جان چھڑکنے والے نے جان ہی لے لی
بچوں کی جبری شادیاں کرانے والے والدین کے لیے ایک عبرت ناک واردات
جب انسان سوچے سمجھے بغیر اپنی مرضی سے فیصلے کرتا ہے تو بعد میں کبھی کبھی اپنے فیصلوں پر پچھتاوا اس کی زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔ اس روگ کو ختم کرنے کے لیے انسان پھر ایسا کچھ کر بیٹھتا ہے کہ رہی سہی کسر بھی نکل جاتی ہے اور تباہی مقدر بن جاتی ہے۔
یہ ہی کچھ ہوا محمد عارف کے ساتھ بھی۔ محمد عارف شاداب کالونی کا رہائشی ہے، ایف اے تک تعلیم حاصل کر پایا تھا کہ چھوڑ دی اور گھر والوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے کپڑے کی دوکان پر کام کرنے لگ گیا لیکن بہ ہرحال ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔ ہر سکھ اور ہر خوشی تھی اس کے پاس مگر انسان کی فطرت میں ناشکرا پن ہے۔ ماں، باپ، بہن، بھائیوں اور دوستوں کی محبت میسر ہونے کے باوجود انسان ایک جنس مخالف کی اس محبت کی خواہش ہر وقت دل میں لیے بیٹھا ہوتا ہے، جو ہیر رانجھے، سسی پنوں، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں جیسے کردار اور کہانیاں پیدا کرتی ہیں۔
عارف کے پاس بھی یہ سب محبتیں تھیں مگر اس کے دل میں ایک ایسی دیومالائی پیار کرنے والی شریک حیات کی خواہش تھی اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے غ۔ف سے اس کی محبت کا آغاز ہو گیا۔ غ۔ف چک جھمرہ کے قریبی گاؤں بانگے چک کی رہائشی تھی مگر گاؤں میں رشتہ داروں سے مخالفت کے باعث جھنگ روڈ پر لطیف پارک گلی نمبر10 میں اہل خانہ کے ساتھ رہائش تھی۔ لڑکی قریبی مارکیٹ شاداب کالونی میں کپڑے لینے محمد عارف کی دوکان پر آئی۔ دونوں کے نین ملے اور ایسے ملے کہ باقی دنیا ہی آنکھوں سے جیسے اوجھل ہو گئی، دونوں محبت کی کشتی پر سوار ان دیکھی منزل کی جانب گام م زن ہو گئے۔ دونوں کا میل ملاپ شروع ہوگیا۔
کبھی ہوٹلوں میں، کبھی پارکوں میں ملاقاتیں ہونے لگیں اور کبھی جو فون پر بات شروع ہوئی تو رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی، سرور کا یہ دورانیہ یوں ہی چلتا رہا۔ اس دوران محمد عارف کی اسلام آباد میں ایک حساس ادارے میں ملازمت ہو گئی اور وہ وہاں چلا گیا مگر محبت کی ڈور ٹوٹنے نہ پائی اور عارف اسلام آباد سے کبھی چھٹی لے کر اور کبھی نوکری سے بھاگ کر اسے ملنے چلا آتا۔ اس دوران غ۔ف کی شادی اس کے گھر والوں نے طے کر دی۔ لڑکی ہرچند اس شادی پر راضی تو نہ تھی مگر ہم برصغیر والوں نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ بچوں کی شادیاں ان کی مرضی کے خلاف زبردستی جہاں کہیں چاہیں گے کریں گے۔
غ۔ف کے والد ذوالفقار علی اور والدہ صغراں بی بی نے بھی اس کی ایک نہ سنی اور اس کی شادی اپنے پسند سے اس کے خالہ کے بیٹے عمران سے کر دی۔ عمران شورکوٹ کا رہائشی ہے، دونوں کی شادی چار سال رہی، اس دوران دونوں کے ہاں ایک بچی بھی ہوئی جو اس وقت اڑھائی سال کی ہے۔ غ۔ف نے شادی تو اپنے والدین کے جبر پر کر لی تھی مگر ظاہر ہے کہ اس کا دل تو کہیں اور ہی اٹکا ہوا تھا، یہ ہی وجہ تھی کہ یہ شادی کام یاب نہ ہو سکی اور نہ ہی وہ دونوں خوش رہ سکے۔ گھر میں اکثر لڑائی جھگڑا رہتا تھا اور اسی جھگڑے کی وجہ سے دونوں میں طلاق ہو گئی، بہ ہرحال غ۔ف واپس اپنے میکے آگئی۔
عارف کے ساتھ تو اس کا رابطہ کبھی ختم ہی نہیں ہوا تھا اور اب تو دونوں کی محبت پھر عروج پر پہنچ گئی۔ اسی دوران عارف کے گھر والوں نے اس کی شادی طے کر دی اور چوں کہ غ۔ف نے بھی شادی کر لی تھی اس لیے عارف کے پاس انکار کی نہ کوئی وجہ تھی نہ گنجائش سو اس نے شادی کے لیے ہاں کر دی۔ عارف کی شادی بھی ہو گئی مگر اس کے باوجود اس کا رابطہ غ۔ف کے ساتھ مسلسل رہا۔ اب جو غ۔ف کو طلاق ہوگئی تو عارف کے دل میں دبی ہوئی خواہش زبان پر آ گئی اور اس نے اسے شادی پر آمادہ کرنا شروع کر دیا۔
