی کیونکہ آئین کے تحت گورننگ بورڈ کا ہر رکن ووٹنگ سے پی سی بی کا سربراہ بن سکتا ہے،حکومت کی تائید و حمایت نہ ہو تو نئے چیئرمین کا عہدہ چند روز یا مہینوں تک محدود ہوسکتا ہے۔

دوسری صورت میں جتنی دیر بھی قلمدان سنبھالنے کا موقع ملے ربڑ سٹمپ کے طور پر کام کرنا پڑ سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق خدشہ یہی ہے کہ گورننگ بورڈکے لئے حکومت کی طرف سے نجم سیٹھی کے ساتھ نامزد ہونے والے دوسرے رکن کو چیئرمین کا علامتی عہدہ سونپ کر مضبوط رسی کے دونوں سرے اپنے ہاتھ میں رکھے جائیں گے،بورڈ کے چند سابق سربراہان اپنے انٹرویوز میں تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ پی سی بی میں حکومتی مداخلت ختم ہوجانے کا رسمی اعلان کرنے کے لئے آسانی پیدا کرلی گئی ہے حالانکہ حقیقت میں صورتحال زیادہ تبدیل نہیں ہوئی، یعنی سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔

بورڈ کو خود مختار بنانے کا دعویٰ صرف اسی صورت کیا جاسکتا تھا کہ حکومت کو کسی عہدے پر نامزدگی یا کسی کو ہٹانے کا کوئی اختیار نہ ہوتا، صرف کرکٹ کے سٹیک ہولڈرز یعنی تمام ریجنز اور ڈیپارٹمنٹس سے منتخب نمائندوں پر مشتمل گورننگ بورڈ ووٹنگ کے ذریعے پی سی بی کا سربراہ منتخب کرتا،اہلیت کا معیار چیئرمین کے بجائے نمائندوںکے لئے ہی وضع کردینے سے وہی لوگ سامنے آتے جو کھیل کی باگ ڈور سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت تو ذکاء اشرف نے بھی متعارف کروائی تھی،طویل عدالتی محاذ آرائی اور چیئرمین کے عہدے کے لئے میوزیکل چیئر گیم میں جگ ہنسائی کے بعد بھی اگر جمہوریت کے نام پر من مانی کے راستے تلاش کئے گئے تو آنے والے ادوار میں بھی اہل اقتدار کرکٹ بورڈ کو غلام بنانے کو اپنا آئینی حق سمجھتے رہیں گے، فی الحال تو بادی النظر میں ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ نجم سیٹھی آؤٹ نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے بیک فٹ پر جاکر دفاعی سٹروک سے وکٹ بچالی، ایک عام بیٹسمین کے طور پر کھیلتے ہوئے بھی وہ کپتان سے زیادہ بااثر ہوں گے۔

abbas.raza@express.com.pk
Load Next Story