انقلاب آرہا ہے اگست ختم ہونے تک موجودہ حکمران نہیں رہیں گے طاہرالقادری
نواز شریف فیصلہ کرلیں کہ وہ پہلے جانا چاہتے ہیں یا پھر چھوٹے بھائی کو بھیجنا ہے، سربراہ پاکستان عوام تحریک
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کو یہ مغالطہ ہے کہ پاکستان میں آئین اور قانون کی عمل داری ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں عوام کی زندگی مغربی دنیا کے کتوں سے بھی بدتر ہے،شریف برادران اپنا محل بچانا چاہتے ہیں تو ظلم کا دروازہ بند کردیں۔
لاہور میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ اس وقت ملک میں دو مقدمات چل رہے ہیں ، ایک مقدمہ لاہور ہے اور دوسرا مقدمہ اسلام آباد، مقدمہ لاہور 14 شہادتوں اور 90 افراد پر اقدام قتل کا مقدمہ ہے، مقدمہ اسلام آباد 18 کروڑ عوام کے معاشی ، سماجی اور سیاسی قتل کا مقدمہ ہے۔ مقدمہ لاہور کا فیصلہ قصاص اور مقدمہ اسلام آباد کا فیصلہ انقلاب ہے۔ مقدمہ لاہور کی ایف آئی آر اب تک کاٹی نہیں جاسکی، شہدا کے ورثا کا اصل حق تھا کہ وہ ایف آئی آر کٹوانے کے لئے قانون کے دروازے کھٹکھا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو یہ مغالطہ ہے کہ یہاں قانون اورآئین کی حکمرانی ہے، درحقیقت پاکستان کے عوام کی زندگی مغربی مملاک کے کتوں سے بھی بدتر ہے۔ اگر وہاں کسی علاقے کا حاکم بھی کتے کو گولی مار دے تو اقتدار میں نہیں رہ سکتا اور یہاں 16 انسانوں کو قتل کیا گیا لیکن ایف آئی آر نہی کاٹی جارہی۔ اگر یہ حادثہ مغربی ممالک میں ہوتا تو کیا ہوتا۔ پنجاب کی ایلیٹ فورس کے انچارج عبدالرؤف نے اعتراف کیا ہے کہ ایس ایم جی کے 479 اور جی 3 کے 59 فائر کئے گئے۔ میڈیا نے ان میں سے کچھ افراد کی شناخت کرائی تو انہیں حکمرانوں نے حراست میں لینے کے بعد بیرون ملک فرار کرادیا۔ انہیں ایسی فون کالز کا ریکارڈ ملا ہے جس سے شہباز شریف کے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براپہ راست ملوث ہونے کا ثبوت ثابت ہوگیا ہے۔
ڈاکٹرطاہرالقادری کا کہنا تھا کہ 17 جون کو لاہور میں شریف برادران کے حکم پر ہمارے کارکنوں پرریاستی جبر و تشدد کیا گیا اس کی مثال پوری دنیا کی جمہوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس وقت اگر ہم چاہتے تو حکومت پنجاب کے خاتمے تک جنازوں کو دفنانے سے انکار کرتے اور اتنا بڑا دھرنا دیتے ان کی حکومت کے خاتمے تک ان کا دھرنا ختم نہ ہوتا۔ پورا پاکستان یا کم از کم لاہور کو سیل کردیتے، اگر چاہتے تو جاتی امرا کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے اور پوری قوم ہمارے ساتھ تھی مگر ہم نے امن کی خاطر ایسا نہیں کیا۔ ہم نے آئین اور قانون کا راستہ اپنایا ، ہم نے نامزد ملزمان کے خلاف مقدمے کی درخواست کی۔ ہم نے ڈیڑھ ماہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر حکمرانوں نے ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی اور وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کردی گئی ہے ساری کارروائی اسی پوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی وطن واپسی پر 14 سو افراد پر مقدمہ درج کیا گیا۔ ان میں وہ 53 افراد بھی شامل ہیں جو مسجد میں نماز فجر ادا کررہے تھے، اس وقت اگر ہم چاہتے تو اسلام آباد ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے مگر ہم نے آئین و قانون کو ترجیح دی۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے 10 اگست کو یوم شہدا منایا جائے گا۔ ہر آنے والا اپنے ساتھ قرآن پاک، جائے نماز اور تسبیح لائے، وہ ضمانت دیتے ہیں کہ یوم شہدا انتہائی پر امن ہوگا، حکومت پنجاب یا وفاق نے یوم شہدا میں شرکت کے لئے آنے والے افراد کو روکا تو یوم شہدا ماڈل ٹاؤن میں نہیں جاتی امرا کے محل میں منایا جائے گا۔ پونے دو ماہ سے صبر کررہے ہیں لیکن ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے ہم ہم آزادی والے لوگ نہیں انقلاب والے لوگ ہیں، ہم تمام شہیدوں کے خون کا بدلہ لیں گے۔ ہم پر امن ہیں مگر پر امن شہریوں کو کوئی تنگ نہ کرے اور کارکن امن کی چوڑیاں نہ پہنیں۔ جوپولیس والاکارکنوں کےگھرمیں گھسے، کارکن اس پولیس والےکےگھرمیں گھس جائیں، اس اگست کے بعد موجودہ حکمران نہیں رہیں گے۔ اس لئے پولیس اہلکار سوچ سمجھ کر حکمرانوں کے احکام مانیں۔ نواز شریف اور ان کا خاندان سوچ لیں کہ وہ پہلے جانا چاہتے ہیں یا پھر چھوٹے بھائی کو بھیجنا ہے۔ ہمارے 15 افراد شہید ہوئے، 15 کے بدلے 15 کا حساب ہوگا۔
