سونا ضروری تو نہیں۔۔۔
شادی پر قیمتی زیورات کی روایت تبدیل ہونی چاہیے
شادی ایک ایسا بندھن ہے، جس کے ذریعے دو خاندانوں کے آنگن میں خوشیوں کی بارات اتر تی ہے، تاہم اب لگتا ہے کہ شادی کا فرض پریشانیوں کی گھڑی میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
معاشرتی ناہم واریوں نے اسے ایک عام آدمی کے لیے مشکل تر بنا دیا ہے۔ شادی، بیاہ کے موقع پر دلہن کو سونے کے زیورات دینے کے رواج سے یوں تو متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود خواتین شادی بیاہ سے جڑی ہر رواج اور رسم کو بڑے جوش و خروش سے ادا کرنے کی خواہاں ہوتی ہیں۔ بد قسمتی سے وہ ایسے مواقع پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کر بیٹھتی ہیں اور مقروض ہو جاتی ہیں۔
خواتین جہیز یا بری میں زیورات دینے کے معاملے میں کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتیں، نہ لینے میں اور نہ ہی دینے میں۔ اس کے لیے بچت سے ادھار تک ہر جتن کیا جاتا ہے۔ شاید ان کے دلوں میں دنیا والوں کا خوف ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں متوسط گھرانوں کی سوچ ایک ہی سوئی پر اٹکی ہوتی ہے کہ اگر بھاری زیور نہ چڑھائے، تو جگ ہنسائی ہو گی، لوگ کیا کہیں گے، برادری میں ناک کٹ جائے گی وغیرہ۔ ایسی باتیں لوگوں کو ان کے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کی طرف مائل رکھتی ہیں۔
بعض خاندانوں میں خواتین خود سے ان روایت کی توجیہہ پیش کرتی ہیں۔ بالخصوص مائیں سونے کے زیورات دیتے ہوئے عموماً کہتی ہیں کہ ''بھئی یہ برے وقت کے سانجھی ہیں۔'' جب کہ بیٹیاں شادی کے بعد اپنے زیورات کے عشق میں ایسی گرفتار ہو جاتی ہیں کہ برا وقت آنے پر بھی انہیں ہاتھ نہیں لگانے دیتیں۔ سینت، سینت کر تجوری میں بند رکھتی ہیں اور خود تکلیف اٹھاتی رہتی ہیں، جب کہ سونے کے زیورات کی وجہ سے خواتین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر وہ اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ جیسے آج کل کے حالات میں سونا پہن کر نکلنا کتنا خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ چھینا جھپٹی کے واقعات آئے روز اخبارات کی زینت بنے ہوتے ہیں۔ یوں زیور ویسے کہ ویسے ہی ڈبے میں بند رہتے ہیں، جس کے لیے والدین نے ہزاروں کا قرضہ اپنے اوپر چڑھا لیا تھا۔
کچھ دلہنیں ایسی بھی ہوتی ہیں، جن کو بری، جہیز یا رشتے داروں کی طرف سے تحفتاً سونے کے اتنے زیورا ت مل جاتے ہیں کہ سب پر ملا کر زکوۃ فرض ہو جاتی ہے، جب کہ سسرال کے کم زور معاشی حالات کی بنا پر زکوۃ کی ادائی ایک مشکل فریضہ بن جاتی ہے۔ اگر گھر والے دلہا و دلہن کو زیورات کے بہ جائے نقد رقم ادا کر دیں، تو یہ زندگی کی نئی شروعات میں کافی معاون ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ خواتین اکثر ایک ہی جیسے زیورات پہن، پہن کر اوبنے لگتی ہیں، تو انہیں بیچ کر نئے ڈیزائن کے زیور خرید لیتی ہیں۔ بعض چھوٹی چھوٹی بالیاں، لاکٹ دے کر دوسرا زیور بنوانا چاہتی ہیں، یا مائیں اپنے پرانے سیٹ کو تڑوا کر بہو یا بیٹی کے لیے نئے ڈیزائن کا زیور بنواتی ہیں۔ اس میں بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، کیوں کہ سونا بیچو، خریدو یا بنوائو سنار ہمیشہ ہی کٹوتی کرتے ہیں۔
لڑکے والوں کی طرف سے منہ کھول کر بھی بھاری زیورات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی غریب گھرانہ ایسی فرمائش پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتا، تو وہاں بیٹیاں بابل کی دہلیز پر ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ یہ نرم الفاظ میں بھی کسی سفاکی سے کم نہیں ہے۔