غ۔ف کے دل میں نہ جانے کیا گرہ تھی کہ پہلے تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتی رہی مگر آخر کار اسے شادی کرنا ہی پڑی۔ اس شادی کو دونوں نے تین ماہ قبل تک خفیہ رکھا مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ چھ سال کی محبت، شادی کے تین ماہ میں ہی اکتا گئی اور غ۔ف نے اس سے طلاق مانگ لی لیکن محمد عارف نے طلاق نہ دی جس پر اس نے خلع لینے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کر دی۔ محمد عارف کو اس بات کا بہت دکھ ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ اشتعال میں بدل گیا۔ اشتعال انسان کو کم زور کر دیتا ہے لہٰذا اس نے اپنے ساتھیوں شعیب ولد جاوید قوم ملک، عدنان عرف بلا ولد سرفراز سکنہ شیرو آنہ جڑانوالہ کے ساتھ مل کر ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا کہ اہل محلہ کانپ اٹھے۔
13 جون (2014) کی رات محمد عارف اپنے ساتھیوں شعیب اور عدنان کے ہم راہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر غ۔ف کے گھر آ گیا اور تیس بور کے پستول سے فائرنگ کر دی۔ گولیاں غ۔ف، اس کے والد ذوالفقار اور اس کی والدہ صغراں بی بی کو لگیں۔ ذوالفقار اور صغراں بی بی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گئے جب کہ غ۔ف نے شور مچا دیا، جسے سن کر محلے دار جاگ گئے اور محمد عارف اور اس کے ساتھیوں کو بھاگنا پڑا مگر اس دوران تردد میں اپنی موٹر سائیکل انہیں چھوڑنا پڑگئی۔ محلے داروں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع کی اور ریسکیو 1122 کو بلا کر لڑکی کو اسپتال منتقل کیا، جہاں وہ کئی گھنٹے موت اور زندگی کی کشمکش میں رہی اور بالاخر موت کے سامنے اس نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔
اس وقوعہ کے بعد ایس پی لائلپور ٹاؤن اعجاز شفیع ڈوگر ، ڈی ایس پی کوتوالی حاجی جاوید انور اور ایس ایچ او تھانہ جھنگ بازار خلیل احمد گھمن موقع پر گئے۔ افسران نے ایس ایچ او تھانہ جھنگ بازار خلیل احمد گھمن کو جلد سے جلد ملزمان گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ سب انسپکٹر خلیل احمد گھمن نے اسی وقت کام شروع کر دیا اور جائے وقوعہ پر کھڑی موٹر سائیکل کو قبضہ میں لے کر تفتیش شروع کر دی۔ پولیس نے محنت سے کام کیا اور کیس سلجھتا گیا۔ اگلے ہی دن ایس ایچ او تھانہ جھنگ بازار خلیل احمد گھمن نے دو ملزمان محمد عارف اور شعیب کو گرفتار کرلیا۔
محمد عارف نے دوران تفتیش پولیس کوبتایا کہ غ۔ف اور اس کی والدہ صغراں بی بی مجھ سے مبینہ طور پر رقمیں بٹورتی رہیں اور اب شادی کے فوری بعدگھر والوں کو پتہ لگنے کا بہانہ بناکر خلع لے رہی تھی جس کا مجھے رنج تھا اور میں نے ان کو قتل کر نے کا منصوبہ بنا لیا۔ پولیس نے تفتیش مکمل کر کے گرفتار دونوں ملزمان عارف اور شعیب کو جیل بھجوا دیا جب کہ تیسرا ملزم عدنان عرف بلا سکنہ شہروآنہ جڑانوالہ ابھی تک مفرور ہے، جس کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے ماررہی ہے۔
محبت کا آغاز ہوتا ہے تو بہت حسین ہوتی ہے مگر جوں جوں پرانی ہوتی جاتی ہے تو جان کا روگ بنتی جاتی ہے اور آخر کار سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے مگر نوجوان نسل کو صرف محبت کی شروع کی رنگینیاں ہی نظر آتی ہیں بعد کی مشکلات اور تباہیاں نظر نہیں آتیں، اسی لیے تو نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ جسے دیکھو ہیر رانجھے اور مرزا صاحباں کی طرح محبت کی نئی داستان رقم کرنے کی خواہش لیے بیٹھا ہے۔
