کھائیے ضرور مگر زندہ رہنے کے لیے
غلام قوموں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اپنے آقائوں...
ہمارے بعض کالم نگار کچھ عرصہ سے اس بات پر متفکر نظر آرہے ہیں کہ ہمارے کھانے پینے کی عادتیں بہت بدل گئی ہیں۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح غذائی عادتوں میں بھی مغرب حاوی ہو گیا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ جس بات کی طرف میں نے کئی سال پہلے اپنے کالموں میں توجہ دلائی تھی اس جانب دیگر لکھنے والوں نے بھی رخ کیا۔ اپنے کلچر، تہذیب اور خوراک کے حوالے سے ہم سب کی ذمے داری ہے کہ پڑھنے والوں کی توجہ ان چیزوں کی طرف دلائیں جو ہمیں سراسر نقصان پہنچا رہی ہیں لیکن افسوس چند قلم کاروں کو چھوڑ کر سب کے سب ''سیاست'' کی ''کالی دیوی'' کے پجاری بنے بیٹھے ہیں شاید اس لیے کہ انھیں اسی بات کی تنخواہ ملتی ہے۔
غلام قوموں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اپنے آقائوں کے رنگ میں رنگ جاتی ہیں، اپنی عادات پہ شرماتے ہیں جب کہ آقائوں کے عادات و اطوار اپنا کر وہ خود کو معزز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ زندہ قومیں آزادی کے بعد جلد ہی غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل کر لیتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری قوم کا خمیر جس مٹی سے گوندھا گیا اس میں غلامی کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ انگریزوں نے برصغیر پر ڈیڑھ سو برس حکومت کی لیکن اس نے نہ ہمارا لباس اپنایا نہ کھانے کیونکہ وہ خود کو ایک اعلیٰ و ارفع مہذب قوم سمجھتے تھے جو کہ وہ تھے بھی۔ انگریز اگر اس خطے میں نہ آئے ہوتے تو نہ ہم ڈاک خانوں سے واقف ہوتے، نہ اسپتالوں سے، نہ بینک سے، نہ ریلوے، نہ بحری جہازوں سے اور نہ ہی ہوائی جہازوں سے۔
تعلیم کا نظام جو ہمارے ہاں کلرک پیدا کرتا ہے وہ بھی انگریز ہی کی دَین ہے' اور تو اور سڑکیں بھی انھوں نے ایسی بنا کر دیں کہ دونوں طرف نالیاں آگے جا کر برساتی نالوں سے مل جاتی تھیں لیکن ہم نے ان تمام سہولیات کا جی بھر کے بیڑہ غرق کیا۔ نئی سڑکیں بنتی رہیں لیکن لینڈ مافیا نے برساتی نالوں پر دکانیں بنا دیں۔ کراچی میں یہ کام بہت کاریگری اور اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے ہوا، شہر میں کئی پروجیکٹ بلڈرز مافیا نے برساتی نالوں پر بنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شہر جو تقسیم سے پہلے روزانہ پانی سے دھویا جاتا تھا اور برسات میں پانی سڑکوں پر کھڑا نہ ہوتا تھا اب یہ سڑکیں خود دریا بن جاتی ہیں۔ نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی ویز بارش کے ایک جھٹکے میں کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ ریلوے جو ذرایع نقل و حمل کا ایک سستا اور آرام دہ ذریعہ تھا اسے باقاعدہ پلاننگ سے تباہ کیا گیا۔ آپ دیکھ لیجیے انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال یہاں حکومت کی لیکن ان کا نہ پہناوا بدلا نہ ہی کھانے پینے کی عادات۔ وہ برصغیر میں رہ کر بھی ڈبل روٹی کھاتے تھے، چپاتی نہیں۔ سوپ پیتے تھے آلو گوشت اور قورمہ نہیں کھاتے تھے۔ انھوں نے اپنا لباس تو نہیں چھوڑا البتہ پورے برصغیر کو اپنا کوٹ پتلون پہنا دیا۔
