پاکستانی ’’نیک پروین‘‘ بولی وڈ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوتی ہیں سہیل خان
فلم ’’شورشرابہ‘‘ کی شوٹنگ رواں سال شروع ہوجائے گی، پیپر ورک مکمل ہے، فلمساز سہیل خان
فلمساز سہیل خان کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، یہ وہ شخصیت ہے جنہوں نے پاک بھارت مشترکہ فلم سازی کے خواب کو سچ ثابت کر دکھایا۔
انہوں نے بھارتی معروف پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور رائٹر مہیش بھٹ، مکیش بھٹ کے ساتھ مل کر جوائنٹ ایڈونچر کے تحت ''دی کلر'' ، ''جنت'' ، ''نظر'' ، ''گینگسٹر''، ''آوارہ پن'' اور ''جشن '' جیسی کامیاب فلمیں بنائیں ، یہی نہیں بلکہ ان فلموں کو پاکستان کے سینماؤں میں نمائش کے لئے پیش کیا گیا جس نے سینما انڈسٹری کے مردہ جسم میں جان ڈال دی۔ اب وہ فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے ''شورشرابہ '' اور ''خوشی'' کے نام سے فلموں کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس کی کاسٹ پاکستانی فنکاروں پر مشتمل اور تمام تر عکسبندی بھی یہیں پر کی جائے گی۔
اس حوالے سے سہیل خان کا ایکسپریس نے خصوصی انٹرویو کیا جو نذر قارئین ہے ۔ بولی وڈ کے ساتھ کو پروڈکشن کے سوال پر سہیل خان نے کہا کہ اصل مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک کے فنکار مل کر کام کریں ، فلمی اور ثقافتی رابطے بڑھیں، پھر فلمیں بھی بنیں، پاکستانی فنکار اور گلوکار بھی گئے۔ مگر آخر میں ہوا یہ کہ ہم نے مہیش بھٹ کے ساتھ جتنی بھی فلمیں کو پروڈکشن میں بنائیں ان پرٹھپا انڈین فلم کا ہی لگا اور پاکستان میں بھی سرکاری سطح پر اسے پاکستانی فلمساز کی فلم تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔
کو پروڈکشن میں بننے والی فلم ''آوارہ پن'' کی پاکستان میں نمائش ہوئی تو پھر بولی وڈ فلمیں امپورٹ کی جانے لگیں ، تو اس سے ختم ہوتی سینما انڈسٹری کو سہارا مل گیا، 2007ء میں جب یہ فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی تو اس وقت کافی شور بھی مچایا گیا، مگر آج سینما انڈسٹری خوش ہیں۔
ہماری کو پروڈکشن کے تحت بننے والی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے بعد بولی وڈ فلموں کی عام نمائش کا سلسلہ شروع ہونے پر بھارتی فلمساز، ڈسٹری بیوٹرز کو لگنے لگا کہ اب ہماری فلمیں ویسے ہی پاکستان میں نمائش ہونا شروع ہوگئی ہیں اس لئے اب ہمیں کو پروڈکشن کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ ہم تو یہ چاہ رہے تھے کہ پاکستانی اور بھارتی فنکار زیادہ سے زیادہ مل کر کام کریں ، مگر مہیش بھٹ اور ان کے بھائی مکیش بھٹ اپنے ساتھ مزید پاکستانیوں کو ساتھ لے کر چلنے میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے کیونکہ وہ جب اپنی مارکیٹ کو دیکھتے تھے تو اس میں انہیں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ کام کرنے میں فائدہ تھا۔
