ن لیگ ق لیگ اور شاعر انقلاب حبیب جالبؔ

حبیب جالبؔ چونکہ خود بھی ایک بے باک آدمی تھے، لہٰذا چوہدری ظہور الٰہی کی بے باکانہ سیاست کو پسند کرتے تھے

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

شاعر انقلاب حبیب جالبؔ مرحوم کی روح یقیناً مسرور ہو گی کہ کل اگر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف انقلابی ترانے گا رہی تھی، اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کوئی خطاب حبیب جالبؔ کی انقلابی نظم ''دستور'' کے اس بند کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا تھا۔

تو آج مسلم لیگ ق، ڈاکٹر طاہر القادری کے شانہ بہ شانہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف انقلاب کی نوید سنا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چوہدری برادران کے خطاب میں شاعر انقلاب کا کوئی انقلابی مصرعہ، شعر یا بند نہیں ہوتا ہے۔ 1977ء میں بھٹو حکومت ختم ہونے کے چند روز بعد چوہدری ظہور الٰہی لانڈھی جیل کراچی سے رہا ہوئے، اور بائی ٹرین لاہور کے لیے روانہ ہوئے، تو ان کے ڈبے میں نوجوان رہنما شیخ رشید احمد اور دیگر افراد کے علاوہ شاعر انقلاب حبیب جالبؔ بھی تھے۔

شیخ رشید احمد اوائل عمری کے اس سیاسی سفر کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، 'راستے میں جہاں کسی اسٹیشن پر ہماری ٹرین کچھ دیر کے لیے رکتی، وہاں پہلے سے موجود مسلم لیگی کارکنوں کی نعرے بازی کی وجہ سے ایک جلسے کا ماحول پیدا ہو جاتا، جسے حبیب جالبؔ اپنی انقلابی شاعری سے مزید گرما دیتے تھے۔ دوران سفر، حبیب جالبؔ نے نوجوان شیخ رشید احمد سے کہا، ہر آدمی اپنا مقدر ساتھ لے کر آتا ہے، میری آنکھوں کے سامنے کئی غریب نوجوان سیاست میں آئے اور رل گئے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری پیشانی چمک رہی ہے، ہو سکتا ہے کہ تم مقدر کے سکندر نکلو۔ شیخ رشید احمد کے بقول، ابھی یہ بات جاری تھی کہ اگلا اسٹیشن آ گیا، جہاں ان کے کسی عقیدت مند نے فالسے کی ایک بڑی بوتل ان کو تھما دی، جس کے ساتھ پھر وہ راستے میں مگن رہے۔

حبیب جالبؔ چونکہ خود بھی ایک بے باک آدمی تھے، لہٰذا چوہدری ظہور الٰہی کی بے باکانہ سیاست کو پسند کرتے تھے۔ بھٹو دور میں چوہدری ظہور الٰہی کی بے باکانہ سیاست پر حبیب جالبؔ کے یہ اشعار اپوزیشن کے جلسوں مستقلاً پڑھے جاتے تھے ؎

سر نہیں تو نے جھکایا ظلم کی دہلیز پر

قوم کی خاطر لگا دی تو نے بازی جان کی

لوگ کیا کیا بک گئے تو نے نہیں بیچے اصول

تیرے دامن کو بہت ہے دولت عشق رسول ؐ

بھٹو کے دور ستم کو جھیلنے کی وجہ سے چوہدری ظہور الٰہی، جنرل ضیا الحق کے بہت قریب ہو گئے تھے۔ حبیب جالبؔ کے لیے مگر جنرل ضیا الحق صرف ایک مرد آمر تھا اور اس کا عہد فقط ایک عہد ستم۔ چنانچہ جس طرح وہ بھٹو کے خلاف برسرپیکار رہے، اس طرح جنرل ضیا الحق کے خلاف بھی شمشیر برہنہ بنے رہے ؎

کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں

عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے


نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں

حق بات پہ کوڑے اور زنداں، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں

انسان ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں

اس ظلم و ستم کو لطف و کرم، اس دکھ کو دوا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