یہ ہی کچھ ہوا محمد عارف کے ساتھ بھی۔ محمد عارف شاداب کالونی کا رہائشی ہے، ایف اے تک تعلیم حاصل کر پایا تھا کہ چھوڑ دی اور گھر والوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے کپڑے کی دوکان پر کام کرنے لگ گیا لیکن بہ ہرحال ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔ ہر سکھ اور ہر خوشی تھی اس کے پاس مگر انسان کی فطرت میں ناشکرا پن ہے۔ ماں، باپ، بہن، بھائیوں اور دوستوں کی محبت میسر ہونے کے باوجود انسان ایک جنس مخالف کی اس محبت کی خواہش ہر وقت دل میں لیے بیٹھا ہوتا ہے، جو ہیر رانجھے، سسی پنوں، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں جیسے کردار اور کہانیاں پیدا کرتی ہیں۔
عارف کے پاس بھی یہ سب محبتیں تھیں مگر اس کے دل میں ایک ایسی دیومالائی پیار کرنے والی شریک حیات کی خواہش تھی اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے غ۔ف سے اس کی محبت کا آغاز ہو گیا۔ غ۔ف چک جھمرہ کے قریبی گاؤں بانگے چک کی رہائشی تھی مگر گاؤں میں رشتہ داروں سے مخالفت کے باعث جھنگ روڈ پر لطیف پارک گلی نمبر10 میں اہل خانہ کے ساتھ رہائش تھی۔ لڑکی قریبی مارکیٹ شاداب کالونی میں کپڑے لینے محمد عارف کی دوکان پر آئی۔ دونوں کے نین ملے اور ایسے ملے کہ باقی دنیا ہی آنکھوں سے جیسے اوجھل ہو گئی، دونوں محبت کی کشتی پر سوار ان دیکھی منزل کی جانب گام م زن ہو گئے۔ دونوں کا میل ملاپ شروع ہوگیا۔
کبھی ہوٹلوں میں، کبھی پارکوں میں ملاقاتیں ہونے لگیں اور کبھی جو فون پر بات شروع ہوئی تو رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی، سرور کا یہ دورانیہ یوں ہی چلتا رہا۔ اس دوران محمد عارف کی اسلام آباد میں ایک حساس ادارے میں ملازمت ہو گئی اور وہ وہاں چلا گیا مگر محبت کی ڈور ٹوٹنے نہ پائی اور عارف اسلام آباد سے کبھی چھٹی لے کر اور کبھی نوکری سے بھاگ کر اسے ملنے چلا آتا۔ اس دوران غ۔ف کی شادی اس کے گھر والوں نے طے کر دی۔ لڑکی ہرچند اس شادی پر راضی تو نہ تھی مگر ہم برصغیر والوں نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ بچوں کی شادیاں ان کی مرضی کے خلاف زبردستی جہاں کہیں چاہیں گے کریں گے۔
غ۔ف کے والد ذوالفقار علی اور والدہ صغراں بی بی نے بھی اس کی ایک نہ سنی اور اس کی شادی اپنے پسند سے اس کے خالہ کے بیٹے عمران سے کر دی۔ عمران شورکوٹ کا رہائشی ہے، دونوں کی شادی چار سال رہی، اس دوران دونوں کے ہاں ایک بچی بھی ہوئی جو اس وقت اڑھائی سال کی ہے۔ غ۔ف نے شادی تو اپنے والدین کے جبر پر کر لی تھی مگر ظاہر ہے کہ اس کا دل تو کہیں اور ہی اٹکا ہوا تھا، یہ ہی وجہ تھی کہ یہ شادی کام یاب نہ ہو سکی اور نہ ہی وہ دونوں خوش رہ سکے۔ گھر میں اکثر لڑائی جھگڑا رہتا تھا اور اسی جھگڑے کی وجہ سے دونوں میں طلاق ہو گئی، بہ ہرحال غ۔ف واپس اپنے میکے آگئی۔
عارف کے ساتھ تو اس کا رابطہ کبھی ختم ہی نہیں ہوا تھا اور اب تو دونوں کی محبت پھر عروج پر پہنچ گئی۔ اسی دوران عارف کے گھر والوں نے اس کی شادی طے کر دی اور چوں کہ غ۔ف نے بھی شادی کر لی تھی اس لیے عارف کے پاس انکار کی نہ کوئی وجہ تھی نہ گنجائش سو اس نے شادی کے لیے ہاں کر دی۔ عارف کی شادی بھی ہو گئی مگر اس کے باوجود اس کا رابطہ غ۔ف کے ساتھ مسلسل رہا۔ اب جو غ۔ف کو طلاق ہوگئی تو عارف کے دل میں دبی ہوئی خواہش زبان پر آ گئی اور اس نے اسے شادی پر آمادہ کرنا شروع کر دیا۔
غ۔ف کے دل میں نہ جانے کیا گرہ تھی کہ پہلے تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتی رہی مگر آخر کار اسے شادی کرنا ہی پڑی۔ اس شادی کو دونوں نے تین ماہ قبل تک خفیہ رکھا مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ چھ سال کی محبت، شادی کے تین ماہ میں ہی اکتا گئی اور غ۔ف نے اس سے طلاق مانگ لی لیکن محمد عارف نے طلاق نہ دی جس پر اس نے خلع لینے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کر دی۔ محمد عارف کو اس بات کا بہت دکھ ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ اشتعال میں بدل گیا۔ اشتعال انسان کو کم زور کر دیتا ہے لہٰذا اس نے اپنے ساتھیوں شعیب ولد جاوید قوم ملک، عدنان عرف بلا ولد سرفراز سکنہ شیرو آنہ جڑانوالہ کے ساتھ مل کر ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا کہ اہل محلہ کانپ اٹھے۔
13 جون (2014) کی رات محمد عارف اپنے ساتھیوں شعیب اور عدنان کے ہم راہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر غ۔ف کے گھر آ گیا اور تیس بور کے پستول سے فائرنگ کر دی۔ گولیاں غ۔ف، اس کے والد ذوالفقار اور اس کی والدہ صغراں بی بی کو لگیں۔ ذوالفقار اور صغراں بی بی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گئے جب کہ غ۔ف نے شور مچا دیا، جسے سن کر محلے دار جاگ گئے اور محمد عارف اور اس کے ساتھیوں کو بھاگنا پڑا مگر اس دوران تردد میں اپنی موٹر سائیکل انہیں چھوڑنا پڑگئی۔ محلے داروں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع کی اور ریسکیو 1122 کو بلا کر لڑکی کو اسپتال منتقل کیا، جہاں وہ کئی گھنٹے موت اور زندگی کی کشمکش میں رہی اور بالاخر موت کے سامنے اس نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔
اس وقوعہ کے بعد ایس پی لائلپور ٹاؤن اعجاز شفیع ڈوگر ، ڈی ایس پی کوتوالی حاجی جاوید انور اور ایس ایچ او تھانہ جھنگ بازار خلیل احمد گھمن موقع پر گئے۔ افسران نے ایس ایچ او تھانہ جھنگ بازار خلیل احمد گھمن کو جلد سے جلد ملزمان گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ سب انسپکٹر خلیل احمد گھمن نے اسی وقت کام شروع کر دیا اور جائے وقوعہ پر کھڑی موٹر سائیکل کو قبضہ میں لے کر تفتیش شروع کر دی۔ پولیس نے محنت سے کام کیا اور کیس سلجھتا گیا۔ اگلے ہی دن ایس ایچ او تھانہ جھنگ بازار خلیل احمد گھمن نے دو ملزمان محمد عارف اور شعیب کو گرفتار کرلیا۔
محمد عارف نے دوران تفتیش پولیس کوبتایا کہ غ۔ف اور اس کی والدہ صغراں بی بی مجھ سے مبینہ طور پر رقمیں بٹورتی رہیں اور اب شادی کے فوری بعدگھر والوں کو پتہ لگنے کا بہانہ بناکر خلع لے رہی تھی جس کا مجھے رنج تھا اور میں نے ان کو قتل کر نے کا منصوبہ بنا لیا۔ پولیس نے تفتیش مکمل کر کے گرفتار دونوں ملزمان عارف اور شعیب کو جیل بھجوا دیا جب کہ تیسرا ملزم عدنان عرف بلا سکنہ شہروآنہ جڑانوالہ ابھی تک مفرور ہے، جس کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے ماررہی ہے۔
محبت کا آغاز ہوتا ہے تو بہت حسین ہوتی ہے مگر جوں جوں پرانی ہوتی جاتی ہے تو جان کا روگ بنتی جاتی ہے اور آخر کار سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے مگر نوجوان نسل کو صرف محبت کی شروع کی رنگینیاں ہی نظر آتی ہیں بعد کی مشکلات اور تباہیاں نظر نہیں آتیں، اسی لیے تو نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ جسے دیکھو ہیر رانجھے اور مرزا صاحباں کی طرح محبت کی نئی داستان رقم کرنے کی خواہش لیے بیٹھا ہے۔