دوسری طرف انہیں سونی بی ایم جی سمیت دیگر امریکن ملٹی نیشنل کمپنیاں مل گئیں۔ جس سے ان کا پاکستان کے ساتھ کو پروڈکشن کرنے کا جو چارم تھاوہ ختم ہوگیا۔ملٹی نیشنل کمپنیاں ملنے اور پاکستان میں بولی وڈ فلموں کی نمائش شروع ہونے کے بعد انہیں ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ جس کے بعد وہ کوپروڈکشن کے حوالے سے معاملات کو لٹکاتے ہوئے اپنی ہوم پروڈکشن کی فلمیں بنانے میں لگ گئے۔
اس پر میں نے دیکھا کہ مجھ سے سرمایہ لینے کے باوجود کو پروڈکشن کی فلمیں نہیں بنا رہے تو میں سمجھ گیا کہ پاک بھارت مشترکہ فلمسازی والا باب اب بند ہوگیاہے، جس پر ان کے ساتھ الجھنے کی بجائے پاکستان میں ہی فلمیں بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا۔ اب جب ہم نے اپنی لوکل پروڈکشن کا سوچا، جہاں فلم بنانے والے کے پاس نہ تو کوئی اوورسیز مارکیٹ ہے، نہ کوئی سٹیلائٹس اور نہ ہی آڈیو ویڈیوز کے رائٹس کی سہولت، اسے صرف سینماؤں سے ہی پیسہ ملنا ہے۔
اُس وقت صرف پندرہ سے بیس سینما تھے، ہم نے فیصلہ کیا کہ جب تک 35 سے 40 سینما اور پانچ سوکی ٹکٹ نہ ہوجائے، اس وقت تک فلم پروڈکشن شروع نہیں کریں گے،کیونکہ کوئی بھی اپنے سرمائے پر رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس لئے ہم نے فلم کے سکرپٹ ، میوزک ، لوکیشنز ، کاسٹنگ سمیت تمام پری پروڈکشن کو مکمل کیا۔ اب ماشاء اللہ پاکستان میں فلم کی اوپننگ کے لئے چالیس کے قریب سینما مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور فلم کا بزنس پندرہ سے بیس کروڑ تک چلا گیا ہے۔ ہمارے پاس اس وقت چار فلموں کی پری پروڈکشن تیار پڑی ہوئی ہیں مگر ہم ایک پلاننگ اور منصوبہ بندی کے تحت انہیں مارکیٹ میں لائیں گے۔
جہاں تک بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش اور بزنس کی بات ہے تو بولی وڈ والوں کے لئے محض پاکستان ایک چھوٹی سی مارکیٹ ہے جبکہ پاکستانی پروڈیوسر کے لئے یہی سب کچھ ہے کیونکہ وہ اس غلطی فہمی نہیں رہ سکتا کہ اس کی فلم بھارت سمیت دیگر یورپی ممالک میں نمائش ہوگی، اس کی فلم کے رائٹس خریدے جائیں گے۔ اسے صرف پاکستانی سینماؤں سے ہی کو لیکشن ملے گی۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پروڈیوسر اپنی فلم کا بجٹ بناکر کام شروع کرے گا۔
اوورسیز مارکیٹ میں پاکستانی فلم لگانے کے سوال پر سہیل خان نے کہا کہ یہاں پر فلم بنانے والے کا پہلا ٹارگٹ پاکستانی سینما مارکیٹ ہی ہوگی، اوورسیز میں فلم لگانے ہر پروڈیوسر کی اپنی ہمت پر ہے ،وہاں فلم لگانے کے لئے ڈسٹری بیوٹرز کو پروموشن کے لئے علیحدہ سے پیسہ دینا ہوگا۔ فی الحال تو ہمارا فوکس اپنی سینما مارکیٹ ہوگی جس کے بعد ہم بھارت اوراوورسیز میں بھی فلم لگائیں گے ۔ ہم رواں سال میں فلم ''شورشرابہ'' کی شوٹنگ شروع کرنے جارہے ہیں جسے پہلے ہم پنجابی زبان میں بنانا چاہتے تھے مگر مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے اردو میں بنائیں گے مگر اس کا بیک گراونڈ پنجابی ہی ہے جبکہ دوسری فلم ''خوشی'' پنجابی ہی ہوگی۔