بات کھانے پینے سے چلی تھی لیکن کہیں اور چلی گئی۔ یہ جو آج فاسٹ فوڈز اور چائنیز کی ہاہاکار مچی ہے میں گزشتہ دس سال سے اس کے نقصانات پر لکھ رہی ہوں جسے لوگوں نے ہمیشہ بہت پسند کیا لیکن تان یہاں آکر ٹوٹ جاتی ہے کہ ''کیا کریں بچّے مانتے ہی نہیں۔'' آپ پیٹ کے کسی مرض میں مبتلا ہو کر کسی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جائیں تو وہ پہلے آپ سے غذائی عادات کا پوچھیں گے اور بعد میں صرف اتنا کہیں گے ''سادہ پانی زیادہ سے زیادہ پئیں، شوربے والا سالن کھائیں، گھر کی روٹی سے۔''
چائنیز اور تھائی جیسے بدمزا کھانے خدا جانے کس طرح لوگوں کے حلق سے اترتے ہیں۔ مجھے تو زیادہ تر یہ اندازہ ہوا کہ اکثریت صرف فیشن کے طور پر ان ریستورانوں میں جاتی ہے۔ ہم مجموعی طور پر ایک ایسی قوم ہیں جو گلے گلے احساسِ کمتری میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کا اظہار جگہ جگہ آپ کو ملے گا، کبھی بلاضرورت انگریزی بول کر، کبھی جینز اور ٹی شرٹ پہن کر اور کبھی فاسٹ فوڈز کے ریستورانوں میں برگر اور پیزا کھا کر، ہم نے اپنے دستر خوانوں پر سے دالیں، سبزیاں، رائتے، کڑھی، چاول اور دیگر دیسی کھانے اڑا دیے ہیں۔ اگر کچھ باقی رہ گیا ہے تو قورمہ اور بریانی، وہ بھی دعوتوں کی حد تک۔ نہاری جو دہلی کی مشہور خاص ڈش ہے اس کو دلّی والے صبح کھاتے تھے، بیشتر ناشتے میں شوق فرماتے تھے اور پھر دوپہر کا کھانا غائب کر دیتے تھے۔ نہاری جیسا کہ نام سے ظاہر ہے علی الصبح کھائی جانے والی ڈش ہے۔ اس کے علاوہ نہاری صرف سردیوں میں کھائی جاتی تھی کیونکہ اس میں گرم مصالحے اور سونٹھ وغیرہ پڑتی ہے جن کی تاثیر گرم ہوتی ہے
لیکن کراچی کے علاوہ ہر جگہ یہ صبح شام کھائی جاتی ہے۔ اسی طرح پائے بھی سردیوں ہی میں پکائے جاتے ہیں کیونکہ ان کی تاثیر بھی گرم ہوتی ہے لیکن اب پائے بھی چوبیس گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں۔ سردیوں کے کھانے گرمیوں میں کھانے سے معدے کے بے شمار امراض پیدا ہوتے ہیں لیکن اس کے متعلق لوگوں نے توجہ دینا چھوڑ دی ہے۔ گرمیوں میں پہلے گھروں میں اس بات کا اہتمام رکھا جاتا تھا کہ غذا میں لوکی کا رائتہ املی، پودینے یا کیری کی چٹنی ضرور شامل ہو تاکہ نہ صرف ہاضمہ درست رہے بلکہ بھوک بھی کھل کر لگے۔ دونوں وقت گوشت کھانا صحت کے لیے سخت مضر ہے کہ اس سے یورک ایسڈ خون میں بڑھ جاتا ہے۔ پہلے عام طور پر گھرانوں میں یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ دوپہر میں دال، چاول یا سبزی مختلف اچار، چٹنی اور سلاد کے ساتھ، یوپی اور دہلی میں چپاتی کو بھی شامل کیا جاتا تھا جب کہ سائوتھ میں پاپڑ بھی دال چاول کے ساتھ لازمی جزو ہوتے تھے بلکہ اب بھی ہوتے ہیں لیکن گجرات میں چونکہ چاول اور آلو کا استعمال بہت زیادہ ہے اس لیے مٹاپے کا رجحان وہاں زیادہ ہے۔
افسوس کہ مغرب کی غلط نقالی میں ہم نے ایسی غذائی عادات اپنا لی ہیں جو بری طرح صحت تباہ کر رہی ہیں۔ ہماری قوم بھی عجیب ہے مغرب میں تو سچ بولا جاتا ہے' دوائوں میں اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہیں کی جاتی' صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے' ڈاکٹر مریض کا علاج اس کی جیب دیکھ کر نہیں کرتے' ایکسپائری ڈیٹ کی غذائی اشیاء ضایع کر دی جاتی ہیں لیکن ہم ان باتوں کی نقل نہیں کرتے بلکہ صرف ان باتوں اور عادات کو اپناتے ہیں جس سے فوراً یہ پتا چل جائے کہ آپ ''کلچرڈ'' ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ زور فاسٹ فوڈ کے استعمال اور غیرملکی لباس پر دیا جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے تمام چینلز پر سے نیوز ریڈر، میزبان اور دیگر پروگرام کرنے والی خواتین کے سروں سے پہلے دوپٹہ غائب ہوا اور اب سرے سے اس کا وجود ہی نہیں ہے کیونکہ آپ کو ترقی کرنا ہے وہ بھی خواتین کو شو پیس کے طور پر پیش کر کے تو اس کے لیے ضروری ہے خواتین کا مختصر لباس۔ دکھ کی بات یہ ہے اب والدین بھی اپنی بیٹیوں کی ''چہرہ نمائی'' کے لیے مختصر سے مختصر اور معیوب لباس پہننے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ غلام قومیں ایسا ہی کیا کرتی ہیں۔ مہذب قومیں زندہ رہنے کے لیے کھاتی ہیں لیکن ہم پاکستانی صرف کھانے کے لیے زندہ ہیں۔