لیکن اس عرصہ میں بھی جب کہ چوہدری ظہور الٰہی، جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے، وہ حبیب جالبؔ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس دور میں یہ واقعہ تو بہت ہی مشہور ہوا کہ حبیب جالبؔ کو کہیں پولیس نے دھر لیا، اور سول لائنز تھانے لے جا کر حوالا ت میں بند کر دیا۔ چوہدری ظہور الٰہی کو معلوم ہوا، تو وہ پروٹوکول کی پرواہ کیے بغیر رات ہی کو انھیں چھڑانے کے لیے تھانے پہنچ گئے۔ جنرل ضیا الحق کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ تعجب کا اظہار کیا، بلکہ ان سے شکوہ کرتے ہوئے کہا، چوہدری صاحب جانے کی کیا ضرورت تھی، مجھ سے کہہ کے ایک آرڈیننس جاری کروا دیتے کہ استاد دامنؔ اور حبیب جالبؔ کے سوا، باقی سب کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

چوہدری ظہور الٰہی کی موت کے بعد چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے بھی حبیب جالبؔ کا اسی طرح خیال رکھا، جس طرح چوہدری ظہور الٰہی اپنی زندگی میں رکھا کرتے تھے۔ ابھی جنرل ضیا الحق کا دور چل رہا تھا، جب چوہدری شجاعت حسین، جونیجو حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بن گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'ایک روز میں ایوان وزیر اعظم پہنچا، تو معلوم ہوا کہ وزیر اعظم جونیجو کی ہدایت پر وزیر خزانہ مستحق دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کی فہرستیں بنا رہے ہیں تا کہ ان کی مالی امداد کی جا سکے۔

وزیر اعظم نے مجھ سے کہا، آپ کے ذہن میں اگر کوئی نام ہے، تو آپ بھی بتا دیں۔ میں نے حبیب جالبؔ کا نام دیدیا۔ وزیر اعظم جونیجو نے پانچ لاکھ روپے کی امدادی چیک کی منظوری دیدی، اور کہا کہ یہ چیک آپ خود ہی ان تک پہنچا دیں۔ میں پانچ لاکھ روپے کا چیک لے کر حبیب جالبؔ کے گھر پہنچا۔ ملتان روڈ پر یہ بہت چھوٹا سا، تنگ سا اور معمولی سا گھر تھا۔ میں نے بتایا کہ اس طرح وزیر اعظم نے شاعروں اور ادیبوں کے لیے سرکاری امداد کا اعلان کیا ہے۔ میں آپ کے لیے بھی پانچ لاکھ روپے کا چیک آیا ہوں۔

مجھے یاد ہے کہ حبیب جالبؔ نے اپنی بیوی کو بلایا اور پھر ان کی موجودگی میں مجھ سے کہا، میرا گزارا ٹھیک چل رہا ہے۔ حکومت کا یہ پانچ لاکھ کا چیک میں کسی قیمت پر نہیں لوں گا، یہ آپ حکومت کو واپس کر دیں۔ میں نے ان کا منانے کی بہت کوشش کی، اور کہا کہ یہ حکومت کا آپ پر کوئی احسان نہیں، بلکہ آپ کا حق ہے لیکن وہ نہیں مانے۔ چنانچہ، میں نے پانچ لاکھ کا وہ چیک حکومت کو واپس کر دیا۔ اس طرح کے بے نیاز آدمی تھے حبیب جالبؔ' چوہدری شجاعت حسین نے کہا۔

بات ہو رہی تھی کہ حبیب جالبؔ کی شاعری کی، ان کے انقلاب کی، اور ان کی روح کی، کہ یقیناً آج وہ بہت 'مسرور' ہوں گے کہ گلی محلہ سے لے کر عالی شان محلات تک اور حکومت سے لے کر اپوزیشن تک، سب ان کے انقلابی ترانوں پر سر دھن رہے ہیں۔ ان کے انقلابی ترانوں کی روح کیا تھی، اس کی کسی کو پرواہ ہے، نہ دماغ۔ انھی کی غزل کا ایک شعر ہے ؎

یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
Load Next Story