''شورشرابہ '' کے لئے انڈین ڈائریکٹر اور کیمرہ مین لینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد معیاری فلم بنانا ہے جس پر کوئی کمپرومائز نہیں کر رہے ، اسی لئے ہم نے فلم کے لئے کیمرہ مین اور ڈائریکٹر انڈین سائن کیا۔ویسے بھی ہمارے کمرشل بھارت میں ہی بن رہے ہیں، جہاں تک ڈائریکٹر حسنین حیدر آباد والہ کا تعلق ہے تو وہ ہمارے لئے کو پروڈکشن میں بننے والی ''دی کلر'' اور ''جشن'' جیسی فلمیں بنا چکے ہیں اس لئے وہ ہمارا ڈائریکٹر ہے جو پہلے بھارت میں ہمارے لئے کام کرتا تھا اب وہ یہاں ہمارا ہی کام کرے گا ۔وہ فلم ''شورشرابہ'' کی لوکیشنز اور کاسٹنگ کو فائنل کرنے پاکستان آئے تھے اور اب جلد ہی شوٹنگ کے لئے دوبارہ آئیں گے۔
بھارتی ڈائریکٹر اور کیمرہ مین کے ساتھ ہم یہاں کے نوجوان ٹیلنٹ کو اسٹنٹ کی حیثیت سے ٹریننگ دیں گے تاکہ وہ آگے چل کر کام کو سنبھالیں۔ ہمارے ہدایتکار چالیس سال کے دوران ایک اسٹنٹ تک نہیں بنا سکے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ نوجوان کام کو سمجھیں اور پھر مستقبل میں بطور ڈائریکٹر فلم بنائیں کیونکہ ہمارا مقصد انڈین کو یہاں مستقل کام کروانا نہیں ہے۔
پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں پر فلم کے لئے لڑکے لڑکیاں نہیں ملتے، کیونکہ فلمیں یہاں بہت کم بن رہی ہیں اور فلم میں آنے کی بجائے لڑکے، لڑکیاں ماڈلنگ اور ٹی وی میں جانا پسند کرتے ہیں۔ ٹی وی پر پندرہ سے بیس سال کام کرنا ایک فلم کے برابر ہے۔ آج کے دور میں فلم کی جو ڈیمانڈ ہے وہ ہمیں ان میں نظر نہیں آتی، کیونکہ اگر کوئی چہرہ خوبصورت ہے تو اس کو ایکٹنگ نہیں آتی، اگر ایکٹنگ کی تھوڑی سمجھ بوجھ ہے تو جسم کے لحاظ سے فٹ نہیں ہوتے۔
اگر غلطی سے کسی ٹی وی ایکٹریا ایکٹریس کو آفرکریں تو وہ بہت زیادہ مصروف ہوجاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی اداکارائیں یہاں پر نیک پروین ہیں جبکہ بھارت جاکر وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں جو پاکستان میں ڈیمانڈ ہی نہیں ہوتا ۔ پچھلے دس سالوں میں جتنی بھی پاکستانی اداکارائیں بھارت گئیں انہوں نے ملک وقوم کو بدنام ہی کیا ہے ۔ ہم اپنی فلم ''شورشرابہ'' کے لئے ہیروئن کو تلاش کر رہے ہیں ، ہمارے دروازے نئے ٹیلنٹ کے لئے کھلے ہیں ، وہ آئیں ہم انہیں موقع دیں گے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے بھارتی فلمیں امپورٹ کیوں نہیں کیں تو سہیل خان نے کہا کہ میں ڈسٹری بیوٹر نہیں بننا چاہتا، صرف پروڈیوسر اور پارٹنر کی حیثیت سے ہی کام کرنا چاہتا ہوں ۔