پاکستان میں کچھ گھرانوں میں دلہنوں کو مہر کی شکل میں سونے کے زیورات دینے کا رواج بھی عام ہے۔ تاہم ایران میں اس حوالے سے ایک انوکھی روایت ہے، وہاں شادی سے قبل ایسا معاہدہ کیا جاتا ہے، جس کے تحت طلاق کی صورت میں شوہر کو اپنی بیوی کو مہر میں اس کے وزن کے برابر سونا دینا پڑتا ہے، گو کہ دور جدید میں کئی خاندانوں میں اس رسم کو متروک سمجھا جانے لگا ہے، لیکن اب بھی کئی قدامت پرست گھرانوں میں یہ رائج ہے اور اس معاہدے پر عمل نہ کرنے والے مردوں کو ان کی سابقہ بیویاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تک بھیج دیتی ہیں۔
موجودہ دور میں طلائی زیورات کے حوالے سے ہماری سوچ اس وقت بدلائو آیا، جب سونے کی قیمتیں ایک دم آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ سفید پوش طبقے کو اس موقع پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بڑھتی ہوئی قیمتوں نے سونے کے زیورات کو ایک عام آدمی کی پہنچ سے پرے کر دیا۔ نتیجتاً شادی بیاہ میں بھی بڑی دقتوں سے ہلکے وزن کے طلائی زیورات دیے جانے لگے۔ کئی گھرانوں نے تو دلہنوں کو مصنوعی زیورات دے کر کام چلایا۔
ایسے میں بازار میں مصنوعی زیورات بیچنے والوں کی قسمت چمک اٹھی۔ ان لوگوں نے فوراً ہی زیوارت کے دام دُگنے کر دیے۔ جو سیٹ 6 ہزار روپے میں دست یاب تھا، وہ 12 ہزار تک جا پہنچا۔ اسی طرح چوڑیوں کی قیمت بھی ڈیڑھ ہزار سے بڑھ کر تین ہزار روپے ہو گئی۔ ساتھ ہی اس شعبے سے وابستہ کاری گروں نے اپنی مہارت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے، ایسے ایسے دیدہ زیب ڈیزائن متعارف کرائے کہ وہ سونے کے زیورات سے بھی بڑھیا معلوم ہونے لگے۔
عروسی سیٹ کے دام آسمان پر جا پہنچے، جس میں ٹیکا، جھومر، نتھ، بندیا، ماتھا پٹی، گلوبند، رانی ہار، جھمکے، بندے، انگھوٹیاں وغیرہ شامل ہیں۔ مصنوعی زیور پہلے شوقیہ پہنے جاتے تھے، جب کہ اب یہ مجبوری بن چکے ہیں۔ منہ زور منہگائی میں جب ایک عام آدمی کا دال دلیہ مشکل سے چل رہا ہو، شادی بیاہ پر اسراف کرنا دانش مندی نہیں۔ اس لیے مصنوعی زیورات کا فروغ ایک مثبت رجحان ہے۔ اس طرح والدین کے کاندھوں پر سے غیر ضروری بوجھ کم ہو رہا ہے۔ بعض گھرانے اس کٹھن صورت حال کے باوجود سونے کے لین دین پر ہی مُصر نظر آتے ہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کب تک خود کو ایسی فضول چیزوں میں جکڑ کر پریشانیوں میں مبتلا کرتے رہیں گے۔
معاشرتی ناہم واریوں نے اسے ایک عام آدمی کے لیے مشکل تر بنا دیا ہے۔ شادی، بیاہ کے موقع پر دلہن کو سونے کے زیورات دینے کے رواج سے یوں تو متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود خواتین شادی بیاہ سے جڑی ہر رواج اور رسم کو بڑے جوش و خروش سے ادا کرنے کی خواہاں ہوتی ہیں۔ بد قسمتی سے وہ ایسے مواقع پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کر بیٹھتی ہیں اور مقروض ہو جاتی ہیں۔
خواتین جہیز یا بری میں زیورات دینے کے معاملے میں کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتیں، نہ لینے میں اور نہ ہی دینے میں۔ اس کے لیے بچت سے ادھار تک ہر جتن کیا جاتا ہے۔ شاید ان کے دلوں میں دنیا والوں کا خوف ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں متوسط گھرانوں کی سوچ ایک ہی سوئی پر اٹکی ہوتی ہے کہ اگر بھاری زیور نہ چڑھائے، تو جگ ہنسائی ہو گی، لوگ کیا کہیں گے، برادری میں ناک کٹ جائے گی وغیرہ۔ ایسی باتیں لوگوں کو ان کے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کی طرف مائل رکھتی ہیں۔
بعض خاندانوں میں خواتین خود سے ان روایت کی توجیہہ پیش کرتی ہیں۔ بالخصوص مائیں سونے کے زیورات دیتے ہوئے عموماً کہتی ہیں کہ ''بھئی یہ برے وقت کے سانجھی ہیں۔'' جب کہ بیٹیاں شادی کے بعد اپنے زیورات کے عشق میں ایسی گرفتار ہو جاتی ہیں کہ برا وقت آنے پر بھی انہیں ہاتھ نہیں لگانے دیتیں۔ سینت، سینت کر تجوری میں بند رکھتی ہیں اور خود تکلیف اٹھاتی رہتی ہیں، جب کہ سونے کے زیورات کی وجہ سے خواتین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر وہ اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ جیسے آج کل کے حالات میں سونا پہن کر نکلنا کتنا خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ چھینا جھپٹی کے واقعات آئے روز اخبارات کی زینت بنے ہوتے ہیں۔ یوں زیور ویسے کہ ویسے ہی ڈبے میں بند رہتے ہیں، جس کے لیے والدین نے ہزاروں کا قرضہ اپنے اوپر چڑھا لیا تھا۔
