سوچ کے انداز بدلیے
مارشل لاء سے عوام کو خاصی توقعات تھیں، کیوں کہ دنیا کے کئی ممالک میں 50ء اور 60ء کے عشرے میں فوج نے اقتدار سنبھالا
وفاقی وزیر داخلہ کے اعلان کے مطابق اسلام آباد کو آئین کی شق 245 کے تحت فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے اور دیگر شہروں میں بھی ضرورت کے مطابق فوج تعینات کی جا سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اقدام تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور علامہ قادری کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے کا ردعمل نہیں ہے، بلکہ شمالی وزیرستان آپریشن کے کسی ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔
تحفظ پاکستان بل (PPO) کے بارے میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے اس قسم کے قانون کا نفاذ ضروری ہو گیا تھا، حالانکہ یہ قانون پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عام آدمی کے قتل عام کا کھلا لائسنس دینے کے مترادف ہے۔ مگر آمرانہ سوچ کے حامل حکمرانوں کی سمجھ میں اپنے اقتدار کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔
اس میں شک نہیں کہ قوانین کی تیاری اور نفاذ وقت و حالات کی ضرورت کے تحت ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں قوانین کی تیاری کے وقت اس کے تمام پہلوئوں، مضمرات اور ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے، تا کہ یہ قوانین کسی بھی لمحہ عوامی مفاد کے خلاف استعمال نہ ہونے پائیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی قانون کا متن اور اس کے نفاذ کا طریقہ کار حکمرانوں کی ذہنیت (Mindset) کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر حکمران جمہوری مزاج کے حامل ہوتے ہیں، تو وہ ایسے قوانین تیار کرتے ہیں جو عوام کے مسائل میں اضافے کے بجائے ان کے حل کا سبب بنتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بننے اور نافذ ہونے والے بیشتر قوانین اس کلیے پر پورے اترتے ہیں؟ تو جواب نفی میں آئے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی حکمران فوجی آمروں سے زیادہ آمرانہ ذہن رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک جو قوانین یا آرڈیننس نافذ کیے گئے ہیں، ان کی اکثریت عوام دشمن رہی ہے۔ کیونکہ یہ عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے بجائے ان کی زندگیوں میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بنے ہیں۔ حیرت ان اہل دانش اور سیاستدانوں پر ہوتی ہے، جو اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کا ورد تو کرتے ہیں۔ مگر ان قوانین اور ان کے نفاذ کے طریقہ کار پر نظر ثانی کر کے انھیں بہتر بنانے پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، جن کا تعلق براہ راست عوامی زندگیوں سے ہوتا ہے۔
پاکستان کی 66 برس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کو سب سے زیادہ نقصان خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے پہنچایا ہے۔ فیوڈل ذہنیت رکھنے والی سیاسی قیادتیں اپنی اصلاح پر آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے وہی غلطیاں بار بار دہرا رہی ہیں، جو جمہوری عمل کو پٹری سے اتارنے کا سبب بنتی رہی ہیں۔ دوسرا غور طلب پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور غیر سیاسی دونوں طرح کے حکمران اچھی حکمرانی دینے میں ناکام رہے ہیں۔ فوجی آمریتیں ہمیشہ ادارہ جاتی مفاد کے چنگل میں پھنسی رہیں، جب کہ سیاسی حکومتیں سیاسی عزم و بصیرت سے عاری رہیں۔ فوج کو اقتدار کی راہ دکھانے اور اس کے اقتدار کو مضبوط بنانے میں بھی سیاسی جماعتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد آزاد ہونے والے ممالک کی پہلی ترجیح آئین سازی رہی۔ پڑوسی ملک بھارت ہی کو لیجیے، جہاں آزادی کے فوراً بعد آئین سازی کا کام شروع ہوا اور ڈھائی برس بعد پارلیمان کی منظوری سے 26 جنوری 1950ء کو آئین کا نفاذ ہو گیا، جس نے بھارت کو ایک سیکولر جمہوریہ بنا کر واضح سمت دیدی۔ مگر پاکستان میں اس اہم ضرورت کو دانستہ نظر انداز کیا گیا۔
ہماری پارلیمان کے اگست 1947ء سے اکتوبر 1954ء تک 7 برس کے عرصے میں صرف 156 اجلاس ہوئے ہیں، جس کا بیشتر حصہ آپس کے اختلافات، لڑائی اور اقتدار کی رسہ کشی کی نذر ہوا۔ باقی عرصہ اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بلوں پر بحث کرتے گزر گیا۔ اس عرصے میں صرف ایک پیش رفت ہوئی، وہ متنازع قرارداد مقاصد کی منظوری تھی۔ لیکن آئین سازی جیسے اہم معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد 1956ء میں آئین بنا اور اس کے تحت فروری 1959ء میں عام انتخابات ہونے کی توقع تھی۔ مگر اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگ گیا۔
مارشل لاء سے عوام کو خاصی توقعات تھیں، کیوں کہ دنیا کے کئی ممالک میں 50ء اور 60ء کے عشرے میں فوج نے اقتدار سنبھالا اور نظم حکمرانی میں بہتری لانے کی کوشش کی۔ سب سے بڑی مثال فرانس کی ہے، جس نے بعد از عالمی جنگ جنرل ڈیگال کو قومی تعمیر نو کی ذمے داری سونپی تو انھوں نے ادارہ جاتی مفاد سے بلند ہو کر چند ہی برس میں فرانس کو اس کے پائوں پر دوبارہ کھڑا کر دیا۔ اس فوجی جرنیل نے فرانس کو آئین دیا اور اس کا سابقہ وقار بحال کیا۔
اس کی وسیع النظری کا یہ ثبوت ہے کہ عظیم فلسفی ژاں پال سارتر نے جب الجزائر میں فرانسیسی کردار پر شدید تنقید کی تو کچھ حلقوں نے اس کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، جس پر ڈیگال نے شہرہ آفاق جملہ کہا کہ ''سارتر فرانس ہے اور میں فرانس کو گرفتار نہیں کر سکتا۔'' اس کے برعکس ایوب خان نہ تو ملک میں عوام کے لیے قابل قبول سیاسی و انتظامی ڈھانچہ متعارف کرا سکے اور نہ ہی اہل دانش کو توقیر دے سکے۔ بلکہ انھوں نے تو فیض احمد فیضؔ اور حبیب جالبؔ سمیت ہر روشن خیال اور ترقی دوست دانشور کو پابند سلاسل کر دیا۔ پروگریسو پیپرز کے اخبارات کو جبراً قومی تحویل میں لے آزادی اظہار کو پابہ زنجیر کر دیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جب اقتدار چھوڑنے کا مرحلہ آیا تو اپنے تیار کردہ آئین کو اپنے ہاتھوں سے پھاڑ کر اپنے متعارف کردہ نظام کو خود ہی ریت کا ڈھیر بنا دیا۔
صرف ان دو مثالوں پر ہی کیا موقوف، بے شمار ایسے فیصلے اور اقدامات تاریخ کا حصہ ہیں جو جمہوری نظم حکمرانی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ آئین سازی میں تاخیری حربے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد قرارداد مقاصد کی منظوری اور وفاقیت کے تصور کو نظر انداز کرتے ہوئے ون یونٹ کا قیام اور باوردی کمانڈر انچیف کو وزیر دفاع بنانے کا فیصلہ کسی اور نے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے کیا تھا۔ اسی طرح جب سابقہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی صوبائی انتخابات میں بے مثال کامیابی سے خوفزدہ ہو کر مغربی پاکستان کے سازشی رہنمائوں نے گورنر جنرل ملک غلام محمد کی مدد سے دستور ساز اسمبلی ہی کو تحلیل کروا دیا۔
دراصل ہمارے حکمران خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی حکمرانی ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ ویسے بھی وہ خطہ جو ڈھائی ہزار برس سے شمال سے آنے والے حملہ آوروں کے تلوے چاٹنے کا عادی ہو چکا ہو، اس کی Genes میں غلامی رچ بس جاتی ہے اور حکمرانی کے لیے درکار اعتماد پیدا کرنے میں کئی صدیاں بیت جاتی ہیں۔ پاکستان کی66 برس کی سیاسی تاریخ میں اس نفسیات کے جابجا مظاہر نظر آتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت جمہوریت نوازی کے لاکھ دعوے کرے، اس کا طرز عمل ہمیشہ جمہوریت مخالف ہی رہا ہے۔ کبھی ملٹری سمری کورٹس بنانے کی کوشش کی ہے۔ عدلیہ پر چڑھائی بھی اسی کے دور میں ہوئی۔ کبھی پندرھویں آئینی ترمیم کے ذریعہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کبھی آرمی چیف کو برطرف کر کے خود ہی جمہوریت کے پائوں پر کلہاڑی مار دیتی ہے۔ اب آئین کی شق245 کے تحت اسلام آباد کو تین ماہ کے لیے فوج کے حوالے کر کے فوج کو ایک بار پھر اقتدار میں آنے کی دعوت دے رہی ہے۔
اب دوسری طرف آیئے تحریک انصاف اور علامہ قادری کی عوامی تحریک جو اعتراضات اور نکات اٹھا رہی ہیں، ان کی حقانیت پر اختلاف ممکن نہیں۔ لیکن ان مسائل کے حل کے لیے وہ جو راستہ وہ اختیار کرنے جا رہے ہیں، وہ کسی بھی جمہوریت پسند حلقے کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ آج کا دور انقلابات کا نہیں بلکہ پارلیمان کے ذریعہ نظم حکمرانی میں بہتری لانے کا دور ہے۔ ویسے بھی پارلیمان سے باہر کیے گئے فیصلے نہ تو جمہوری ہوتے ہیں اور نہ ہی پائیدار۔ اس لیے ان سے گریز ضروری ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ 1958ء میں خان عبدالقیوم خان مرحوم نے بھی لانگ مارچ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ایوب خان کی آمریت دس برس تک اس ملک پر مسلط رہی تھی۔ اسی طرح انتخابی دھاندلیوں کے خلاف PNA کی تحریک جنرل ضیاء کے مارشل لاء پر منتج ہوئی تھی۔ کچھ بعید نہیں کہ 14 اگست سے چلنے والی تحریک ملک کو ایک نئے سیاسی بحران میں مبتلا کرنے کا سبب بن جائے اور جمہوریت ایک بار پھر پٹری سے اتر جائے۔
لہٰذا پاکستان کا ہر متوشش شہری تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ فہم و دانش کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں گی۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے مکالمہ اور گفت و شنید کی کلیدی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ان شکایات اور اعتراضات پر مکالمہ کا راستہ اختیار کرے گی، جو متذکرہ بالا جماعتیں پیش کر رہی ہیں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو سیاست کے افق پر امڈنے والے طوفان کا رخ موڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