بچے کے بازو کٹنے کی واردات جرم یا حادثہ

پولیس کا روایتی کردار، مسیحاؤں کی بے حسی، وزیرِ اعلٰی کا چیک، کیش کون کرائیگا؟


عبدالستار مرزا August 03, 2014
پولیس کا روایتی کردار، مسیحاؤں کی بے حسی، وزیرِ اعلٰی کا چیک، کیش کون کرائیگا؟۔ فوٹو: فائل

اشرف المخلوقات قرار دے کر اس روئے زمین پر بھیجے جانے والا انسان بعض اوقات خود غرضی میں ایسے اقدامات سے بھی گریز نہیں کرتا جو دنیاوی اور اخروی زندگی میں نہ صرف اُس کے لیے بل کہ اُس سے جڑُے اور اردگرد بسنے والوں کے لیے بھی کرب کا باعث بن جاتے ہیں۔

21 جولائی 2014 کی صبح گجرات کے نواحی گائوں چک بھولا کے رہائشی زمین دار نصر اقبال کے کم سن بیٹے تبسم شہزاد کے ساتھ ظلم و بربریت کی وہ داستان رقم ہوئی کہ انسانیت بھی شرمندہ ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

تھانہ صدر گجرات میں نصر اقبال نے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وقوعے کے روز صبح ساڑھے دس بجے وہ اپنی رہائش سے ملحقہ اراضی پراپنے بھائی جاوید اقبال اور چچا نذر حسین کے ساتھ تھا کہ اُس کا دس سالہ بیٹا تبسم شہزاد قریبی کھیتوں میں مال مویشی چرانے والے غلام مصطفٰی عرف نومی کے ڈیرے پر ٹیوب ویل پر نہانے چلا گیا جہاں غلام مصطفٰی نے اُن کے دیکھتے ہی دیکھتے تبسم کو پکڑا اور اس کے دونوں ہاتھ ایک کپڑے سے باندھے اور ٹیوب ویل کے پیٹر کی شافٹ میں دے کر کاٹ ڈالے جس پر اُس کا بیٹا بے ہوش ہوگیا اور ملزم فرار ہوگیا، جس کے بعد بیٹے کو لے کر وہ بھمبر روڈ پر واقع گجرات اسپتال پہنچ گئے.

لیکن اگلے ہی روز 22 جولائی کو اُسے گورنمنٹ عزیز بھٹی شہید اسپتال منتقل کر دیا اور اسی دوران غلام مصطفٰی کی برادری راضی نامہ کی کوشش کرتی رہی، جو نہ ہو سکا۔ اس نے واقعہ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس (نصر اقبال) کی وقوعہ سے چند روز قبل غلام مصطفٰی کے والد غلام غوث کے ساتھ بجلی کے ٹرانسفارمر کی مرمت پر تلخ کلامی ہوئی تھی۔

یہ درخواست نصر اقبال نے تھانہ صدر گجرات کے ایس ایچ او شوکت ٹوپہ کے حوالے کر دی مگر چار روز تک میڈیکل جاری نہ ہونے کی وجہ سے ایف آئی آر درج نہ ہو سکی اور منت سماجت کرنے کے باوجود ایس ایچ او روایتی ٹال مٹول کرتا اور ٹرخاتا رہا تاہم جب میڈیا نے پولیس اور اسپتال انتظامیہ کی بے حسی کا پردہ چاک کیا تو بے خبر رکھے گئے ڈی پی او گجرات رائے اعجاز اوروزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے نوٹس لیا جس پرسوئی ہوئی انتظامیہ بیدار ہو کر ایسے حرکت میں آئی کہ لمحوں میں ڈی ایس پی لالہ موسیٰ چوہدری عثمان کی نگرانی میں ایس ایچ او تھانہ صدر گجرات نے ملزم غلام مصطفٰی کو اُس کے گاؤں گہیال میں چھاپہ مار کر اس کے گھر سے اسے گرفتا رکر لیا اور چوتھے ہی روز جائے وقوعہ پر پہنچ کر واقعہ کی تصدیق بھی کر ڈالی۔

یہ ہی نہیں ملزم کو شناخت کرانے کے لیے اسے اسپتال میں زیر علاج کم سن تبسم کے بستر لے گئے، جس کی بچے نے تصدیق کردی۔ سرکاری ڈنڈا دیکھ کر اس بار اسی پولیس نے، جو ٹال مٹول کر رہی تھی، میڈیکل رپورٹ تیار ہونے سے پہلے ہی دائو پر لگی اپنی نوکریوں کو بچانے کے لیے اقدام قتل کی دفعات 324/334 ت پ لگا کر ایف آئی آر تھانے کے رجسٹر میں بھی درج کر لی۔ پولیس کا یہ ہی وہ کردار ہے جس کے خلاف اخبارات میں چند سخت جملے چھپ جائیں تو برا منایا جاتا ہے۔

