وہ ہفتہ جو دنیا کو جنگ عظیم اول کی جانب لے گیا

31 جولائی سے 8 اگست تک جنگ کے دوران فریقین کے درمیان کشمکش جاری رہی ۔


August 04, 2014
31 جولائی سے 8 اگست تک جنگ کے دوران فریقین کے درمیان کشمکش جاری رہی ۔۔ فوٹو: فائل

31 جولائی 1914کا دن، آسٹریا اور ہنگری نے سربیا کیخلاف اعلان جنگ کر دیا

31 جولائی 1914ء تک یورپ پہلی جنگِ عظیم کے کنارے تک پہنچ چکا تھا۔ آرچ ڈیوک فرانز فردیند کے قتل کے بعد جنگ سے بچنے کی تمام سفارتی کوششیں ناکام ہو گئیں اور واقعات تیزی سے تصادم کی جانب بڑھنے لگے۔ 28 جولائی 1914ء کو آسٹریا اور ہنگری نے سربیا کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ تین دنوں کے اندر اندر روس اور جرمنی نے اپنی افواج کو جنرل پیش قدمی کا حکم دیا۔ دوسری جانب جنگ کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے لندن میں سرمائے کی مارکیٹوں میں کھلبلی مچ گئی اور1733 کے بعد پہلی بار اسٹاک ایکسچینج کو بند کرنا پڑا۔ اس کے بعد ہر آنے والا دن نیا بحران ساتھ لے کر آیا۔



یکم اگست 1914 کا دن،بلجیم اور فرانس نے اپنی افواج کو جنرل پیش قدمی کا حکم دیا

یورپ اب جنگ سے صرف گھنٹوں کے فاصلے پر تھا۔ بیلجیم اور فرانس نے بھی اپنی افواج کو جنرل پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ لندن میں جرمنی کے سفیر پرنس لیچنوسکی ایک ٹیلی گرام لے کر آئے جس میں ایک بہت بڑی غیر معمولی خبر تھی کہ اگر جرمنی فرانس پر حملہ نہ کرنے پر راضی ہو جائے تو برطانیہ جنگ سے غیر جانب دار رہے گا۔ اس پیغام کے بعد جرمنی کے حکمران قیصر ول ہیلم دوم نے اپنی فوجی کمانڈروں کو مغرب کی جانب پیش قدمی کرنے سے روک دیا اور مشرق کی جانب پیش قدمی کی تیاری شروع کر دی۔



تاہم چند گھنٹوں کے بعد یہ خبر سامنے آئی کہ لندن میں جرمنی کے سفیر پرنس لیچنوسکی کو برطانوی موقف سمھجنے میں غلطی ہوئی جس کے بعد جرمنی نے اپنے پہلے منصوبے کے مطابق فرانس کی جانب مارچ شروع کر دیا۔ روس میں جرمنی کے سفیر نے اپنی حکومت کی جانب سے جنگ کے سرکاری اعلان اس وقت کے روسی وزیرسرگئی ساسونوف کے حوالے کیا۔

دو اگست 1914 کا دن، برطانوی حکومت جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ نہ کرسکی

روس کے راس پوتن نے اس وقت کے روسی حکمران کو متنبہ کیا اگر روس جنگ میں شامل ہوا تو روس میں ''آنسوؤں کا سمندر'' آ جائے گا۔ ادھر جرمنی نے اپنی افواج کو لیگزم برگ کی جانب بھیجنے کے بعد بیلجیم کی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے اس سے اپنی افواج کے لیے محفوظ راستے فراہم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ دوسری جانب برطانوی حکومت پہلی جنگِ عظیم میں شامل ہونے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکی تاہم فرسٹ لارڈ آف ایڈمیرٹلی ونسٹن چرچل نے بیلجیم کی غیر جانب داری کی خلاف ورزی ہونے کی صورت میں مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی۔



اس وقت کے برطانوی وزیرِاعظم ہینری ایسکویتھ نے لندن کے رہائشیوں کے درمیان جنگ کے لیے مقبول اور جوش و خروش جذبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا '' اب وہ اپنی گھنٹیاں بجا رہے ہیں اور چند ہفتوں کے بعد وہ اپنے ہاتھ بجا رہے ہوں گے''۔ دو اگست 1914ء کی رات گئے بیلجیم نے جرمنی کا الٹی میٹم مسترد کردیا جس کے جواب میں جرمن سفارت کار نے کہا ''بے چارے غریب احمق''۔

تین اگست 1914 کا دن،جرمن سفیر نے جنگ کا سرکاری اعلان فرانس کے حوالے کردیا

تین اگست 1914 کو لندن میں عام تعطیل تھی تاہم اس وقت کی برطانوی کابینہ کا بحران پر مشاروت کے لیے دوبارہ اجلاس ہوا۔ دوپہر کو اس وقت کے برطانوی وزیرِ خارجہ سر ایڈورڈ گرے نے ہاؤس آف کامنز میں کھڑے ہو کر برطانوی پوزیشن بیان کی۔ زرد اور اترے ہوئے چہرے سے انھوں نے متنبہ کیا کہ برطانیہ کا جنگ سے جانب دار رہنا اس کے لیے شدید نقصان دہ ہو گا اور ہمارے ایک طرف کھڑے رہنے سے ''ہم ہمارے احترام، اچھے نام اور اس کی ساکھ کو قربان کر دیں گے''۔