غلام قوموں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اپنے آقائوں کے رنگ میں رنگ جاتی ہیں، اپنی عادات پہ شرماتے ہیں جب کہ آقائوں کے عادات و اطوار اپنا کر وہ خود کو معزز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ زندہ قومیں آزادی کے بعد جلد ہی غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل کر لیتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری قوم کا خمیر جس مٹی سے گوندھا گیا اس میں غلامی کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ انگریزوں نے برصغیر پر ڈیڑھ سو برس حکومت کی لیکن اس نے نہ ہمارا لباس اپنایا نہ کھانے کیونکہ وہ خود کو ایک اعلیٰ و ارفع مہذب قوم سمجھتے تھے جو کہ وہ تھے بھی۔ انگریز اگر اس خطے میں نہ آئے ہوتے تو نہ ہم ڈاک خانوں سے واقف ہوتے، نہ اسپتالوں سے، نہ بینک سے، نہ ریلوے، نہ بحری جہازوں سے اور نہ ہی ہوائی جہازوں سے۔
تعلیم کا نظام جو ہمارے ہاں کلرک پیدا کرتا ہے وہ بھی انگریز ہی کی دَین ہے' اور تو اور سڑکیں بھی انھوں نے ایسی بنا کر دیں کہ دونوں طرف نالیاں آگے جا کر برساتی نالوں سے مل جاتی تھیں لیکن ہم نے ان تمام سہولیات کا جی بھر کے بیڑہ غرق کیا۔ نئی سڑکیں بنتی رہیں لیکن لینڈ مافیا نے برساتی نالوں پر دکانیں بنا دیں۔ کراچی میں یہ کام بہت کاریگری اور اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے ہوا، شہر میں کئی پروجیکٹ بلڈرز مافیا نے برساتی نالوں پر بنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شہر جو تقسیم سے پہلے روزانہ پانی سے دھویا جاتا تھا اور برسات میں پانی سڑکوں پر کھڑا نہ ہوتا تھا اب یہ سڑکیں خود دریا بن جاتی ہیں۔ نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی ویز بارش کے ایک جھٹکے میں کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ ریلوے جو ذرایع نقل و حمل کا ایک سستا اور آرام دہ ذریعہ تھا اسے باقاعدہ پلاننگ سے تباہ کیا گیا۔ آپ دیکھ لیجیے انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال یہاں حکومت کی لیکن ان کا نہ پہناوا بدلا نہ ہی کھانے پینے کی عادات۔ وہ برصغیر میں رہ کر بھی ڈبل روٹی کھاتے تھے، چپاتی نہیں۔ سوپ پیتے تھے آلو گوشت اور قورمہ نہیں کھاتے تھے۔ انھوں نے اپنا لباس تو نہیں چھوڑا البتہ پورے برصغیر کو اپنا کوٹ پتلون پہنا دیا۔
بات کھانے پینے سے چلی تھی لیکن کہیں اور چلی گئی۔ یہ جو آج فاسٹ فوڈز اور چائنیز کی ہاہاکار مچی ہے میں گزشتہ دس سال سے اس کے نقصانات پر لکھ رہی ہوں جسے لوگوں نے ہمیشہ بہت پسند کیا لیکن تان یہاں آکر ٹوٹ جاتی ہے کہ ''کیا کریں بچّے مانتے ہی نہیں۔'' آپ پیٹ کے کسی مرض میں مبتلا ہو کر کسی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جائیں تو وہ پہلے آپ سے غذائی عادات کا پوچھیں گے اور بعد میں صرف اتنا کہیں گے ''سادہ پانی زیادہ سے زیادہ پئیں، شوربے والا سالن کھائیں، گھر کی روٹی سے۔''