معصوم تبسم کے دونوں بازو تن سے جدا ہونے پر اُس کے خاندان پر تو جیسے قیامت ہی برپا ہو گئی۔ کھیل کود اور دوستوں ساتھیوں ماں، با پ ، دادا، دادی، بہن بھائیوں کے ساتھ موج مستی کرنے والا تبسم دونوں بازو کٹ جانے پر بے بسی کی تصویر بنا بستر پر پڑا انسان کی درندگی اور سفاکی کی داستان زبانِ حال سے بیان کر رہا ہے کہ نہ جانے اُس کم سنی میں اسے کس جرم کی سزا دی گئی ہے۔ ابھی تو وہ اپنے گاؤں سے باہر نکل کر زندگی بچپن کی رنگینوں کو بھی دیکھ، محسوس نہ کر پایا تھا کہ اُسے پھول کی طرح ''مسل'' کر رکھ دیا گیا۔

تبسم کو دیکھنے والی شاید ہی کوئی آنکھ ایسی ہوگی جو نم نہ ہوئی ہو مگر تبسم کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ننھنی سے جان ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ظلم کو ایسے ہنس کر سہ گیا ہو جیسے وہ صبر کی کوئی چٹان ہو۔ تبسم ہر پوچھنے والے کو اپنی زبان میںظلم کی داستان سناتے ہوئے بتاتا ہے کہ وہ ٹیوشن سے واپسی پر گھر میں اپنی کتابیں رکھ کر ماں سے پائجامہ یہ کہہ کر لے گیا کہ وہ غلام مصطفٰی کے کھیت میں ٹیوب ویل پر نہانے اور جامن کھانے کے لیے جارہا ہے جہاں غلام مصطفٰی عرف نومی نے اسے دیکھتے ہی اُس پر نہاتے ہوئے ٹیوب ویل کی دوسری طرف سے نکلنے والا گرم پانی انڈیل دیا۔

ننھا تبسم اس سے منت سماجت کرتا رہا کہ وہ ایسا نہ کرے لیکن وہ ظالم باز تو کیا آتا، اس نے بچے پر اس سے بھی زیادہ تشدد کرنا شروع کردیا اور بچے کے چھوٹے سے سر پر بوتلوں سے وار کرنے لگا، بچہ بھاگ کر کھیتوں میں جا چھپنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ شداد اسے پھر جا پکڑتا ہے اور اس بار تو وہ انتہا کر دیتا ہے کہ چشمِ فلک بھی یہ ہول ناک منظر دیکھ کر ایک بار تو ضرور لرز گیا ہوگا۔ وہ بچے کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ شاپنگ بیگ اور چادر سے باندھتا ہے اور اسے چالو پیٹر انجن کی طرف دھکیل دیتا ہے، جہاں اُس کے دونوں بازو انجن کی زد پر آتے ہیں اور ۔۔۔۔۔ کٹ کر دور جا پڑتے ہیں اور وہ ایک طرف گر پڑتا ہے، اس کے بعد وہ اپنے ہوش حواس کھو بیٹھتا ہے۔

اس کے بعد اسے کچھ خبر نہیں کہ اُس پر کیا بیتی تاہم اب وہ ایک لوتھ کی طرح اسپتال میں پڑا ہے اور کوئی سنگ دل سے سنگ دل بھی اسے دیکھ کر دکھی نہ ہوا ہو، ہو نہیں سکتا۔ پولیس اور اسپتال انتطامیہ کے درمیان چار روز تک فٹ بال بنے رہنے والے تبسم کے والدنصر اقبال اور اس کی والدہ کی آہ و زاری سن کر وزیراعلیٰ پنجاب 24 گھنٹے گزرنے سے پہلے ہی گجرات پہنچ گئے۔ ان کے دورے کی خبر ملنے اور جزا سزا کے عمل سے بچنے کے لیے پولیس نے راتوں رات اقدام قتل کی دفعات کے ساتھ ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعہ6/7ATA بھی شامل کر لی جب کہ سرکاری اسپتال میں لاوارثوں کی طرح سرجیکل وارڈ میں پڑے تبسم کو ایمرجنسی میں الگ کمرہ دے کر ایم ایس ڈاکٹر طاہر نوید کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ تشکیل دے د یا گیا۔

یہ بورڈ بس نام کا ہی بورڈ ثابت ہوا البتہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اسپتال کی انتظامیہ نے بیڈز کی مہینوں سے پڑی میلی کچیلی چادریں تبدیل کرائیں، اسپتال کو یوں صاف ستھرا کرایا گیا کہ جیسے یہ اسپتال پاکستان بھر کا نیٹ اینڈ کلین اسپتال ہے، اس کے ساتھ ہی مریضون کو وی آئی پی سہولتیں فراہم کر دی گئیں۔ مریض لوگ یہ حال دیکھ کر دعائیں کر رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ ماہانہ بنیادوں پر اسپتال کا دورہ کیا کریں تاہم یہ خامی بھی دیکھنے میں آئی کہ وزیر اعلیٰ کی میاں شہباز شریف کی آمد سے لے کر روانگی تک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر عزیز بھٹی شہید اسپتال کی ساری کارکردگی ٹھپ رہی، اسپتال کا آپریشن تھیٹر بند رہا اور ایمرجنسی میں مریضوں کے چیک اپ کا سلسلہ بھی بند رہا، عمارت کے تمام اطراف و جوانب سیل کر دیے گئے۔

بہ ہرحال وزیراعلیٰ نے دونوں ہاتھوں سے معذور ہو جانے والے تبسم شہزاد کی عیادت کی اور وہیں عدالت لگا ئی اور یہاں کے نام نہاد مسیحاؤں کے رویوں سوے آگاہی حاصل کی۔ انہیں معلوم ہوا کہ تبسم کا میڈیکو لیگل بروقت جاری کرنے میں ٹال مٹول کی گئی، طبی سہولیات دینے کے بجائے اُس کے والدین کو دوائیں بازار سے خریدنے پر مجبور کیا گیا، پنکھا تک مہیا نہیں کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر اسپتال کے سرنٹنڈنٹ ڈاکٹر طاہر نوید کے معطل کیا۔

ایف آئی آر کے اندراج میں لیت و لعل کرنے پر ڈی ایس پی چوہدری عثمان اور ایس ایچ او شوکت ٹوپہ کو بھی معطل کر دیا جب کہ ڈی پی او رائے اعجاز کو تبسم کے والدین کی سفارش پر او ایس ڈی بنانے کا حکم واپس لے لیا تاہم ان کے خلاف انسپکٹر جنرل پنجاب کو انکوائری کرنے کے احکامات جاری کیے جب کہ تبسم کی تعلیم اور علاج معالجے کاذمہ اُٹھاتے ہوئے 10 لاکھ روپے کا چیک متاثرہ والدین کو پیش کیا اور بچے کو مصنوعی بازو لگوانے کا بھی اعلان کیا، اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ خادم اعلیٰ کے وعدے کہاں تک وفا ہوتے ہیں کیوں کہ چیک اتنے دن گذرنے کے بعد بھی کیش نہیں ہوسکا۔

ابھی وزیراعلیٰ پنجاب فارغ نہیں ہو پائے تھے کہ عین اسی دوران پولیس کے ظلم و ستم کے شکار دو اور خاندان گریہ زاری کرتے اپنے لواحقین کے قاتلوں کی گرفتاری کی دہائی دیتے ہوئے اسپتال پہنچ گئے جنہیں عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سرکاری اہل کار خادم اعلیٰ سے ملنے سے روک رہے تھے مگر عین موقع پر وزیر اعلیٰ نے اپنی گاڑی کو فریادی خواتین کے حصار میں دیکھا تو انہیں گاڑ ی میں سوار کرلیا اور آئی جی کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی ہدایات دیں۔

تھانہ صدر گجرات میں بند ظالم زمین دار بے حس غلام مصطفٰی عرف نومی میڈیا کے سوالوں کے جواب میں بس اتنا ہی کہا کہ یہ سب کھیل ہی کھیل میں ہوا ہے اور یہ کہ وہی اُسے زخمی بچے کو بازوؤں اٹھا کر اسپتال لے گیا، جہاں اس نے تبسم کے لیے خون بھی دیا۔ اس نے کہا کہ تبسم اس کا منہ بولا بھتیجا ہے، وہ اسپتال میں اس کی حالت دیکھ کر برداشت نہ کر سکا اور گھر چلا گیا۔ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو جانے والے تبسم کے دادا بشیر اور دادی نے اپنی کانپتی ہوئی آواز میں کہا کہ ان کے خاندان کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی ''اس دکھ کی گھڑی میں ہم صبر کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، تبسم ذہین ہونے کی وجہ سے خاندان کی آنکھ کا تارا تھا جسے زندگی بھر کے لیے معذور بنا دیا گیا۔