ادھر پیرس میں جرمن سفیر نے اپنی حکومت کی جانب سے جنگ کے سرکاری اعلان کو فرانس کے حوالے کیا۔ اس وقت کے برطانوی وزیرِ خارجہ نے اپنے دفتر کی کھڑکی سے گھورتے ہوئے کہا '' لیمپ تمام یورپ سے باہر جا رہے ہیں، ہم ان کو ہماری زندگی میں دوبارہ روشن نہیں دیکھیں گے''۔

چار اگست 1914 کا دن، فرانسیسی صبح جب سو کر اٹھے تو خود کو جنگ میں شامل پایا

چار اگست1914کی صبح فرانسیسی افراد جب سو کر اٹھے تو انھوں نے خود کو جنگ میں شامل پایا۔ برطانیہ نے جرمنی کو الٹی میٹم بھیجا کہ وہ بیلجیم کی جانب داری کا احترام کرے اور اس کے لیے انھوں نے گرینج مین ٹائم کے مطابق رات11بجے کا وقت مقرر کیا۔ اس وقت تک بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی اور برطانیہ کو اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ جرمن افواج پہلے ہی بیلجیم پر چڑھائی کر چکی تھیں۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہو چکا تھا، سب کی نگاہیں گھڑی کی جانب تھیں۔ وقت گزرتا رہا، حتمی مہلت گزر گئی اور آخر کار برطانیہ پہلی جنگِ عظیم میں شامل ہو ہی گیا۔



پانچ اگست 1914 کا دن،مونٹی نیگرو نے بھی آسٹریا اور ہنگری کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا

اعلانِ جنگ کے صرف 12 گھنٹوں کے بعد برطانوی اخبارات نے رضا کاروں کو بلا لیا۔ لندن میں قائم جرمن سفارت خانے سے جرمنی کے عقاب کو ہٹا دیا گیا اور برطانوی سفیر برلن سے واپس چلے گئے۔ جرمنی کے اخبارات نے ملک میں جنگ کے بخار کی کیفیت پیدا کر دی۔ ان اخبارات کا کہنا تھا کہ بیلجیم کی حکومت جرمنی کے سپاہیوں پر مظالم ڈھا رہی تھی۔ اطلاعات کے مطابق روس کے جاسوس ہر جگہ پھیل چکے تھے۔ جنگ کے مغربی محاذ پر بیلجیم کے شہر لیج کے ارد گرد 40,000 افراد کی جانب سے ایک چوکی کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ جرمن افواج کو ایسا مضبوط دفاع دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ ادھر مونٹی نیگرو نے بھی آسٹریا اور ہنگری کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔



چھ اگست1914 کا دن، آسٹریا اور ہنگری نے روس، سربیا نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا

آسٹریا اور ہنگری نے روس جب کہ سربیا نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ جرمنی کے ہوائی جہاز نے بیلجیم کے شہر لیج پر حملہ کر دیا جو کسی بھی یورپی شہر پر پہلا حملہ تھا۔ اس حملے میں نو عام شہری ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد 1,50,000 جرمن فوج بیلجیم کے قلعے کے احاطہ کر چکی تھیں تاہم اس حملے میں 8,000 جرمن سپاہی ہلاک ہو چکے تھے۔ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری برائے جنگ لارڈ کچنر نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ انھیں امید ہے کہ یہ جنگ کم سے کم تین سال تک جاری رہے گی۔ ادھر فرانسیسی افواج نے انیچو کے سرحدی قصبے ٹوگو لینڈ پر قبضہ کر لیا جو جرمنی کے علاقے کا پہلا قبضہ تھا۔

سات اگست 1914کا دن، جرمن افواج نے بیلجیم کے شہر لیج پر قبضہ کرلیا

رات کی آرٹلری بمباری کے بعد جرمن افواج نے بیلجیم کے شہر لیج پر مزید کسی مزاحمت کے قبضہ کر لیا۔ ادھر لندن کے ریکروٹمنٹ آفس میں رضا کاروں کا تانتا بندھا ہوا تھا جسے قابو کرنے کے لیے اضافی پولیس کی ضرورت تھی۔ سر جان فرینچ کی قیادت میں برطانوی افواج نے فرانس میں اترنا شروع کیا۔



آٹھ اگست 1914 کا دن، ساؤتھ ہیمٹن بندرگاہ پر سونا،چاندی سے لدا جہاز پہنچا

مونٹی نیگرو نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ ادھر فرانس نے 43 سال قبل فرانس اور روس کی جنگ میں کھویا ہوا علاقے واپس حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ انھوں نے ملہاؤس کے قصبے پر فبضہ کر لیا تاہم وہ اس پر اپنا کنٹرول صرف ایک روز ہی رکھ پائے جب تک جرمنی فوج نے جوابی کارروائی نہیں کی۔ دوسری جانب برطانوی بندرگاہ ساؤتھ ہیمٹن میں بحری جہاز وائٹ اسٹار پہنچتا ہے جس کے تعاقب میں جرمنی کی بحریہ کا اٹلانٹک فلیٹ تھا۔ اس جہاز پر پندرہ ملین ڈالر مالیت کا سونا اور چاندی لدا ہوا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں