مشرق وسطیٰ میں سامراجی سازشیں
خطے میں تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ’امن مذاکرات‘ کا نہ رکنے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے
اکانومسٹ کے مطابق 2004 میں آخری انتفاضہ کو کچلنے کے بعد سے یہ اسرائیل کی بدترین جارحیت ہے۔ لیکن یہ جارحیت اسرائیل کے خلاف نہ صرف غزہ میں بلکہ مغربی کنارے اور اسرائیل کے اندر بھی ایک نفرت اور شدید غم وغصے کی کیفیت کو جنم دینے کا باعث بنتی جارہی ہے۔ اسرائیل کی اس جارحیت کے خلاف اسرائیلی شہروں حائفہ، فاروتکن اور حدیرا جیسے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور کینیڈا کے لاکھوں عوام کا اسرائیلی جارحیت اور غزہ کے بدحال عوام کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
مظاہرین میں بیشتر شہری کمیونسٹ، انارکسسٹ، سوشلسٹ اور جنگ مخالف عوام شریک ہیں، جب کہ امریکا کھلم کھلا اور برطانیہ، جاپان، فرانس، جرمنی، اٹلی، یونان، اسپین، کینیڈا اور آسٹریلیا کی حکومتیں خاموش اسرائیل کی حمایت کررہی ہیں۔ اسرائیل، غزہ میں حماس اور مغربی کنارے میں الفتح کے مابین مفاہمت کا خواہشمند ہے۔ اس لیے بھی کہ ان دونوں علاقوں کے حکمرانوں کے خلاف حزب اختلاف تیزی سے عوامی قوت بنتی جارہی ہے، جس سے اسرائیل، حماس اور الفتح کو اس علا قے میں پھر سے 'بہار انقلاب' کا خطرہ نظر آتا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے بالعموم اور 2008 کے بعد سے بالخصوص، کرۂ ارض پر شاید ہی کوئی ملک عدم استحکام اور انتشار سے محفوظ رہا ہو۔ معاشی اور سیاسی بحران یا پھر خانہ جنگیاں، خونریز تصادم اور دہشت گردی، ترقی یافتہ ممالک سے لے کر تیسری دنیا تک سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت، اپنا اظہار مختلف سطحوں، شدت اور طریقوں سے کر رہی ہیں۔ عراق، پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں کھلی بربریت انسانی سماج پر منڈلا رہی ہے تو یورپ اور امریکا کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک معاشی زوال، گرتے ہوئے معیار زندگی اور سیاسی تطہیر کا شکار ہوچکے ہیں، تاہم کسی بھی خطے میں عوام کے مصائب کا موازنہ اس اذیت، غیر یقینی صورت حال اور ظلم و استحصال سے نہیں کیا جاسکتا، جس کا شکار ہوئے مشرق وسطیٰ کے باسیوں کو تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر سامراجیوں نے اپنے معاشی مفادات کے تحت اس خطے کو 1916 کے سائیکس پیکوٹ اور 1918 کے بالفور سمجھوتے کے ذریعے مصنوعی ریاستوں میں تقسیم کیا تھا۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد شعوری طور پر قومی اور مذہبی تضادات کو ابھار کر مشرق وسطیٰ کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار رکھنے کے لیے اسرائیل کو سامراجی قلعہ بنایا گیا۔ فلسطین مشرق وسطیٰ کے سینے پر ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے۔
خطے میں تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور ریاستی و غیر ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ 'امن مذاکرات' کا نہ رکنے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عوام صہیونیت کی وحشت، اسلامی بنیاد پرستی کی رجعت، مطلق العنان بادشاہتوں کے جبر اور سامراجی استحصال کے ہاتھوں تاراج ہورہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ انتشار اور خونریزی بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت شام اور عراق میں جاری مختلف سامراجی قوتوں کے آلہ کاروں کی جنگ میں مذہبی جنونیوں اور قوم پرستوں کے درجنوں مسلح گروہ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں اور خطے کی تقسیم در تقسیم کا تناظر روز بروز زیادہ واضح ہوتا جارہا ہے۔
1950، 60 اور 70 کی دہائیوں میں انقلابی تحریکیں یا عوامی دباؤ کے نتیجے میں مصر، شام، عراق، یمن اور لیبیا میں بائیں بازو کی حکومتیں برسر اقتدار آئیں، جنھوں نے کم از کم سامراج کی جعلی سرحدوں کو مٹانے کی سعی ضرور کی۔ 1958 سے 1961 تک قائم رہنے والی مصر اور شام کی 'متحدہ عرب ریپبلک' اور مصر، شام اور یمن کی 'ریاست ہائے متحدہ عرب' اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ خود کو سوشلسٹ قرار دینے والی ان ریاستوں نے بڑے پیمانے پر سامراجی اثاثوں اور سرمائے کو قومیانے اور زرعی اصلاحات کے ذریعے منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت کا خاتمہ کرکے منصوبہ بند معیشتوں کی تعمیر کا عمل شروع کیا، جس سے عوام کا معیار زندگی تیزی سے بلند ہوا۔
تاہم بعث سوشلسٹ پارٹی کے علاقائی دھڑوں پر تنگ نظر قوم پرستی کی چھاپ، معیشت میں افسر شاہانہ بدانتظامیوں اور ریاستی جبر کی وجہ سے ان کا انہدام ہونا ناگزیر تھا۔ دو دہائیوں بعد 2011 میں انقلاب کے نئے ابھار کا آغاز تیونس سے ہوا۔ بحراوقیانوس سے بحر عرب تک بپھرے ہوئے محنت کشوں اور نوجوانوں کا یہ ریلا ایک کے بعد دوسرے ملک میں سرائیت کرتا چلا گیا۔ بظاہر چٹان کی طرح نظر آنے والی دہائیوں پرانی مطلق العنان آمریتیں ریت کے پہاڑ کی طرح ڈھے گئیں، بچ جانے والی آج تک لڑکھڑا رہی ہیں۔ عوام نے تحریکیں اس معاشی نظام اور اس کے سیاسی ڈھانچوں کے خلاف برپا کی تھی، جس نے ان کی زندگیوں کو نسل در نسل استحصال اور جبر کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
مصر اور تیونس کے نوجوان سرمائے کی 'جمہوریت' کے بجائے بے روزگاری سے تنگ آکر سڑکوں پر نکلے تھے۔ جولائی 2011 میں اسرائیل میں بھی بڑے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ملک کی کل 77 لاکھ کی آبادی کا 10 فیصد حصہ 'سوشلزم اور سماجی انصاف'، 'ایک مصری کی طرح آگے بڑھو' اور 'مبارک، زین العابدین، نیتن یاہو مردہ باد' کے نعروں کے ساتھ یروشلم، حائفہ اور تل ابیب کی سڑکوں پر تھا۔ 'عرب بہار' کے نام سے پکارا جانے والا انقلابات کا سلسلہ پورے خطے کا جغرافیہ، معیشت اور سیاست کو یکسر بدل سکتا تھا لیکن فکری یکجہتی، درست تناظر اور لائحہ عمل نہ ہونے کے سبب تحریکوں کی زوال پذیری ناگزیر تھی۔
ان حالات میں عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتوں کو اپنی سیاسی کٹھ پتلیوں اور آلہ کار گروہوں کے ذریعے مداخلت کے مواقع میسر آئے اور کئی ممالک میں انقلابی تحریکیں خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئیں۔ شامی خانہ جنگی سے برآمد ہونے والے آئی ایس آئی ایل نامی جنونی گروہ کے ابھار سے شام اور عراق میں بربریت اور خونریزی کے نئے سلسلے کا آغاز ہوچکا ہے۔ ادھر مشرق وسطیٰ کے ممالک سامراجی خوشنودی کے لیے بلاواسطہ اور بالواسطہ اسرائیلی حکمرانوں سے تعلقات بنائے رکھے ہوئے ہیں۔
اردن کے بادشاہ نے 1970 میں جب فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے تو جنرل ضیاالحق کی قیادت میں فلسطینیوں کو کچلا گیا تھا، اسی دوران فلسطینی رہنما دائود بھی قتل ہوئے تھے۔ فلسطینیوں کا مسئلہ مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کے جینے کا بنیادی حق ہے۔ فلسطینیوں کی بائیں بازو کی سب سے بڑی تنظیم پی ایف ایل پی کے بانی سربراہ جارج حبش عیسائی تھے اور اسرائیلی فوج سے مسلح جدوجہد کرتے ہوئے شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کا رہنما تل ابیب کا میئر رہ چکا ہے اور گزشتہ میئر کے انتخابات میں کچھ ووٹوں سے ہارا ہے۔
امریکی سامراج کی مدد کے بغیر اسرائیل ایک دن بھی نہیں لڑسکتا، جب کہ سعودی عرب، عرب امارات اور ترکی کے امریکا سے نہ صرف بہتر تعلقات ہیں بلکہ 80 فیصد تجارت ان ملکوں کی امریکا سے ہے۔ فلسطین کی آزادی درحقیقت ریاستی جبر اور سرمایہ داری سے آزادی کی جنگ ہے۔ عالمی سامراج یعنی سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک غیر طبقاتی نظام کے قیام کے بغیر کسی قسم کی آزادی ممکن نہیں۔