دوسری جانب ملزم غلام مصطفٰی نومی کے تایا عارف کا کہنا ہے ''ہمارے خاندان کے ہاتھوں جو دکھ نصر اقبال کے خاندان کو ملا ہے، وہ زندگی بھر فراموش ہونے والا نہیں، ہم روز قیامت تک متاثرہ خاندان کے قصور وار اور مجرم ہیں، قرآن پاک کی روشنی میں اگر وہ خون کے بدلے خون بھی لینا چاہیں تو ہم تبسم جیسے پھول کے بازوؤں کے بدلے اپنے تمام خاندان کے بچوں کے ہاتھ کٹانے کو تیار ہیں۔

اس مقصد کے لیے ہم اپنے بچے لے کر اسپتال بھی لائے تھے مگر تبسم کی حالت دیکھ کر کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر سکے چوں کہ اس واقعہ سے صرف تبسم کا خاندان ہی دکھ میں نہیں ڈوبا بل کہ معاشرے کے ہر فرد کی یہی حالت ہے، اب تو معاشرے کی گالیوں، بد دعاؤں کو سہنا ہی ہمارا مقدر ہے، ہماری تو تبسم کے گھر سے ملحق اپنے کھیتوں میں بھی جانے کی ہمت نہیں رہی، ہم اُ س وقت تک اپنے کھیتوں میں کھیتی باڑی نہیں کریں گے جب تک متاثرہ خاندان ہمیں خود نہ کہے''۔ ذرائع کے مطابق ڈویژنل سطح پر بنائی گئی تفتیشی ٹیم نے ملزم کے گاؤں جا کر تفتیش نہیں کی۔

چک بھولہ اور گہیال کے مکینوں نے انکشاف کیا کہ دونوں خاندان مختلف برادریوں کے ہوتے ہوئے بھی سالہا سال سے کھیت ساتھ ہونے کی وجہ سے ایسے جڑے ہوئے تھے کہ اُن کے الگ الگ خاندان ہونے کا گمان بھی نہیں ہوتا تھا۔ تین ماہ قبل 5 اپریل کو غلام مصطفٰی کی شادی اپنے تایا عارف کی بیٹی سے ہوئی، جس کی رسم حنا کی تقریب کا اہتمام بھی نہ صرف تبسم کے والد ین نے کیا بل کہ وہ اپنے گھر سے غلام مصطفٰی کی منہدی بھی لے کر آئے تھے۔

خوشیوں اور قہقوں ، شنہائیوں کی گونج ابھی فضا ہی میں تھی کہ یہ المیہ رونما ہو گیا حجلۂ عروسی سے یک بہ یک ملزم بن جانے والا بیس سالہ غلام مصطفٰی آٹھویں پاس ہے، جس میں گائوں کے مکینوں کے مطابق کوئی سماجی عیب نہیں، اگر انتقام ہی لینا اس کا مقصد ہوتا تو وہ اُس کی جان بچانے کے لیے اُسے نہ تو اسپتال پہنچاتا، نہ خون دیتا اور گھر پر رہنے کے بجائے فرار ہو چکا ہوتا۔ تبسم کا زیادہ وقت بھی غلام مصطفٰی اور اُس کے خاندان کے ساتھ کھیلنے کودنے اور موٹر سائیکل پر گاؤں میں گھومتے پھرتے گزرتا تھا۔

اُس روز بھی غلام مصطفٰی نے پھرتیلے شریر تبسم کواُچھل کود سے رُوکنے کے لیے اُس کے ہاتھ باندھے اور کندھے پر اُٹھایا مگر اچانک ہاتھ میں بندھا روما ل پیٹر انجن کی لپیٹ میں اگیا، جس پر غلام مصطفٰی نے بوکھلا کر چیخ پکا ر شروع کر دی لیکن جب تک کپڑا پیٹر انجن سے الگ ہوا تب تک تبسم کے بازو کٹ چکے تھے۔

وہ پیٹر انجن بند کرنے کے لیے تبسم کو چھوڑتا تو تبسم شافٹ کے ساتھ گھوم جاتا تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب ، آئی جی پنجاب ، کمشنر ، ڈی سی او ، ڈی پی او گجرات تک سبھی نے متاثرہ خاندان کی آوا ز سن کر فوری انصاف کے تقاضے پورے کر کے ایک طرف اچھی مثال اور روایت تو قائم کر دی ہے مگر انہیں مزید چھان بین کرنا ہوگی تاکہ واقعہ واقعتاً ٹرانسفار مر کی تنصیب کے جھگڑا پر ہوا یا کھیل ہی کھیل میں قدر ت نے دونوں خاندانوں کو امتحان میں ڈال دیا۔ اس واقعے کا ایک عبرت آموز پہلو یہ بھی ہے کہ چک بھولا کے حلقہ این اے 105کے ایم این اے اور ایم پی اے نے تبسم اور اس کے والدین کی عیادت بھی کرنا گوارہ نہیں کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |