پروفیسر نسیم نگہت سیما…
بیگم صاحبہ ایک باہمت خاتون تھیں، اپنی طویل بیماری سے بلاخوف لڑیں اور سالہاسال اس کو شکست دی
بٹالہ (مشرقی پنجاب انڈیا) کے ایک علمی خانوادے میں 3 اکتوبر 1947 کو جنم لینے والی نازک سی بچی ایک دن احمد دین کی چھ اولاد میں سب سے نامور ہوگی، کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ایک بھائی اور پانچ بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے زمانے کے رسم و رواج کے مطابق اوائل عمر سے ہی ماں کے ساتھ گھرداری کے تمام ہنر سیکھنے کے ساتھ ہی دینی اور عصری تعلیم کے مراحل بھی دلچسپی سے طے کیے۔ بسم اﷲ بھی بڑے چائو سے ہوئی اور اسی کا فیض تھا کہ کتاب و قلم سے رشتہ شخصیت کا خاص جوہر بنا اور اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے قبل آخری لفظ ''اللہ'' دل مومن کی آواز بناکر فضائوں کو گواہ بنایا گیا کہ اپنے محبوب کے حضور پہنچنے کے لیے روح مضطرب ہے۔
ہجرت کے بعد احمد دین کے گھرانے نے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کو اپنا مسکن بنایا۔ آزادی کے فیوض کے ساتھ ہی زندگی کے مسائل بھی احمد دین صاحب کے سامنے تھے، لیکن انھوں نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ طالبات کے تعلیمی مواقعوں کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ قیام پاکستان کے ابتدائی عشرے میں کتنے گھٹن حالات سے گزر کر والدین اپنی بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہوں گے۔ ایسے ہی صبرآزما ماحول میں نسیم نگہت سیما نے اپنے سفر زیست کا عملی آغاز کیا تھا۔
اپنے پورے تعلیمی دورانیے میں نمایاں طالب علم کی شناخت برقرار رکھتے ہوئے امتیازی حیثیت میں ایم اے (اردو) اور ایم ایڈ کیا اور 12 اگست 1972 کو انواراحمد زئی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ کر بابل گھر سے پیا دیس آبسیں۔ اس نئے سفر کے نشیب و فراز کو انھوں نے زئی صاحب سے ملنے والے اعتماد، حوصلے اور محبت کے سبب کچھ ایسے طے کیا کہ خاندان کا ہرفرد ان ہی کے گن گاتا۔ زئی صاحب کی شخصیت ہمہ جہتی کی علامت ہے، ایسی متحرک اور فعال سماجی زندگی رکھنے والے اکثر احباب کی بیگمات ان سے شاکی دکھائی دیتی ہیں لیکن نسیم صاحبہ مشرقیت کا پیکر تھیں، انھوں نے صبر و رضا کے ساتھ اپنے سرتاج کا ہرآزمائش کے مرحلے پر بھرپور ساتھ دیا۔
علمی ادبی، تدریسی، ملازمتی ذمے داریوں کے سبب زئی صاحب کے شب وروز کبھی کسی ملک میں کبھی کسی شہر میں گزرتے، گھر بھی دفتر کا منظر پیش کرتا، لیکن بیگم صاحبہ نے زئی صاحب کو گھریلو سکون دیتے ہوئے اس بات کو سچ کر دکھایا کہ ''ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے''۔ ملازمت اور خانگی ذمے داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اولاد کی ایسی تربیت کی کہ بیٹا عزیز احمد زئی مقابلے کا امتحان دے کر سی ایس ایس آفیسر بنا اور آج کل کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ایک ہم منصب پر فائزہے۔ جب کہ بیٹی صائمہ ارشد ایک کامیاب سرکاری ڈاکٹر کے طور پر معاشرے میں اپنی شناخت رکھتی ہے۔ زئی صاحب کے سماجی مرتبے اور سرکاری مناصب کو انھوں نے کبھی بھی اپنے اور بچوں کے لیے ترقی کی سیڑھی نہیں بنایا۔