چائنیز اور تھائی جیسے بدمزا کھانے خدا جانے کس طرح لوگوں کے حلق سے اترتے ہیں۔ مجھے تو زیادہ تر یہ اندازہ ہوا کہ اکثریت صرف فیشن کے طور پر ان ریستورانوں میں جاتی ہے۔ ہم مجموعی طور پر ایک ایسی قوم ہیں جو گلے گلے احساسِ کمتری میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کا اظہار جگہ جگہ آپ کو ملے گا، کبھی بلاضرورت انگریزی بول کر، کبھی جینز اور ٹی شرٹ پہن کر اور کبھی فاسٹ فوڈز کے ریستورانوں میں برگر اور پیزا کھا کر، ہم نے اپنے دستر خوانوں پر سے دالیں، سبزیاں، رائتے، کڑھی، چاول اور دیگر دیسی کھانے اڑا دیے ہیں۔ اگر کچھ باقی رہ گیا ہے تو قورمہ اور بریانی، وہ بھی دعوتوں کی حد تک۔ نہاری جو دہلی کی مشہور خاص ڈش ہے اس کو دلّی والے صبح کھاتے تھے، بیشتر ناشتے میں شوق فرماتے تھے اور پھر دوپہر کا کھانا غائب کر دیتے تھے۔ نہاری جیسا کہ نام سے ظاہر ہے علی الصبح کھائی جانے والی ڈش ہے۔ اس کے علاوہ نہاری صرف سردیوں میں کھائی جاتی تھی کیونکہ اس میں گرم مصالحے اور سونٹھ وغیرہ پڑتی ہے جن کی تاثیر گرم ہوتی ہے
لیکن کراچی کے علاوہ ہر جگہ یہ صبح شام کھائی جاتی ہے۔ اسی طرح پائے بھی سردیوں ہی میں پکائے جاتے ہیں کیونکہ ان کی تاثیر بھی گرم ہوتی ہے لیکن اب پائے بھی چوبیس گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں۔ سردیوں کے کھانے گرمیوں میں کھانے سے معدے کے بے شمار امراض پیدا ہوتے ہیں لیکن اس کے متعلق لوگوں نے توجہ دینا چھوڑ دی ہے۔ گرمیوں میں پہلے گھروں میں اس بات کا اہتمام رکھا جاتا تھا کہ غذا میں لوکی کا رائتہ املی، پودینے یا کیری کی چٹنی ضرور شامل ہو تاکہ نہ صرف ہاضمہ درست رہے بلکہ بھوک بھی کھل کر لگے۔ دونوں وقت گوشت کھانا صحت کے لیے سخت مضر ہے کہ اس سے یورک ایسڈ خون میں بڑھ جاتا ہے۔ پہلے عام طور پر گھرانوں میں یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ دوپہر میں دال، چاول یا سبزی مختلف اچار، چٹنی اور سلاد کے ساتھ، یوپی اور دہلی میں چپاتی کو بھی شامل کیا جاتا تھا جب کہ سائوتھ میں پاپڑ بھی دال چاول کے ساتھ لازمی جزو ہوتے تھے بلکہ اب بھی ہوتے ہیں لیکن گجرات میں چونکہ چاول اور آلو کا استعمال بہت زیادہ ہے اس لیے مٹاپے کا رجحان وہاں زیادہ ہے۔
افسوس کہ مغرب کی غلط نقالی میں ہم نے ایسی غذائی عادات اپنا لی ہیں جو بری طرح صحت تباہ کر رہی ہیں۔ ہماری قوم بھی عجیب ہے مغرب میں تو سچ بولا جاتا ہے' دوائوں میں اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہیں کی جاتی' صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے' ڈاکٹر مریض کا علاج اس کی جیب دیکھ کر نہیں کرتے' ایکسپائری ڈیٹ کی غذائی اشیاء ضایع کر دی جاتی ہیں لیکن ہم ان باتوں کی نقل نہیں کرتے بلکہ صرف ان باتوں اور عادات کو اپناتے ہیں جس سے فوراً یہ پتا چل جائے کہ آپ ''کلچرڈ'' ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ زور فاسٹ فوڈ کے استعمال اور غیرملکی لباس پر دیا جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے تمام چینلز پر سے نیوز ریڈر، میزبان اور دیگر پروگرام کرنے والی خواتین کے سروں سے پہلے دوپٹہ غائب ہوا اور اب سرے سے اس کا وجود ہی نہیں ہے کیونکہ آپ کو ترقی کرنا ہے وہ بھی خواتین کو شو پیس کے طور پر پیش کر کے تو اس کے لیے ضروری ہے خواتین کا مختصر لباس۔ دکھ کی بات یہ ہے اب والدین بھی اپنی بیٹیوں کی ''چہرہ نمائی'' کے لیے مختصر سے مختصر اور معیوب لباس پہننے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ غلام قومیں ایسا ہی کیا کرتی ہیں۔ مہذب قومیں زندہ رہنے کے لیے کھاتی ہیں لیکن ہم پاکستانی صرف کھانے کے لیے زندہ ہیں۔