لاہور میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ اس وقت ملک میں دو مقدمات چل رہے ہیں ، ایک مقدمہ لاہور ہے اور دوسرا مقدمہ اسلام آباد، مقدمہ لاہور 14 شہادتوں اور 90 افراد پر اقدام قتل کا مقدمہ ہے، مقدمہ اسلام آباد 18 کروڑ عوام کے معاشی ، سماجی اور سیاسی قتل کا مقدمہ ہے۔ مقدمہ لاہور کا فیصلہ قصاص اور مقدمہ اسلام آباد کا فیصلہ انقلاب ہے۔ مقدمہ لاہور کی ایف آئی آر اب تک کاٹی نہیں جاسکی، شہدا کے ورثا کا اصل حق تھا کہ وہ ایف آئی آر کٹوانے کے لئے قانون کے دروازے کھٹکھا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو یہ مغالطہ ہے کہ یہاں قانون اورآئین کی حکمرانی ہے، درحقیقت پاکستان کے عوام کی زندگی مغربی مملاک کے کتوں سے بھی بدتر ہے۔ اگر وہاں کسی علاقے کا حاکم بھی کتے کو گولی مار دے تو اقتدار میں نہیں رہ سکتا اور یہاں 16 انسانوں کو قتل کیا گیا لیکن ایف آئی آر نہی کاٹی جارہی۔ اگر یہ حادثہ مغربی ممالک میں ہوتا تو کیا ہوتا۔ پنجاب کی ایلیٹ فورس کے انچارج عبدالرؤف نے اعتراف کیا ہے کہ ایس ایم جی کے 479 اور جی 3 کے 59 فائر کئے گئے۔ میڈیا نے ان میں سے کچھ افراد کی شناخت کرائی تو انہیں حکمرانوں نے حراست میں لینے کے بعد بیرون ملک فرار کرادیا۔ انہیں ایسی فون کالز کا ریکارڈ ملا ہے جس سے شہباز شریف کے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براپہ راست ملوث ہونے کا ثبوت ثابت ہوگیا ہے۔
ڈاکٹرطاہرالقادری کا کہنا تھا کہ 17 جون کو لاہور میں شریف برادران کے حکم پر ہمارے کارکنوں پرریاستی جبر و تشدد کیا گیا اس کی مثال پوری دنیا کی جمہوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس وقت اگر ہم چاہتے تو حکومت پنجاب کے خاتمے تک جنازوں کو دفنانے سے انکار کرتے اور اتنا بڑا دھرنا دیتے ان کی حکومت کے خاتمے تک ان کا دھرنا ختم نہ ہوتا۔ پورا پاکستان یا کم از کم لاہور کو سیل کردیتے، اگر چاہتے تو جاتی امرا کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے اور پوری قوم ہمارے ساتھ تھی مگر ہم نے امن کی خاطر ایسا نہیں کیا۔ ہم نے آئین اور قانون کا راستہ اپنایا ، ہم نے نامزد ملزمان کے خلاف مقدمے کی درخواست کی۔ ہم نے ڈیڑھ ماہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر حکمرانوں نے ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی اور وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کردی گئی ہے ساری کارروائی اسی پوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی وطن واپسی پر 14 سو افراد پر مقدمہ درج کیا گیا۔ ان میں وہ 53 افراد بھی شامل ہیں جو مسجد میں نماز فجر ادا کررہے تھے، اس وقت اگر ہم چاہتے تو اسلام آباد ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے مگر ہم نے آئین و قانون کو ترجیح دی۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے 10 اگست کو یوم شہدا منایا جائے گا۔ ہر آنے والا اپنے ساتھ قرآن پاک، جائے نماز اور تسبیح لائے، وہ ضمانت دیتے ہیں کہ یوم شہدا انتہائی پر امن ہوگا، حکومت پنجاب یا وفاق نے یوم شہدا میں شرکت کے لئے آنے والے افراد کو روکا تو یوم شہدا ماڈل ٹاؤن میں نہیں جاتی امرا کے محل میں منایا جائے گا۔ پونے دو ماہ سے صبر کررہے ہیں لیکن ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے ہم ہم آزادی والے لوگ نہیں انقلاب والے لوگ ہیں، ہم تمام شہیدوں کے خون کا بدلہ لیں گے۔ ہم پر امن ہیں مگر پر امن شہریوں کو کوئی تنگ نہ کرے اور کارکن امن کی چوڑیاں نہ پہنیں۔ جوپولیس والاکارکنوں کےگھرمیں گھسے، کارکن اس پولیس والےکےگھرمیں گھس جائیں، اس اگست کے بعد موجودہ حکمران نہیں رہیں گے۔ اس لئے پولیس اہلکار سوچ سمجھ کر حکمرانوں کے احکام مانیں۔ نواز شریف اور ان کا خاندان سوچ لیں کہ وہ پہلے جانا چاہتے ہیں یا پھر چھوٹے بھائی کو بھیجنا ہے۔ ہمارے 15 افراد شہید ہوئے، 15 کے بدلے 15 کا حساب ہوگا۔