کچھ دلہنیں ایسی بھی ہوتی ہیں، جن کو بری، جہیز یا رشتے داروں کی طرف سے تحفتاً سونے کے اتنے زیورا ت مل جاتے ہیں کہ سب پر ملا کر زکوۃ فرض ہو جاتی ہے، جب کہ سسرال کے کم زور معاشی حالات کی بنا پر زکوۃ کی ادائی ایک مشکل فریضہ بن جاتی ہے۔ اگر گھر والے دلہا و دلہن کو زیورات کے بہ جائے نقد رقم ادا کر دیں، تو یہ زندگی کی نئی شروعات میں کافی معاون ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ خواتین اکثر ایک ہی جیسے زیورات پہن، پہن کر اوبنے لگتی ہیں، تو انہیں بیچ کر نئے ڈیزائن کے زیور خرید لیتی ہیں۔ بعض چھوٹی چھوٹی بالیاں، لاکٹ دے کر دوسرا زیور بنوانا چاہتی ہیں، یا مائیں اپنے پرانے سیٹ کو تڑوا کر بہو یا بیٹی کے لیے نئے ڈیزائن کا زیور بنواتی ہیں۔ اس میں بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، کیوں کہ سونا بیچو، خریدو یا بنوائو سنار ہمیشہ ہی کٹوتی کرتے ہیں۔
لڑکے والوں کی طرف سے منہ کھول کر بھی بھاری زیورات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی غریب گھرانہ ایسی فرمائش پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتا، تو وہاں بیٹیاں بابل کی دہلیز پر ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ یہ نرم الفاظ میں بھی کسی سفاکی سے کم نہیں ہے۔
پاکستان میں کچھ گھرانوں میں دلہنوں کو مہر کی شکل میں سونے کے زیورات دینے کا رواج بھی عام ہے۔ تاہم ایران میں اس حوالے سے ایک انوکھی روایت ہے، وہاں شادی سے قبل ایسا معاہدہ کیا جاتا ہے، جس کے تحت طلاق کی صورت میں شوہر کو اپنی بیوی کو مہر میں اس کے وزن کے برابر سونا دینا پڑتا ہے، گو کہ دور جدید میں کئی خاندانوں میں اس رسم کو متروک سمجھا جانے لگا ہے، لیکن اب بھی کئی قدامت پرست گھرانوں میں یہ رائج ہے اور اس معاہدے پر عمل نہ کرنے والے مردوں کو ان کی سابقہ بیویاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تک بھیج دیتی ہیں۔
موجودہ دور میں طلائی زیورات کے حوالے سے ہماری سوچ اس وقت بدلائو آیا، جب سونے کی قیمتیں ایک دم آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ سفید پوش طبقے کو اس موقع پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بڑھتی ہوئی قیمتوں نے سونے کے زیورات کو ایک عام آدمی کی پہنچ سے پرے کر دیا۔ نتیجتاً شادی بیاہ میں بھی بڑی دقتوں سے ہلکے وزن کے طلائی زیورات دیے جانے لگے۔ کئی گھرانوں نے تو دلہنوں کو مصنوعی زیورات دے کر کام چلایا۔
ایسے میں بازار میں مصنوعی زیورات بیچنے والوں کی قسمت چمک اٹھی۔ ان لوگوں نے فوراً ہی زیوارت کے دام دُگنے کر دیے۔ جو سیٹ 6 ہزار روپے میں دست یاب تھا، وہ 12 ہزار تک جا پہنچا۔ اسی طرح چوڑیوں کی قیمت بھی ڈیڑھ ہزار سے بڑھ کر تین ہزار روپے ہو گئی۔ ساتھ ہی اس شعبے سے وابستہ کاری گروں نے اپنی مہارت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے، ایسے ایسے دیدہ زیب ڈیزائن متعارف کرائے کہ وہ سونے کے زیورات سے بھی بڑھیا معلوم ہونے لگے۔
عروسی سیٹ کے دام آسمان پر جا پہنچے، جس میں ٹیکا، جھومر، نتھ، بندیا، ماتھا پٹی، گلوبند، رانی ہار، جھمکے، بندے، انگھوٹیاں وغیرہ شامل ہیں۔ مصنوعی زیور پہلے شوقیہ پہنے جاتے تھے، جب کہ اب یہ مجبوری بن چکے ہیں۔ منہ زور منہگائی میں جب ایک عام آدمی کا دال دلیہ مشکل سے چل رہا ہو، شادی بیاہ پر اسراف کرنا دانش مندی نہیں۔ اس لیے مصنوعی زیورات کا فروغ ایک مثبت رجحان ہے۔ اس طرح والدین کے کاندھوں پر سے غیر ضروری بوجھ کم ہو رہا ہے۔ بعض گھرانے اس کٹھن صورت حال کے باوجود سونے کے لین دین پر ہی مُصر نظر آتے ہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کب تک خود کو ایسی فضول چیزوں میں جکڑ کر پریشانیوں میں مبتلا کرتے رہیں گے۔