فلم پروڈیوسر بناتا ہے مگر یہاں پر انوسٹمنٹ کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے، یہاں ابھی تک پروپیگنڈہ فلمیں بن رہی ہیں۔ ان پروپیگنڈہ فلمیں بنانے والے پروڈیوسرز کو کوئی دلچسپی نہیں کہ اسے کتنا منافع آنا ہے۔ پہلے پروڈیوسر کو فلم شروع کرتے ہی پیسہ آجاتا تھا، اب جب پروڈیوسر کا اپنی جیب سے پیسہ لگانے کا وقت آیا تو وہ بھاگ گیا۔
بولی وڈ میں بھی اسی طرح فلمیں بن رہی ہیں۔ فلم انڈسٹری کو 2010 ء میں صنعت کا درجہ دیا جاچکا ہے مگر اکثریت کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے۔ حکومت اسلام آباد میں جدید سٹوڈیو بنانے جارہی تھی مگر اس سارے پراجیکٹ کا بیڑہ غرق اٹھارہویں ترمیم نے کردیا ، جس کے تحت فیڈرل منسٹری کو توڑ کر صوبوں کو دے دی گئی ، جو انتہائی غلط فیصلہ ہوا ہے جس کو فی الفور بحال کیا جانا چاہیے۔
ٹی وی پروڈکشن میں میگا ڈرامہ سیریل ''اقراء'' بنایا تھا ، جو ٹاپ ریٹ ڈرامہ ہوا ، مگر مزید پروڈکشن نہیں کی کیونکہ میرا ٹمپرامنٹ ٹی وی والا نہیں ہے۔ انڈیا پاکستانیوں کو پروموٹ نہیں کرتا یہ صرف ہمار ا خیال ہوسکتا ہے اسے جہاں سے کوئی چیز ملے گی وہ اٹھا لے گا ۔مہیش بھٹ سے ہمارا ایک مالی تنازعہ چل رہاہے جسے ہم افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اگر ایسا نہ ہوا تو تمام ثبوتوں کے ساتھ میڈیا کے سامنے ان کا اصل گھناؤنا چہرہ سامنے لاؤں گا کہ پاک بھارت دوستی کے دعوے دار اندر سے کتنے گھٹیا اور دھوکے باز لوگ ہیں۔
انہوں نے بھارتی معروف پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور رائٹر مہیش بھٹ، مکیش بھٹ کے ساتھ مل کر جوائنٹ ایڈونچر کے تحت ''دی کلر'' ، ''جنت'' ، ''نظر'' ، ''گینگسٹر''، ''آوارہ پن'' اور ''جشن '' جیسی کامیاب فلمیں بنائیں ، یہی نہیں بلکہ ان فلموں کو پاکستان کے سینماؤں میں نمائش کے لئے پیش کیا گیا جس نے سینما انڈسٹری کے مردہ جسم میں جان ڈال دی۔ اب وہ فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے ''شورشرابہ '' اور ''خوشی'' کے نام سے فلموں کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس کی کاسٹ پاکستانی فنکاروں پر مشتمل اور تمام تر عکسبندی بھی یہیں پر کی جائے گی۔
اس حوالے سے سہیل خان کا ایکسپریس نے خصوصی انٹرویو کیا جو نذر قارئین ہے ۔ بولی وڈ کے ساتھ کو پروڈکشن کے سوال پر سہیل خان نے کہا کہ اصل مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک کے فنکار مل کر کام کریں ، فلمی اور ثقافتی رابطے بڑھیں، پھر فلمیں بھی بنیں، پاکستانی فنکار اور گلوکار بھی گئے۔ مگر آخر میں ہوا یہ کہ ہم نے مہیش بھٹ کے ساتھ جتنی بھی فلمیں کو پروڈکشن میں بنائیں ان پرٹھپا انڈین فلم کا ہی لگا اور پاکستان میں بھی سرکاری سطح پر اسے پاکستانی فلمساز کی فلم تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔
کو پروڈکشن میں بننے والی فلم ''آوارہ پن'' کی پاکستان میں نمائش ہوئی تو پھر بولی وڈ فلمیں امپورٹ کی جانے لگیں ، تو اس سے ختم ہوتی سینما انڈسٹری کو سہارا مل گیا، 2007ء میں جب یہ فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی تو اس وقت کافی شور بھی مچایا گیا، مگر آج سینما انڈسٹری خوش ہیں۔
ہماری کو پروڈکشن کے تحت بننے والی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے بعد بولی وڈ فلموں کی عام نمائش کا سلسلہ شروع ہونے پر بھارتی فلمساز، ڈسٹری بیوٹرز کو لگنے لگا کہ اب ہماری فلمیں ویسے ہی پاکستان میں نمائش ہونا شروع ہوگئی ہیں اس لئے اب ہمیں کو پروڈکشن کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ ہم تو یہ چاہ رہے تھے کہ پاکستانی اور بھارتی فنکار زیادہ سے زیادہ مل کر کام کریں ، مگر مہیش بھٹ اور ان کے بھائی مکیش بھٹ اپنے ساتھ مزید پاکستانیوں کو ساتھ لے کر چلنے میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے کیونکہ وہ جب اپنی مارکیٹ کو دیکھتے تھے تو اس میں انہیں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ کام کرنے میں فائدہ تھا۔
دوسری طرف انہیں سونی بی ایم جی سمیت دیگر امریکن ملٹی نیشنل کمپنیاں مل گئیں۔ جس سے ان کا پاکستان کے ساتھ کو پروڈکشن کرنے کا جو چارم تھاوہ ختم ہوگیا۔ملٹی نیشنل کمپنیاں ملنے اور پاکستان میں بولی وڈ فلموں کی نمائش شروع ہونے کے بعد انہیں ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ جس کے بعد وہ کوپروڈکشن کے حوالے سے معاملات کو لٹکاتے ہوئے اپنی ہوم پروڈکشن کی فلمیں بنانے میں لگ گئے۔
اس پر میں نے دیکھا کہ مجھ سے سرمایہ لینے کے باوجود کو پروڈکشن کی فلمیں نہیں بنا رہے تو میں سمجھ گیا کہ پاک بھارت مشترکہ فلمسازی والا باب اب بند ہوگیاہے، جس پر ان کے ساتھ الجھنے کی بجائے پاکستان میں ہی فلمیں بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا۔ اب جب ہم نے اپنی لوکل پروڈکشن کا سوچا، جہاں فلم بنانے والے کے پاس نہ تو کوئی اوورسیز مارکیٹ ہے، نہ کوئی سٹیلائٹس اور نہ ہی آڈیو ویڈیوز کے رائٹس کی سہولت، اسے صرف سینماؤں سے ہی پیسہ ملنا ہے۔
اُس وقت صرف پندرہ سے بیس سینما تھے، ہم نے فیصلہ کیا کہ جب تک 35 سے 40 سینما اور پانچ سوکی ٹکٹ نہ ہوجائے، اس وقت تک فلم پروڈکشن شروع نہیں کریں گے،کیونکہ کوئی بھی اپنے سرمائے پر رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس لئے ہم نے فلم کے سکرپٹ ، میوزک ، لوکیشنز ، کاسٹنگ سمیت تمام پری پروڈکشن کو مکمل کیا۔ اب ماشاء اللہ پاکستان میں فلم کی اوپننگ کے لئے چالیس کے قریب سینما مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور فلم کا بزنس پندرہ سے بیس کروڑ تک چلا گیا ہے۔ ہمارے پاس اس وقت چار فلموں کی پری پروڈکشن تیار پڑی ہوئی ہیں مگر ہم ایک پلاننگ اور منصوبہ بندی کے تحت انہیں مارکیٹ میں لائیں گے۔
