ہالینڈ کا باکسر مصوّر
یہ باکسر طاقت وَر مُکوں سے کینوس پر فن پارے تخلیق کرتا ہے
باکسنگ اور مصوری دو یکسر مختلف فن ہیں۔ فن مصوری حساسیت و لطافت سے عبارت ہے۔
مصور اپنی قوت متخیلہ سے کام لیتے ہوئے پردۂ تصور پر کوئی شبیہہ تخلیق کرتا ہے اور پھر اسے بڑی نزاکت کے ساتھ کینوس پر منتقل کرتا ہے۔ دوسری جانب باکسنگ طاقت کا کھیل ہے جس میں طاقت وَر اپنے مُکوں سے کمزور حریف کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیتا ہے۔
باکسنگ اور مصوری کو یکجا کرنے کا تصور بھی محال ہے مگر ہالینڈ میں ایک باکسر ایسا ہے جو اپنے طاقت وَر مُکوں کو حریف کے بجائے کینوس پر برسا کر مصوری کے نمونے تخلیق کرتا ہے۔ وہ باکسنگ کے دستانے ہاتھوں پر چڑھا کر انھیں رنگ میں ڈبوتا ہے اور پھر پنچنگ بیگ کے گرد لپٹے ہوئے کینوس پر مُکے برسانا شروع کردیتا ہے۔ اس کی یہ مشق اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ کینوس پوری طرح رنگ میں نہ رنگ جائے۔
بارٹ وین کا کہنا ہے کہ وہ حریف کے دانت اور ہڈیاں توڑنے کے بجائے اپنے مُکوں کو تخلیقی کام کے لیے استعمال کرتا ہے۔ باکسر کے مطابق وہ ہمیشہ سے اپنے اندر ایک وحشی انسان کومحسوس کرتا تھا۔ اسی وحشی انسان کی تسکین کے لیے اس نے باکسنگ کو اپنایا۔ پھر ایک روز اسے مصوری کرنے کا خیال آیا، مگر اس کے لیے اس نے باکسنگ ہی کو ذریعہ بنانے کا سوچا۔
مصوری کے اسرار و رموز سے ناآشنا باکسر کا فیصلہ معاشی لحاظ سے اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہے۔ دنیا میںایسے سرپھروں کی کمی نہیں جو ہر شے کو خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چناں چہ بارٹ وین کے ' فن پارے' بھی دھڑادھڑ بِک رہے ہیں۔
مصور اپنی قوت متخیلہ سے کام لیتے ہوئے پردۂ تصور پر کوئی شبیہہ تخلیق کرتا ہے اور پھر اسے بڑی نزاکت کے ساتھ کینوس پر منتقل کرتا ہے۔ دوسری جانب باکسنگ طاقت کا کھیل ہے جس میں طاقت وَر اپنے مُکوں سے کمزور حریف کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیتا ہے۔
باکسنگ اور مصوری کو یکجا کرنے کا تصور بھی محال ہے مگر ہالینڈ میں ایک باکسر ایسا ہے جو اپنے طاقت وَر مُکوں کو حریف کے بجائے کینوس پر برسا کر مصوری کے نمونے تخلیق کرتا ہے۔ وہ باکسنگ کے دستانے ہاتھوں پر چڑھا کر انھیں رنگ میں ڈبوتا ہے اور پھر پنچنگ بیگ کے گرد لپٹے ہوئے کینوس پر مُکے برسانا شروع کردیتا ہے۔ اس کی یہ مشق اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ کینوس پوری طرح رنگ میں نہ رنگ جائے۔
بارٹ وین کا کہنا ہے کہ وہ حریف کے دانت اور ہڈیاں توڑنے کے بجائے اپنے مُکوں کو تخلیقی کام کے لیے استعمال کرتا ہے۔ باکسر کے مطابق وہ ہمیشہ سے اپنے اندر ایک وحشی انسان کومحسوس کرتا تھا۔ اسی وحشی انسان کی تسکین کے لیے اس نے باکسنگ کو اپنایا۔ پھر ایک روز اسے مصوری کرنے کا خیال آیا، مگر اس کے لیے اس نے باکسنگ ہی کو ذریعہ بنانے کا سوچا۔
مصوری کے اسرار و رموز سے ناآشنا باکسر کا فیصلہ معاشی لحاظ سے اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہے۔ دنیا میںایسے سرپھروں کی کمی نہیں جو ہر شے کو خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چناں چہ بارٹ وین کے ' فن پارے' بھی دھڑادھڑ بِک رہے ہیں۔