ہر کوئی محاذ آرائی سے اجتناب کرے نواز شریف آگے بڑھیں کسی اور کو وزیر اعظم بنا دیں الطاف حسین
وزیر اعظم ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے پہل کریں، معاملات کا جائزہ لیں، مظاہروں سے نقصان کا اندیشہ ہو تو خود وزارت،،،
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اپنے ایک ہنگامی بیان میں پاکستانی عوام، سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور وفاقی وصوبائی حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ خدارا پاکستان کو بچایا جائے۔
چھوٹے بڑے اختلافات کو دور کرنے کیلیے نتیجہ خیز بات چیت کے ذرائع استعمال کیے جائیں اور ہرقسم کی چھوٹی بڑی محاذ آرائی جس سے جانی ومالی نقصانات کا احتمال ہو اس سے ہر ممکنہ اجتناب کیا جائے۔ اپنے بیان میں الطاف حسین نے کہا کہ آج ہم بین الاقوامی سطح پر چھوٹے بڑے اختلافات پر آئے دن ہونے والی خوفناک ترین محاذ آرائیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو نہ صرف تواتر کے ساتھ پڑھ رہے ہیں بلکہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں اختلافات کی بنیاد پر ان ممالک کی داخلی وبیرونی عسکری محاذ آرائیوں کو بذریعہ الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور کانوں سے سن بھی رہے ہیں۔ان محاذ آرائیوں کے دوران سامنے آنے والے بعض مناظر ایسے دردناک اور اعصاب شکن ہوتے ہیں کہ چند لمحوں کیلیے اسے دیکھ کر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔
اس سلسلے میں، میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے پہل کریں اور خود بڑے پن کامظاہرہ کرتے ہوئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اجتماع کریں اورانکی شکایات کی فہرست بنائیں، انھیں حل کرنے کی تاریخ دیکر اسے بالترتیب حل کرتے چلے جائیں۔ فی الحال فلاح کا یہی راستہ نظرآتا ہے۔ الطاف حسین نے اپنے بیان کے آخر میں ملک کے موجودہ وزیراعظم میاں محمد نوا زشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ آگے بڑھیں ، معاملات کا انتہائی سوچ وفکر اور گہرائی سے مطالعہ کریں۔
انکا تفصیلی جائزہ لیں اوراگر وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اپوزیشن کے احتجاجی دھرنوں یا دھرنوں کی آڑ میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں سے ملک میں جانی ومالی نقصان کا زرہ برابر بھی اندیشہ ہوتو وہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ کراپنے آپ کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہونے کا اظہارکریں اور اپنی ہی پارٹی میں سے کسی اور فرد کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں اپنے ساتھیوں کے مشوروں سے منتقل کردیں یاکوئی ایسا آئینی راستہ اختیار کریں جہاں سب کا وقار اپنی اپنی جگہ قائم رہے اورکسی کو سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ الطاف حسین نے کہا کہ فلسطینیوں کا قتل عام ہو۔
افریقی ممالک کے درمیان محاذ آرائی ہو، شام اورعراق کی تباہی وبربادی ہو، افغانستان ودیگر ممالک میں ہونے والی تباہ کاریاں ہوں، اس صورتحال میں پاکستان جن افسوسناک حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی بھی ذی شعور سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ شمالی وزیرستان میں مسلح افواج کے جرنیل ، افسران اور جوان، ملک دشمنوں اوردہشت گردوں کے خلاف جی جان کی بازی لگاکر ایک طرف جام شہادت نوش کررہے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کو واصل بہ جہنم بھی کررہے ہیں۔دوسری طرف ملک میں رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے ، وہاں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں، ہرمحلہ ،شہر ،قصبہ ، دیہات، گاؤں ، گوٹھ کے عوام بجلی اور گیس کی دستیابی سے محروم ہیں، غریب بچوں کی تعلیم کیلئے ملک میں اسکول یاتو موجودہی نہیں ہیں اور اگر موجود ہیں تو وہ انتہائی بوسیدہ حالت میں ہیں جہاں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔
سرکاری اسپتال ادویات سے خالی ہیں، دوتین وقت کی روٹی کیلئے مزدوری کاحصول توکجا ایک وقت کی روٹی کیلئے بھی روزگار نایاب ہے۔ بارشوں کے سلسلے کی وجہ سے ملک کے گٹر،نالوں ، نالیوں کا نظام مکمل طورپر تباہ ہوچکا ہے ، لوکل باڈیز کا نظام نہ ہونے کے سبب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی جمہوری حکومت نے لوکل باڈیز کے الیکشن کرائے ہی نہیں۔ دوسری طرف چند فریق جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن بن کر دوسروں پر طعنہ زن ہیں اور جمہوریت کے نام پر حکومت کرنے والوں پر حکومت سے باہر لوگ جمہوریت کی آڑ میں ان کی حکومت کے طرز عمل کو آمریت سے تعبیر کررہے ہیں۔ایک طبقہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دے رہا ہے تو دوسرا فریق حکومت کی چولیں پاش پاش کرنے کی بات کررہا ہے۔ رسہ کشی کی یہ مڈبھیڑ ہرذی شعور اور محب وطن پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
12، 14 اگست 2014 شروع ہونے میں ابھی چند دن باقی ہیں، لانگ مارچ کرنے، ایک دوسرے کا دھڑن تختہ کرنے کے بجائے کیوں نہ ہم دنیا کی، خصوصاً پاکستان کی نازک ترین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے ہرقسم کی دھونس دھمکی اور محاذ آرائی سے گریز کریں اور پاکستان کے محب وطن شہری ہونے کے ناطے آپس میں مل بیٹھیں اور ایک دوسرے کی جائز شکایات کو نہ صرف غور سے سنیں بلکہ اسے سن کر اس کے علاج کے طور پر اگرسننے والی پارٹی کو نقصان پہنچتا ہے تووہ تھوڑا بہت نقصان برداشت کرکے پہلی پارٹی کو مطمئن کریں تاکہ ملک کوکسی انتشار سے بچایا جاسکے۔
چھوٹے بڑے اختلافات کو دور کرنے کیلیے نتیجہ خیز بات چیت کے ذرائع استعمال کیے جائیں اور ہرقسم کی چھوٹی بڑی محاذ آرائی جس سے جانی ومالی نقصانات کا احتمال ہو اس سے ہر ممکنہ اجتناب کیا جائے۔ اپنے بیان میں الطاف حسین نے کہا کہ آج ہم بین الاقوامی سطح پر چھوٹے بڑے اختلافات پر آئے دن ہونے والی خوفناک ترین محاذ آرائیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو نہ صرف تواتر کے ساتھ پڑھ رہے ہیں بلکہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں اختلافات کی بنیاد پر ان ممالک کی داخلی وبیرونی عسکری محاذ آرائیوں کو بذریعہ الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور کانوں سے سن بھی رہے ہیں۔ان محاذ آرائیوں کے دوران سامنے آنے والے بعض مناظر ایسے دردناک اور اعصاب شکن ہوتے ہیں کہ چند لمحوں کیلیے اسے دیکھ کر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔
اس سلسلے میں، میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے پہل کریں اور خود بڑے پن کامظاہرہ کرتے ہوئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اجتماع کریں اورانکی شکایات کی فہرست بنائیں، انھیں حل کرنے کی تاریخ دیکر اسے بالترتیب حل کرتے چلے جائیں۔ فی الحال فلاح کا یہی راستہ نظرآتا ہے۔ الطاف حسین نے اپنے بیان کے آخر میں ملک کے موجودہ وزیراعظم میاں محمد نوا زشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ آگے بڑھیں ، معاملات کا انتہائی سوچ وفکر اور گہرائی سے مطالعہ کریں۔
انکا تفصیلی جائزہ لیں اوراگر وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اپوزیشن کے احتجاجی دھرنوں یا دھرنوں کی آڑ میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں سے ملک میں جانی ومالی نقصان کا زرہ برابر بھی اندیشہ ہوتو وہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ کراپنے آپ کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہونے کا اظہارکریں اور اپنی ہی پارٹی میں سے کسی اور فرد کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں اپنے ساتھیوں کے مشوروں سے منتقل کردیں یاکوئی ایسا آئینی راستہ اختیار کریں جہاں سب کا وقار اپنی اپنی جگہ قائم رہے اورکسی کو سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ الطاف حسین نے کہا کہ فلسطینیوں کا قتل عام ہو۔
افریقی ممالک کے درمیان محاذ آرائی ہو، شام اورعراق کی تباہی وبربادی ہو، افغانستان ودیگر ممالک میں ہونے والی تباہ کاریاں ہوں، اس صورتحال میں پاکستان جن افسوسناک حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی بھی ذی شعور سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ شمالی وزیرستان میں مسلح افواج کے جرنیل ، افسران اور جوان، ملک دشمنوں اوردہشت گردوں کے خلاف جی جان کی بازی لگاکر ایک طرف جام شہادت نوش کررہے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کو واصل بہ جہنم بھی کررہے ہیں۔دوسری طرف ملک میں رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے ، وہاں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں، ہرمحلہ ،شہر ،قصبہ ، دیہات، گاؤں ، گوٹھ کے عوام بجلی اور گیس کی دستیابی سے محروم ہیں، غریب بچوں کی تعلیم کیلئے ملک میں اسکول یاتو موجودہی نہیں ہیں اور اگر موجود ہیں تو وہ انتہائی بوسیدہ حالت میں ہیں جہاں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔
سرکاری اسپتال ادویات سے خالی ہیں، دوتین وقت کی روٹی کیلئے مزدوری کاحصول توکجا ایک وقت کی روٹی کیلئے بھی روزگار نایاب ہے۔ بارشوں کے سلسلے کی وجہ سے ملک کے گٹر،نالوں ، نالیوں کا نظام مکمل طورپر تباہ ہوچکا ہے ، لوکل باڈیز کا نظام نہ ہونے کے سبب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی جمہوری حکومت نے لوکل باڈیز کے الیکشن کرائے ہی نہیں۔ دوسری طرف چند فریق جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن بن کر دوسروں پر طعنہ زن ہیں اور جمہوریت کے نام پر حکومت کرنے والوں پر حکومت سے باہر لوگ جمہوریت کی آڑ میں ان کی حکومت کے طرز عمل کو آمریت سے تعبیر کررہے ہیں۔ایک طبقہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دے رہا ہے تو دوسرا فریق حکومت کی چولیں پاش پاش کرنے کی بات کررہا ہے۔ رسہ کشی کی یہ مڈبھیڑ ہرذی شعور اور محب وطن پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
12، 14 اگست 2014 شروع ہونے میں ابھی چند دن باقی ہیں، لانگ مارچ کرنے، ایک دوسرے کا دھڑن تختہ کرنے کے بجائے کیوں نہ ہم دنیا کی، خصوصاً پاکستان کی نازک ترین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے ہرقسم کی دھونس دھمکی اور محاذ آرائی سے گریز کریں اور پاکستان کے محب وطن شہری ہونے کے ناطے آپس میں مل بیٹھیں اور ایک دوسرے کی جائز شکایات کو نہ صرف غور سے سنیں بلکہ اسے سن کر اس کے علاج کے طور پر اگرسننے والی پارٹی کو نقصان پہنچتا ہے تووہ تھوڑا بہت نقصان برداشت کرکے پہلی پارٹی کو مطمئن کریں تاکہ ملک کوکسی انتشار سے بچایا جاسکے۔