جہاں تک بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش اور بزنس کی بات ہے تو بولی وڈ والوں کے لئے محض پاکستان ایک چھوٹی سی مارکیٹ ہے جبکہ پاکستانی پروڈیوسر کے لئے یہی سب کچھ ہے کیونکہ وہ اس غلطی فہمی نہیں رہ سکتا کہ اس کی فلم بھارت سمیت دیگر یورپی ممالک میں نمائش ہوگی، اس کی فلم کے رائٹس خریدے جائیں گے۔ اسے صرف پاکستانی سینماؤں سے ہی کو لیکشن ملے گی۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پروڈیوسر اپنی فلم کا بجٹ بناکر کام شروع کرے گا۔
اوورسیز مارکیٹ میں پاکستانی فلم لگانے کے سوال پر سہیل خان نے کہا کہ یہاں پر فلم بنانے والے کا پہلا ٹارگٹ پاکستانی سینما مارکیٹ ہی ہوگی، اوورسیز میں فلم لگانے ہر پروڈیوسر کی اپنی ہمت پر ہے ،وہاں فلم لگانے کے لئے ڈسٹری بیوٹرز کو پروموشن کے لئے علیحدہ سے پیسہ دینا ہوگا۔ فی الحال تو ہمارا فوکس اپنی سینما مارکیٹ ہوگی جس کے بعد ہم بھارت اوراوورسیز میں بھی فلم لگائیں گے ۔ ہم رواں سال میں فلم ''شورشرابہ'' کی شوٹنگ شروع کرنے جارہے ہیں جسے پہلے ہم پنجابی زبان میں بنانا چاہتے تھے مگر مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے اردو میں بنائیں گے مگر اس کا بیک گراونڈ پنجابی ہی ہے جبکہ دوسری فلم ''خوشی'' پنجابی ہی ہوگی۔
''شورشرابہ '' کے لئے انڈین ڈائریکٹر اور کیمرہ مین لینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد معیاری فلم بنانا ہے جس پر کوئی کمپرومائز نہیں کر رہے ، اسی لئے ہم نے فلم کے لئے کیمرہ مین اور ڈائریکٹر انڈین سائن کیا۔ویسے بھی ہمارے کمرشل بھارت میں ہی بن رہے ہیں، جہاں تک ڈائریکٹر حسنین حیدر آباد والہ کا تعلق ہے تو وہ ہمارے لئے کو پروڈکشن میں بننے والی ''دی کلر'' اور ''جشن'' جیسی فلمیں بنا چکے ہیں اس لئے وہ ہمارا ڈائریکٹر ہے جو پہلے بھارت میں ہمارے لئے کام کرتا تھا اب وہ یہاں ہمارا ہی کام کرے گا ۔وہ فلم ''شورشرابہ'' کی لوکیشنز اور کاسٹنگ کو فائنل کرنے پاکستان آئے تھے اور اب جلد ہی شوٹنگ کے لئے دوبارہ آئیں گے۔
بھارتی ڈائریکٹر اور کیمرہ مین کے ساتھ ہم یہاں کے نوجوان ٹیلنٹ کو اسٹنٹ کی حیثیت سے ٹریننگ دیں گے تاکہ وہ آگے چل کر کام کو سنبھالیں۔ ہمارے ہدایتکار چالیس سال کے دوران ایک اسٹنٹ تک نہیں بنا سکے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ نوجوان کام کو سمجھیں اور پھر مستقبل میں بطور ڈائریکٹر فلم بنائیں کیونکہ ہمارا مقصد انڈین کو یہاں مستقل کام کروانا نہیں ہے۔
پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں پر فلم کے لئے لڑکے لڑکیاں نہیں ملتے، کیونکہ فلمیں یہاں بہت کم بن رہی ہیں اور فلم میں آنے کی بجائے لڑکے، لڑکیاں ماڈلنگ اور ٹی وی میں جانا پسند کرتے ہیں۔ ٹی وی پر پندرہ سے بیس سال کام کرنا ایک فلم کے برابر ہے۔ آج کے دور میں فلم کی جو ڈیمانڈ ہے وہ ہمیں ان میں نظر نہیں آتی، کیونکہ اگر کوئی چہرہ خوبصورت ہے تو اس کو ایکٹنگ نہیں آتی، اگر ایکٹنگ کی تھوڑی سمجھ بوجھ ہے تو جسم کے لحاظ سے فٹ نہیں ہوتے۔
اگر غلطی سے کسی ٹی وی ایکٹریا ایکٹریس کو آفرکریں تو وہ بہت زیادہ مصروف ہوجاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی اداکارائیں یہاں پر نیک پروین ہیں جبکہ بھارت جاکر وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں جو پاکستان میں ڈیمانڈ ہی نہیں ہوتا ۔ پچھلے دس سالوں میں جتنی بھی پاکستانی اداکارائیں بھارت گئیں انہوں نے ملک وقوم کو بدنام ہی کیا ہے ۔ ہم اپنی فلم ''شورشرابہ'' کے لئے ہیروئن کو تلاش کر رہے ہیں ، ہمارے دروازے نئے ٹیلنٹ کے لئے کھلے ہیں ، وہ آئیں ہم انہیں موقع دیں گے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے بھارتی فلمیں امپورٹ کیوں نہیں کیں تو سہیل خان نے کہا کہ میں ڈسٹری بیوٹر نہیں بننا چاہتا، صرف پروڈیوسر اور پارٹنر کی حیثیت سے ہی کام کرنا چاہتا ہوں ۔فلم پروڈیوسر بناتا ہے مگر یہاں پر انوسٹمنٹ کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے، یہاں ابھی تک پروپیگنڈہ فلمیں بن رہی ہیں۔ ان پروپیگنڈہ فلمیں بنانے والے پروڈیوسرز کو کوئی دلچسپی نہیں کہ اسے کتنا منافع آنا ہے۔ پہلے پروڈیوسر کو فلم شروع کرتے ہی پیسہ آجاتا تھا، اب جب پروڈیوسر کا اپنی جیب سے پیسہ لگانے کا وقت آیا تو وہ بھاگ گیا۔
بولی وڈ میں بھی اسی طرح فلمیں بن رہی ہیں۔ فلم انڈسٹری کو 2010 ء میں صنعت کا درجہ دیا جاچکا ہے مگر اکثریت کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے۔ حکومت اسلام آباد میں جدید سٹوڈیو بنانے جارہی تھی مگر اس سارے پراجیکٹ کا بیڑہ غرق اٹھارہویں ترمیم نے کردیا ، جس کے تحت فیڈرل منسٹری کو توڑ کر صوبوں کو دے دی گئی ، جو انتہائی غلط فیصلہ ہوا ہے جس کو فی الفور بحال کیا جانا چاہیے۔
ٹی وی پروڈکشن میں میگا ڈرامہ سیریل ''اقراء'' بنایا تھا ، جو ٹاپ ریٹ ڈرامہ ہوا ، مگر مزید پروڈکشن نہیں کی کیونکہ میرا ٹمپرامنٹ ٹی وی والا نہیں ہے۔ انڈیا پاکستانیوں کو پروموٹ نہیں کرتا یہ صرف ہمار ا خیال ہوسکتا ہے اسے جہاں سے کوئی چیز ملے گی وہ اٹھا لے گا ۔مہیش بھٹ سے ہمارا ایک مالی تنازعہ چل رہاہے جسے ہم افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اگر ایسا نہ ہوا تو تمام ثبوتوں کے ساتھ میڈیا کے سامنے ان کا اصل گھناؤنا چہرہ سامنے لاؤں گا کہ پاک بھارت دوستی کے دعوے دار اندر سے کتنے گھٹیا اور دھوکے باز لوگ ہیں۔