دہشتگردی امریکا کا سب سے موثر ہتھیار

مسلم ممالک کے مضبوط ہونے کا مطلب امریکا کے نزدیک یہ ہے کہ اسرائیل غیر محفوظ ہو سکتا ہے۔

غزہ لہو لہو ہے۔ نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی درندگی چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ صورت حال اتنی وحشتناک ہے کہ ان الم ناک واقعات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ترجمان بھی رو پڑے۔ جب صدر بارک اوباما برسراقتدار آئے تو انھوں نے امریکی جیوش لابی کو واضح طور پر یقین دہانی کرائی کہ جو امریکا کا مفاد ہے وہ اسرائیل کا مفاد ہے اور جو اسرائیل کا مفاد ہے وہ امریکا کا مفاد ہے۔ ان دونوں معاملات میں کوئی تضاد نہیں۔ اس لیے اسرائیل کی سلامتی امریکا کی ذمے داری ہے۔ اسرائیل کی حفاظت صرف اس صورت ہی ممکن ہے۔ جب اس کے ہمسائے کمزور ہوں۔ یعنی عراق' شام' لبنان اور ایران۔

ان مسلم ممالک کے مضبوط ہونے کا مطلب امریکا کے نزدیک یہ ہے کہ اسرائیل غیر محفوظ ہو سکتا ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ ان ملکوں کو دہشت گردی کے ذریعے غیر مستحکم کر دیا جائے اور آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکی صدر نے کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پانچ سو ملین ڈالر کی منظوری دے تا کہ یہ رقم شام میں حکومت کے مخالفین کی مسلح تربیت اور انھیں جدید ترین اسلحے سے لیس کرنے پر صرف کی جائے۔

اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کی مخالف جنگجو تنظیمیں اس کثیر رقم سے شامی حکومت کو کمزور کرتے ہوئے اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنائیں گی۔ علاوہ ازیں امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا اس بات پر یقین کر چکا ہے کہ شام میں امریکی فوجی مداخلت کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ شام میں موجود شدت پسندوں کو مزید مسلح کیا جائے اور ان کو کمزور ہونے سے بچایا جائے۔

ترجمان کارلٹن ہیڈن نے مزید کہاکہ ان پانچ سو ملین ڈالر کے علاوہ ا یک بلین امریکی ڈالر کی مزید منظوری بھی درکار ہے جو شام کے پڑوسی ممالک ترکی' لبنان' اردن اور عراق میں ان شدت پسندوں کی مدد کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ یہ تمام شواہد ثابت کرتے ہیں یہ امریکی ہی تھے جنہوں نے شام میں لڑنے والے گروہوں کو اردن کے سرحدی علاقوںمیں قائم خفیہ امریکی اڈوں پر خصوصی تربیت فراہم کی۔اب نئی ابھرتی ہوئی عراقی تنظیم کے بارے میں بھی سن لیں جو عراق میں کئی مزاروں کو مسمار کرچکی ہے۔

اس تنظیم کے سربراہ کے بارے میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے انکشاف کیا ہے کہ وہ بھی مغرب کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایک کردار ہے ۔سنوڈن نے کہا کہ اس تنظیم کا مقصد تمام دنیا کے لیے بڑے خطرات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا تھا تا کہ انھیں ایک جگہ سے کنٹرول کیا جا سکے اور عرب ممالک میں انتشار پھیلایا جا سکے۔

سنوڈن نے کہا کہ امریکا برطانیہ اور اسرائیل کے نزدیک صہیونی ریاست کی حفاظت کے لیے اسرائیل کی سرحدوں کے قریب ا یک جنگجو تنظیم ضروری ہے۔ اب تو آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ ا مریکی سامراج کی زندگی مسلم ملکوں کے اندر دہشت گردی میں پوشیدہ ہے۔ امریکی سرپرستی میں یہ دہشتگردی جو پچھلی کئی دہائیوں سے چل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے قارئین کو پتہ نہ ہو کہ یہ صاحب ایڈورڈ سنوڈن کون ہیں؟۔


یہ امریکی خفیہ تنظیم سی آئی اے کے سابق اہلکار ہیں۔ اس تنظیم میں رہتے ہوئے انھوں نے امریکا کی دوسرے ممالک کے خلاف سازشوں اور تخریب کاریوں کو قریب سے دیکھا لیکن ایک امریکی ہونے کے باوجود ان کے ضمیر نے ملامت کی تو انھوں نے اپنے ملک کی سازشیں دنیا پر منکشف کر دیں۔ اس کے بعد تو امریکا ان کے خون کا پیاسا ہو گیا۔ یہ اپنی جان بچانے کے لیے پوری دنیا میں چھپتے پھرے۔ آخر کار روس نے انھیں پناہ دی تو ان کی جان بچی۔ امریکا اس حرکت پر روس سے سخت ناراض ہے۔

دوسری بڑی گستاخی روس کی امریکا کو شام پر حملہ نہ کرنے دینا ہے جس کی سزا روس کو یوکرین کی شکل میں مل رہی ہے۔ اب تو آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکی سامراج کی زندگی مسلم ملکوں کے اندر دہشت گردی میں پوشیدہ ہے۔ امریکی سرپرستی میں یہ دہشت گردی جو پچھلی کئی دہائیوں سے چل رہی ہے، مستقبل میں اس کے ختم ہونے کے تو کیا کم ہونے کا بھی امکان نہیں۔ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ کیونکہ سامراج کے ہاتھوں یہ وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے، محکوم بنانے ان کے وسائل پر قبضہ جمانے کا اس سے نادر نسخہ کوئی اور نہیں۔

سب کو پتہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کا تیل سامراج کی لائف لائن ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے ہی اس خطے میں اسرائیل کو وجود میں لایا گیا جو امریکا کی 53 ویں ریاست ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ریاست امریکا میں نہیں مشرق وسطیٰ میں واقع ہے۔مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری اور سیکریٹری جنرل ناصر شیرازی نے غزہ کے مظلوم عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایک سیمنار منعقد کیا۔ یہ اجتماع اس ضمن میں تھا کہ مسلمان اپنے تمام تر اختلافات ختم کرتے ہوئے کسی پر انحصار کرنے کے بجائے متحد ہوں تا کہ اسرائیل کے دست ظلم کو توڑا جا سکے۔ جس طرح ایران' فلسطینی بھائیوں کی ایک طویل مدت سے مالی' اسلحی اور ہر طرح کی مدد کر رہا ہے۔

نتیجہ سامراج کے ہاتھوں ہر طرح کا نقصان اٹھا رہا ہے۔ حماس نے چند دن پیشتر لبنان کی حزب اللہ سے اپیل کی ہے کہ و ہ اسرائیل کے خلاف لڑائی میں اس کی مدد کرے۔ یہ وہی حزب اللہ ہے جس نے چند ہزار کی تعداد میں کمتر اسلحے کے باوجود اسرائیل جیسی جنگی مشینری رکھنے والے ملک کو جس کا سرپرست امریکا ہے مکمل شکست دی۔ انھیں اسرائیل نے سرکاری طور پر تسلیم بھی کیا۔ شام و عراق میں جو گروہ لڑ رہے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنے جہاد کا رخ اسرائیل کی طرف موڑیں۔ اس طرح ہی وہ اپنے آپ پر سے سامراج کا ایجنٹ ہونے کا لیبل مٹا سکتے ہیں۔

غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی حملے کب ختم ہوں گے۔ اس کا پتہ 4 اگست سے 14 اگست کے درمیان چلے گا۔

سیل فون:0346-4527997
Load Next Story