انھوں نے سرکاری ملازمت ایسے وقتوں میں بھی انکساری اور عاجزی کے ساتھ کی جب زئی صاحب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر، ڈائریکٹر ایجوکیشن، کراچی کے پہلے ڈائریکٹر سیکنڈری و ہائر سکینڈری اسکولز بنے، یا ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم ہوئے۔ اس کے باوجود انھوں نے اصول و ضوابط کے تحت ملازمت کی اور کبھی اپنے لیے بے جا مراعات کے حصول کو ممکن نہ بنایا اور پوری توجہ ایمانداری کے ساتھ تدریس پر مرکوز رکھی۔ آج ان کے بے شمار شاگرد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ممتاز حیثیتوں میں ملک اور بیرون ملک خدمات انجام دے کر ان کے نام کو روشن رکھنے کا موجب ہیں۔
نسیم صاحبہ نے بحیثیت معلم اور صدرمعلم اپنی بہترین علمی اور انتظامی صلاحتیوں کا لوہا اپنے مخالفین سے بھی منوایا۔ اپوا سیکنڈری وہائر سیکنڈری اسکول، لیاقت آباد کراچی میں ان کے دور صدر معلمی کے امتحانی نتائج اور ہم نصابی سرگرمیوں میں طالبات کی امتیاز شان آج بھی بے نظیر ہے، آپ کی تکمیل ملازمت بھی اسی ادارے سے ہوئی۔
پروفیسر نسیم نگہت کو اردو ادب سے خاص لگائو تھا، اچھا شعری ذوق رکھتی تھیں، شعرگوئی بھی ہوجاتی، تصنیف وتالیف سے بھی شغف رہا، اس ضمن میں بھی زئی صاحب کو سرفہرست رکھا اور ان کے مضامین کو ''قلم گوید'' کے نام سے مدون کیا۔ ان کے دیور ڈاکٹر مسرور احمد زئی کے زیرادارت حیدرآباد سے ادبی پرچہ سہ ماہی ''عبارت'' شایع ہوتا ہے اور اس کے سرپرست انواراحمد زئی ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی ادبی صحافت کا آغاز ڈاکٹر شکیل احمد خان کے ممتاز رجحان ساز ادبی جریدے سہ ماہی ''لوح ادب'' حیدرآباد سے کیا۔ یہاں بھی انھوں نے دیور اور شوہر کے بجائے اپنی علیحدہ شناخت کو اپنی محنت اور پاس اصول سے ممکن کیا۔
بیگم صاحبہ ایک باہمت خاتون تھیں، اپنی طویل بیماری سے بلاخوف لڑیں اور سالہاسال اس کو شکست دی، ایک وقت تو ایسا بھی آیاکہ جب ان کا دوسرا گھر اسپتال ٹھہرا، ایسے حالات میں بھی انھوں نے زئی صاحب کو ہر فکر سے آزاد رکھا، کیوں کہ آپ اچھی طرح جانتی تھیں کہ پورے ملک اور سندھ کے تعلیمی بورڈز کے چیئرمینز کمیٹی کے چیئرمین ہونے کا اعزاز اور سندھ کے سب سے بڑے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے چیئرمین کی منصب داری کتنے حساس نوعیت کے کار سرکار ہیں اور زئی صاحب کا ایک ایک لمحہ طلبا کی امانت ہے۔
اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بیگم صاحبہ پرسکون لیٹی ہیں، رفتہ رفتہ عزیزواقارب اور احباب آجا رہے ہیں، زئی صاحب خاموش کسی گہری سوچ میں جیسے اگلے ''پڑائو'' کے مسافر سے بہت کچھ کہنا چاہتے ہوں، مانیٹر کی اسکرین پر دل کی منتشر دھڑکنیں، نبض کی ابھرتی ڈوبتی رفتار، زئی صاحب کے صبرواستقامت کا ہر لمحے امتحان لے رہی تھیں، پہلی بار بیگم صاحبہ کے لیے ان کے دل میں چھپے محبت کے بحر بیکراں کو ان کی آنکھوں سے چھلکتا ہوا صاحب نظروں نے دیکھا۔ ان کے سامنے ان کی ذات کا بین السطور، لیٹے ہوئے دھیمے دھیمے سے کہہ رہا تھا، ''ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم کو تتلیوں کے جگنوئوں کے دیس جانا ہے''۔
ماں کے دلارے عزیز احمد زئی اور دلاری صائمہ ارشد اپنے بابا کے دائیں بائیں گم صم کھڑے ہیں۔ نماز عصر کی ادائیگی کے بعد اہل خانہ اور عزیز واقارب دعائوں میں مصروف ہیں، افطاری میں ابھی ایک گھنٹے سے کچھ کم وقت باقی ہے، اچانک ہلچل مچتی ہے، ڈاکٹرز مستعدی سے بیگم صاحبہ کے گرد جمع اور بشری کوششیں جاری ہیں، مانیٹر کی اسکرین آہستہ آہستہ خاموش ہورہی ہے۔ 16 جولائی 2014 کا سورج ابھی غروب نہیں ہوا، لیکن نسیم نگہت سیما، اپنے رب کی بارگاہ کے آسمان جنت پر چودھویں کا چاند بن چکی تھیں۔ اﷲ مغفرت کرے۔